از:اُم سلمہ
کوہ ماراں” نامی سہ ماہی رسالہ سال 2021میں جاری کیا گیا جس کے مدیر علی جناب سہیل سالم ؔہیں، جو خود بھی اردو زبان و ادب کے ایک سچے عاشق بھی ہے اور ایک مخلص خادم بھی ۔ اس رسالے کو جاری کر کے انہوں نے اردو کی ترقی و بہبودی کا جو بیڑا اٹھایا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ اس مجلے کے اب تک تین شمارے آ چکے ہیں۔ لیکن تیسر ا شمار ،خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اسکو خواتین کے لئے مخصوص کیا گیا اور اس میں علمی، ادبی، تحقیقی و تنقیدی مضامین کے ساتھ ساتھ نظمیں اور افسانے بھی شائع ہوئے جوتمام کے تمام خواتین کے لکھے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ خواتین مقالہ نگاروںنے ہی خواتین کی ہی تصنیفات پر مقالے لکھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس شمارے کو “جموں و کشمیر میں نسائی ادب” کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اس شمارے سے ہم ان مصنفات، شاعرات اور افسانہ نگاروں سے واقف ہو گئے جن کو یہاں کی ادبی فضا نے نظر اندا زکیا تھا اور ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جموں و کشمیر میں خواتین ادب کے معاملے میں مردوں سے کسی قدر پیچھے نہیں۔
رسالہ’’ کوہ ماراں جموں و کشمیر نسائی ادب نمبر‘‘کو تین زمروں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں مقالہ نگاروں نے شاعرات و مصنفات و قلمکاروں کی تصنیفات پر مقالے لکھے ہیں، جن میں ڈاکٹر کوثر رسول، ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی، ڈاکٹر نسرین کوثر، ڈاکٹر حمیرہ جان، اور دیگر معلمات اور اسکالرز کے مقالے شامل ہیں۔ ڈاکٹر کوثر رسول نے ترنم ریاض کے ناولٹ “مجسمہ” کا تجزیہ کر کے ایکو تانیثیت کو بڑے ہی پیچیدہ مگر خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ ناول کے حوالے سے بیان کرتی ہیں کہ “مجسمہ درحقیقت اس رشتہ یا وابستگی کا استعارہ ہے جو عورت اور فطرت کے درمیان ازل سے موجود ہے۔ مجسمہ کا تصور بظاہر غیر متنفس وجود مگر ایک خوبصورت خیال ہے جس کا واحد مقصد انسان کی جمالیاتی حس کی تسکین ہے مگر مجسمہ جمود کی بھی علامت ہے۔ جس کو منفی پیرائے میں لیں تو ہمارے لا شعور میں پلنے والے کئی خدشات یا وسوسوں کا بھی عامل ہے اور انسانی نفسیات میں بہ یک وقت محبت و خوف، خوبصورتی و بدصورتی دونوں کا تصور موجود رہتا ہے”۔ ڈاکٹر نسرین کوثر نے ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی کی فارسی سے ترجمہ کردہ کتاب “اچھی کہانیاں اچھے بچوں کے لئے” کا بہترین تعارف کرایا ہے۔ اس مضمون سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی نے اپنی ادبی خدمات کے ذریعہ نہ صرف اردو کی چاشنی میں اضافہ کیا ہے بلکہ غیر ملکی زبان کی لذات سے بھی لطف اندوز کرایا ہے۔ ڈاکٹر نسرین نے اپنے مضمون میں اس کتاب کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہوئے ایک نہایت ہی سچی بات کہی ہے کہ ادب اطفال کے حوالے سے برصغیر میں اردو زبان میں ایک بیش بہا ذخیرہ موجود ہے۔ ماضی کے تقریبا ہر ادیب نے بچوں کے لئے نظمیں، کہانیاں، ڈرامے اور ناول بچوں کی ذہنی اور اخلاقی ضروریات کو مدنظر رکھ کر لکھے ہیں اور آج بھی ایسا ادب خوبصورتی سے تخلیق کیا جا رہا ہے۔ لیکن ہماری ریاست میں ایسے ادب کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ ایسے میں “اچھی کہانیاں اچھے بچوں کے لئے” کتاب کا منظرعام پر آنا ایک مستحسن اورخوش آیند عمل ہے”۔ ایک اور اسکالر روحی جان کا مضمون ” اردو ادب میں جموں و کشمیر کی خواتین کا حصہ” نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ شروعات کی ہی چند سطور میں وہ مرد اور عورت کا ‘کون کس سے بہتر’ والا جھگڑا مٹاتے ہوئے فرماتی ہیں کہ”مرد کے وجود ہی سے عورت کا وجود بنایا گیا تاکہ یہ ایک دوسرے سے سکون اور انس حاصل کریں۔ دونوں ایک دوسرے سے سبقت لینے کے بجائے دونوں اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ تعاون عمل کر کے تمدن کی خدمت انجام دے سکتے ہیں”۔ اسی طرح باقی اسکالرز کے مضامین بھی قابل تعریف ہیں نہ صرف اسکالرز بلکہ انڈرگریجویٹ طالبات نے بھی اپنی تحریروں سے نسائی ادب میں اضافہ کیا ہے۔ یہی اس رسالہ کی سب سے بڑی اہمیت ہے کہ اس نے ہر ایک کو اپنے جذبات و احساسات اور خیالات کی ترجمانی اور نمائندگی کرنے کا موقع فراہم کیا۔ کہا جاتا ہے کہ رسالے قوم کا ایک اہم اثاثہ اور ترجمان ہوتے ہیں اور یہ رسالہ اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے۔
رسالہ کا دوسرا حصہ نظم اور غزلوں پر مشتمل ہے۔ جس میں ہماری وادی کی شاعرات نے لفظوں کی جادوگری دکھا کے قاری کو اپنے سحر میں گرفتار کیا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ اپنی بلند خیالی، ندرت اور سادگی کا لوہا بھی منوایا ہے۔ خاص کر رخسانہ جبین، پروفیسر نصرت چودھری، پروفیسرشفیقہ پروین، رخسانہ پروین، سدھا جین انجم، ڈاکٹر درخشاں اندرابی وغیرہ کے کلام سے رسالہ جگمگا اٹھا ہے۔ پروفیسر نصرت آرا نے محبوب کی بے وفائی کی اپنی غزل میں کچھ اسطرح شکایت کی ہے۔
وعدوں پر اس کے کس کو یقین پھر بھی دیکھنا
ہر شخص انتظارمیں زنجیر بن گیا
آگے اور لکھتی ہیں ؎
نصرت یہ آج اس نے کہا تھا آوں گا
کیا عذر ہے جو باعث تاخیر بن گیا
پروفیسرشفیقہ پروین کے اشعار عاشقانہ ہونے کے ساتھ ساتھ غم و الم کی داستان بھی ہیں ؎
کبھی جو میری شب زندگی میں آیا تھا
وہ ماہ چاند ستارے سبھی تو لایا تھا
آگے اور لکھتی فرماتی ہیں ؎
بھٹک رہی ہوں مگر تم کو یاد تو ہوگا
تمہارے سامنے ہی اپنا گھر جلایا تھا
ڈاکٹر درخشان اندرابی کی غزل بھی رومانیت میں کسی طرح پیچھے نہیں۔ انہوں نے دل کو چھو جانے والے شعر لکھے ہیں جیسے۔۔۔
یہ اور بات ہے کہ احساس کھا گیا دھوکا
تمہاری یاد تھی شامل تمہیں بھلانے میں
سوائے اس کے کہ اپنی خبر نہی اس کو
نہ پائی کوئی کمی آپ کے دیوانے میں
کوہ ماراں کے اس شعری حصہ کو پڑھتے پڑھتے ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوتی۔ ہر شاعرہ کا انداز منفرد اور دلکش ہے جن کا فردا فردا یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں۔اسکے بعد رسالے کا تیسرا اور سب سے دلچسپ حصہ شروع ہوتا ہے۔ یہ حصہ افسانوں پر مشتمل ہے جس میں ترنم ریاض، ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی، میت کور، مینا یوسف اور دیگر بہترین افسانہ نگاروں کے افسانے شامل ہیں۔ ترنم ریاض کا افسامہ “میرا پیا گھر آیا” ایک لا جواب افسانہ ہے۔ اس میں ہمیں شمع نامی عورت کی بے بسی کی کہانی سنائی گئی ہے۔ کہانی عورت کی لاچارگی سے شروع ہوتی ہے اورآگے چل کر قاری کو شمع کے بارے میں شش و پنج میں ڈال کر مصنفہ نے کہانی کی دلچسپی میں بہترین اضافہ کیا ہے۔ اپنی فنی تکنیک اور مہارت کا استعمال کرتے ہوئے افسانے کا سبق آموز اختتام کیا ہے۔ اسکے بعد ہی واجدہ تبسم کا لکھا افسانہ “راز دل” شروع ہوتا ہے جس میں مرد کی بے بسی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ زنفرکھوکھر کے افسانے “چوک” میں مذاح اور سنجیدگی دونوں کا عنصر پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی کا تحریر کردہ افسانہ “سفید خون” سماج کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی طرح تبسم ضیا کا “ڈیٹ آف برتھ” ایک منفرد، دلچسپ اور مذاحیہ افسانہ ہے۔ مصنفہ نے چھوٹے سے واقعہ کو ایک ایسے انداز میں بیان کیا ہے جس کا کوئی ثانی نہیں۔ مجھے یہ افسانہ ذاتی طور پر بہت پسند آیا ۔ اسی طرح باقی افسانے جیسے “وہ لوٹ آیا۔۔۔مگر”، “اسیری کا چاند”، “بونا قد”، “اماں ملے تو کہاں ملے” وغیرہ سب کے سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔خلاصہ کلام یہ کہ رسالہ “کوہ ماراں ” کا یہ تیسرا شمارہ جو کہ جموں وکشمیر کے نسائی ادب نمبر پر مشتمل ہے،ایک معیاری اور مثالی شمارہ ہے۔ ایسے ہی رسائل اور جرائد ہوتے ہیں جو بعد میں تاریخ رقم کرتے ہیں اور کتب خانوں کی زینت بنتے ہیں اور یہ بات بھی سچ ہے
کہ جس کام کا بیڑا جناب سہیل سالم ؔنے اٹھایا ہے شایدیہ کام کسی اور سے ممکن ہی نہیں تھا۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ ان کے اس نیک کام میں اور ترقی عطا فرمائے اور اردو زبان ہماری وادی میں پھلتی پھولتی رہے۔
(مضمون نگار ریسرچ اسکالر شعبہ فارسی کشمیر یونیورسٹی ہیں)