ترجمہ وتلخیص: فاروق بانڈے
(نوٹ :ہندوستانی نژاد رابن شرما ایک کینیڈین مصنف ہیں جو اپنی کتاب The Monk Who Sold his Ferrari کے لئے بہت مشہور ہوئے ۔ کتاب گفتگو کی شکل میں دو کرداروں، جولین مینٹل اور اس کے بہترین دوست جان کے ارد گرد تیار کی گئی ہے۔ جولین ہمالیہ کے سفر کے دوران اپنے روحانی تجربات بیان کرتا ہے جو اس نے اپنے چھٹی والے گھر اور سرخ فیراری بیچنے کے بعد کیا تھا۔اس کتاب کی اب تک 40 لاکھ سے زیاد ہ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔)
گزشتہ سے پیوستہ۔۔
اگرچہ جولین نے شیوانا کی اس جادوئی دنیا جیسی کوئی چیز کبھی نہیں دیکھی تھی، لیکن اس نے محسوس کیا کہ یہ ایک طرح کی گھر واپسی تھی، اس جنت میں واپسی جسے وہ بہت پہلے جانتا تھا۔ کسی طرح گلابوں کا یہ گاؤں اس کے لیے اتنا اجنبی نہیں تھا۔اس کی چھٹی حس بتا رہی تھی کہ اس کا یہاں سے تعلق ضرور ہے، خواہ صرف تھوڑے وقت کے لیے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ صحیح زندگی گزارنے کی خواہش کو دوبارہ زندہ کرے گا جو اس سے پہلے تھا۔ قانونی پیشے نے اس کی روح چھین لی تھی، ایک ایسی پناہ گاہ جہاں اس کی کچلی ہوئی روح آہستہ آہستہ ٹھیک ہونا شروع ہو جائے گی۔
اور یوں جولین کی زندگی کا آغاز سیوانا کے سنتوں کے ساتھ ہوا – ایک سادگی، سنجیدگی اور وحدانیت سے بھرپور زندگی۔ جلد ہی سب کچھ ٹھیک ہونے لگا۔
اب آگے
باب پانچ
باباؤں کاایک روحانی طالب علم
عظیم خواب دیکھنے والوں کے خواب کبھی پورے نہیں ہوتے، وہ ہمیشہ اسے تجاوز کر تے ہیں.
الفریڈ لارڈ وائٹ ہیڈ
اب رات کے 8 بج رہے تھے۔ اور مجھے ابھی بھی اگلے دن اپنی عدالت میں پیشی کی تیاری کرنی تھی۔ پھر بھی میں اس سابق قانونی بہادر کے تجربے سے سحرزدہہوا جس نے ہندوستان کے ان شاندار باباؤں سے ملاقات اور مطالعہ کرنے کے بعد اپنی زندگی کو ڈرامائی طور پر بدل دیا تھا۔ کتنا حیرت انگیز، اور کیا غیر معمولی تبدیلی! میں نے سوچا ۔میں سوچ رہا تھا کہ جولین نے جو راز اس دور دراز پہاڑی پناہگاہ میں سیکھے تھے کیاوہ میری زندگی کے معیار کو بھی بلند کر سکتے ہیں اور اس دنیا کے بارے میں میرے احساسِ حیرت کو تازہ کر سکتے ہیں جس میں ہم رہتے ہیں ۔ میں نے جولین کو جتنا زیادہ سنا، اتنا ہی مجھے احساس ہوا۔ کہ میری اپنی روح زنگ آلود ہو گئی تھی۔ اُس غیر معمولی جذبے کاکیا ہوا تھاجو میں ہر کام کرنے کے وقت رکھتا تھا،جب میں چھوٹا تھا؟ اس وقت، معمولی سی باتیں بھی مجھے خوشی کے احساس سے بھر دیتی تھیں ۔ شاید یہی وقت تھا کہ میں اپنی تقدیر کو از سرنو بدلوں۔
اس کے باہمت پہاڑی روحانی سفر کے بارے میں میری دلچسپی اور روشن خیال زندگی کے نظام کو سیکھنے کی ،جو کہ باباؤں نے اس تک پہنچایا تھا،میری بے تابی کو محسوس کرتے ہوئے جولین نے اپنی کہانی کو جاری رکھتے ہوئے رفتار تیز کردی۔ اس نے مجھے بتایا کہ کس طرح اس کی علم کی خواہش اور ذہانت کے لیے اس کی لگن کی وجہ سے، جو اس نے گزشتہ برسوں کے دوران عدالت میں قانونی لڑائی لڑتے ہوئے تیز تر ہو گئی تھی، نے اسے شیوانا برادری کا ایک پسندیدہ رکن بنا دیا تھا۔ جولین کے لیے ان کے پیار کے نشان کے طور پر،باباؤںنے بالآخر اسے اپنے گروہ کا اعزازی رکن بنا دیا اور اس کے ساتھ اپنے بڑھے ہوئے خاندان کے ایک لازمی حصہ کی طرح برتاؤ کیا۔
دماغ، جسم اور روح کے کاموں کے بارے میں اپنے علم کو بڑھانے کے لیے، اور اس پر دستِرس حاصل کرنے کے لیے، جولین نے لفظی طور پر ہر جاگتے ہوئے لمحے کو یوگی رمن کی سرپرستی میں گزارا۔ بابا ایک استاد سے زیادہ جولین کے لیے باپ کی طرح بن گئے، حالانکہ عمرمیں وہ اس سے صرف چند سال ہی بڑے تھے۔ یہ واضح تھا کہ اس شخص کے پاس کئی زندگیوں کی جمع حکمت تھی اور سب سے زیادہ خوشی کی بات ہے کہ وہ اسے جولین کے ساتھ بانٹنے کے لیے تیار تھا۔
طلوع فجر سے پہلے یوگی رمن اپنے پرجوش طالب علم کے ساتھ بیٹھتے تھے اور ا س کے ذہن کو زندگی کے معنی اور ان غیر معروف تکنیکوں کے بارے میں بصیرت سے بھرتا ہے جو اس نے زیادہ جیو ن شکتی، تخلیقی صلاحیتوں اور مکمل تکمیل کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے حاصل کی تھیں۔ اس نے جولین کو قدیم اصول سکھائے جن کے بارے میں اس نے کہا کہ کوئی بھی شخص زیادہ دنوں تک زندہ رہنے، جوان رہنے اور بہت زیادہ خوش رہنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ جولین نے یہ بھی سیکھا کہ کس طرح ذاتی مہارت اور خود ذمہ داری کے دو شعبے اسے بحران کے اس افراتفری کی طرف لوٹنے سے روکیں گے جس نے مغرب میں اس کی زندگی کومتاثرکیا تھا۔ جیسے جیسے ہفتے مہینوں میں بدلتے گئے، وہ اپنے ذہن میں موجود پوشیدہممکنہ خزانے کو بیدار ہونے اور اعلیٰ مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے انتظار میں پایا۔ کبھی کبھی استاد اور اس کا طالب علم بیٹھ کر نیچے گہرے سبزہ زاروں سے طلوع ہوتے ہندوستانی سورج کو دیکھتے رہتے کبھی کبھی وہ خاموش مراقبہ میں بیٹھتے اور خاموشی کے فوائد کا تجربہ کرتے، اور کبھی کبھی وہ دونوں دیودار کے جنگل میں چل کر فلسفے کے اصولوں پر گفتگو کرتے اور ایک دوسرے کی صحبت سے لطف اندوز ہوتے۔جولین نے کہا کہ ان کی ذاتی توسیع کے پہلے اشارے شیوانا میں صرف تین ہفتے گزارنے کے بعد آئے۔ اس نے سب عام چیزوں میں خوبصورتی کو دیکھنا شروع کیا۔ چاہے وہ تاروں سے بھری رات کا عجوبہ ہو یا بارش کے بعد مکڑی کے جالے کا جادو، جولین نے سب کچھ اپنے اندر سمو لیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے نئے طرز زندگی اور اس سے جڑی نئی عادات نے اس کے اندرون میں گہرا اثرڈالناشروع کر دیا تھا۔
اس نے مجھے بتایا کہ باباؤں کے اصولوں اور تکنیکوں کو لاگو کرنے کے ایک مہینے کے اندر اس نے امن اور اندرونی سکون کا وہ گہرا احساس محسوس کرنا شروع کر دیا جس سے وہ مغرب میں رہنے والے تمام برسوںمیں محروم رہا تھا۔ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ خوش اور بے ساختہ ،پرجوش اور تخلیقی ہوتا گیا ۔
جولین کے رویے میں تبدیلی کے بعد جسمانی قوت اور روحانی طاقت آئی۔ اس کا ایک بار زیادہ وزن والاجسم، مضبوط اور دبلا ہو گیا تھا جبکہ بیمار پیلا جو اس کے چہرے کی خصوصیت رکھتا تھا، کی جگہ صحت کی ایک شاندار چمک نے لے لی تھی۔ اس نے حقیقت میں ایسا محسوس کیا جیسے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، کچھ بھی ہو سکتا ہے اور لامحدود صلاحیتوں کو وا کر سکتا ہے جو اس نے جانا کہ ہم میں سے ہر ایک کے اندر موجود ہیں۔ اس نے زندگی کو پسند کرنا اور اس کے ہر پہلو میں الوہیت کو دیکھنا شروع کیا۔باباؤن کے اس صوفیانہ گروہ کے قدیم نظام نے اپنے معجزے دکھانا شروع کر دیے تھے۔
توقف کرنے کے بعد گویا اپنی ہی کہانی پر اعتماد کا اظہار نہ کرنے کے لیے، جولین فلسفیانہ انداز میں بولا۔ ”مجھے ایک بہت اہم چیز کا احساس ہوا ہے، جان۔
دنیا، اور اس میں میری اندرونی دنیا بھی شامل ہے، ایک بہت ہی خاص جگہ ہے۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ باہر کی کامیابی کا کوئی مطلب نہیں جب تک کہ آپ کے اندر بھی کامیابی نہ ہو۔ صحت مند رہنے اور مادی طاقت وررہنے میں بہت فرق ہے جب میں دھبنگ وکیل تھا تو میں ان تمام لوگوں پر ہنستا تھا جو اپنی اندرونی اور بیرونی زندگیوں کو بہتر بنانے کیلئے کام کرتے تھے۔ ‘زندگی حاصل کی!’ میں نے سوچا۔لیکن میں نے یہ سیکھا ہے کہ خود شناسی اور اپنے دماغ، جسم اور روح کی مستقل دیکھ بھال کسی کے اعلیٰ ترین نفس کو تلاش کرنے اور اپنے خوابوں کی زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ اگر آپ اپنا خیال نہیں رکھ سکتے تو آپ دوسروںکی پرواہ کیسے کر سکتے ہیں؟ آپ اچھا کیسے کر سکتے ہیں اگر آپ کو اچھا محسوس نہیں ہوتا؟ اگر میں خود سے محبت نہیں کر سکتا تو میںآپ سے محبت نہیں کر سکتا،” اس نے کہا ۔
اچانک جولین پریشان اور قدرے بے چین ہو گیا۔
”میں نے اس سے پہلے کبھی کسی کے سامنے اس طرح اپنا دل نہیں کھولا۔ میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں، جان۔ بس اتنا ہے کہ میں نے ان پہاڑوں میں تزکیہ نفس کا تجربہ حاصل کیا، کائنات کی طاقتوں کے لیے ایسی روحانی بیداری، کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ دوسروں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے جوکہ میں جانتا ہوں۔”
یہ دیکھتے ہوئے کہ دیر ہو رہی ہے، جولین نے جلدی سے مجھے بتایا کہ اب وہ جانے کی اجازت لے گا اور مجھے الوداع کہہ دے گا۔
۔۔۔جاری۔۔۔۔۔۔۔۔