تحریر:رئیس احمد کمار
رحیم خان جو پھیپڑوں کے کینسر میں کئی سالوں سے مبتلا تھا اور جس کو بیرون ملک بھی علاج و معالجہ کی غرض سے لے جایا گیا تھا، آخر کار زندگی کی جنگ ہار گیا۔ اس کو دو بیٹے اور ایک اکلوتی بیٹی تھی ۔ کفن اور غسل مکمل کرنے کے بعد اسے دفنانا باقی تھا ۔ مقامی قبرستان کی طرف اس کی میت کو لے جاتے ہوئے اچانک ایک شخص جس کی لمبی داڑھی تھی اور خوبصورت کپڑوں میں ملبوس تھا نے میت کو دفنانے نہیں دیا ۔۔۔۔
جب اسے وجہ پوچھی گئی تو معلوم ہوا کہ رحیم خان نے ایک سال قبل اسے بارہ ہزار روپے ادھار لیے تھے اور ابھی تک واپس نہیں کیے تھے ۔ جب اس نے رحیم خان کی موت کی خبر سنی تو اس نے وہاں آنے میں دیر نہیں لگائی ۔ جب رحیم خان کے دو بیٹوں کو مولوی صاحب نے کہا کہ اس شخص کو جلد از جلد بارہ ہزار روپے دیے جائیں تب ہی اس کا جنازہ پڑھایا جا سکتا ہے تو دونوں بھائیوں نے یہ کہہ کر صاف انکار کیا کہ باپ نے ان کو کبھی اس کے بارے میں بتایا ہی نہیں ہے ۔
” ہم کیسے اس شخص کو بارہ ہزار روپے دے سکتے ہیں جب کہ ہمیں کچھ بھی پتہ نہیں ہے ۔ کچھ بھی ہو جائے ہم پیسے نہیں دیں گے ”
اتنے میں رحیم خان کی بیٹی کو کسی نے خبر پہنچائی جو زورو قطار رو رہی تھی اور اپنے بال نوچتی تھی ۔ ایک دم وہ کھڑا ہوئی اور اپنے لاکر سے اپنے سارے سونے کے زیورات لے کر قبرستان کی طرف دوڑتے ہوئے چلی گئی اور اس شخص کے حوالے کیں ۔۔۔۔
اس شخص نے زیورات لے کر کہا کہ ” آج مجھے بھی پتہ چلا کہ واقعی بیٹی ہی ماں باپ کی سب سے زیادہ رفیق اور اصل وارث ہوتی ہے ” ۔