تحریر:وقار احمد ملک
میرے سامنے معشوق احمد کے تحریر کردہ چند انشائیے موجود ہیں۔ان کا نام بڑا خوبصورت ہے۔پہلے مجھے شک ہوا کہ یہ نسوانی نام ہے۔ تحقیق کے بعد پتا چلا کہ یہ مرادنہ نام ہے تو خوشی ہوئی۔ایسی تحریریں جن کا زندگی کے ساتھ براہ راست رابطہ ہو مرد ادیب ہی لکھ سکتا ہے ، خواتین کے لیے ایسی تحریریں لکھنا خاصا مشکل کام ہے۔ان کا نام معشوق احمد ہے اور قلمی نام ایس معشوق احمد ہے۔ ان دو ناموں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔اردو کی ایک مشہور ادیبہ گزری ہیں بانو قدسیہ ۔بانو قدسیہ ان کا قلمی نام تھا جبکہ اصل نام قدسیہ بانو تھا۔ہمارے دوست معشوق احمد نے بھی اپنے معشوقانہ نام کے آگے’ ایس’ لگا دیا ہے اور یہ اپنا قلمی نام بنا دیا ہے۔بہرحال نام میں کیا رکھا ہے۔
جب میں ان کی تحریروں کو دیکھتا ہوں تو مجھے بیکن کے مضامین یاد آتے ہیں کہ وہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ایسا ہی ہنر معشوق صاحب کے پاس ہے۔انہوں نے زندگی کی سچائیوں اور گہرائیوں کو نہایت آسانی کے ساتھ قلمبند کیا ہے اور صحفہ قرطاس پر بکھیرا ہے۔بیکن کی ہی طرح معشوق احمد اپنے انشائیوں کا آغاز دلکش اور دلچسپ انداز میں کرتے ہیں۔آغاز اتنا catching ہوتا ہے کہ قاری پورا انشائیہ پڑھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔مثال کے طور پر انشائیہ ” دوست ،دشمن اور بیوی ” _ یہ عنوان بڑا دلچسپ ہے ۔اس کا آغاز دیکھیں__
“ہر شخص کی زندگی کو بنانے ،سنوارنے اور بگاڑنے میں تین لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔”
آپ دیکھیں کہ کتنی بڑی بات مصنف نے ایک جملے میں کہہ دی ہے یعنی زندگی کو بنانے ،بگاڑنے اور سنوارنے میں ان تین لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔مصنف کو داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے کتنی مشکل اور اہم بات کس قدر اختصار کے ساتھ بیان کردی ہے۔ان کا ایک اور انشائیہ ہے خوشامد۔اس کا شروعاتی جملہ ہے کہ __
” خوبصورت بیوی کی چاہ ،اچھا کھانا کھانے کی آرزو اور اپنی تعریفیں سننے کا شوق سب کو ہوتا ہے۔”
واقعی ہر شخص تھوڑا بہتnarcissist ، نرگیست اور self love کا شکار ہوتا ہے۔اپنی تعریفیں کس کو اچھی نہیں لگتیں۔انہوں نے جو مثالیں ساتھ دی ہیں وہ بہت خوبصورت ہیں یعنی اچھا کھانا کھانے کی آرزو ، خوبصورت بیوی کی چاہ اور اپنی تعریفین سننے کا شوق سب کو ہوتا ہے۔ہمیں بھی ہے،معشوق صاحب کو بھی ہوگا اور کم و بیش سب کو ہوتا ہے۔ان کا ایک اور انشائیہ ہے شادی شدہ اور کنوارے۔اس کا آغاز بھی خوبصورت ڈھنگ سے کرتے ہیں۔ پہلے دیکھیں کہ ان کے انشائیوں کے title (عنوان)بھی بالکل روزمرہ زندگی سے لیے گئے ہیں۔ان میں کوئی رومانوی انداز نہیں ہے ،مافوق الفطری باتیں نہیں کرتے ۔وہ چیزیں جو ہم خود محسوس کرتے ہیں وہی ہم کو پڑھنے کے لیے مہیا کردی ہیں۔
“ہمارے ہاں جو عمل بیک وقت مقبول اور بدنام ہے وہ شادی ہے۔”
اس جملے میں طنز بھی ہے، مزاح بھی ہے اور سنجیدگی بھی۔ اس جملے میں ہر ایک خوبی دیکھنے کو ملتی ہے۔جس کا آغاز اتنا دلچسپ ہو تو قاری پورا انشائیہ کیوں نہ پڑھے گا۔شادی کو وہ مختلف پیرایوں اور زاویوں سے بیان کرتے ہیں کہ یہ ایک ہی وقت میں مقبول بھی ہے اور بدنام بھی۔انگریزی میں ہم ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں oxymoron یعنی صنعت تضاد جس میں ایک لفظ دوسرے لفظ کا opposite (متضاد) ہوتا ہے۔جیسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ kind and cruel یعنی وہ ظالم بھی ہے اور مہربان بھی۔ایسی ہی فضا انشائیے میں معشوق صاحب نے قائم کی ہے یعنی شادی بیک وقت بدنام عمل بھی ہے اور مقبول بھی۔ان کا ایک اور زبردست اور دلچسپ انشائیہ ” ادھار اور گالی” ہے ۔اس کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھ پر اس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ مصنف حقیقی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا فن جانتے ہیں۔اس انشائیہ کا آغاز بھی دلچسپ انداز میں ہوا ہے۔
“جتنا قریبی رشتہ میاں بیوی کا ہوتا ہے اتنا ہی گہرا رشتہ ادھار اور گالی کا ہے۔”
مصنف ادھار اور گالی کے رشتے کو یوں قرار دیتے ہیں جیسے میاں بیوی کا رشتہ۔آگے لکھتے ہیں کہ
” گالیاں خریدنے کا آسان ترین نسخہ یہ ہے کہ آپ کسی عزیز دوست کو ادھار دے دیں۔”
اب یہ آپ کو سارا انشائیہ پڑھنے کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ آیا گالیاں خریدی بھی جاتی ہیں اور بندہ گالیاں کیوں خریدے؟ اس سے کیا فائدہ ہوگا؟۔یہ سارے چیزیں سمجھنے کے لیے آپ کو معشوق احمد کے انشائیوں کا مطالعہ ضرور کرنا پڑے گا۔اگر آپ ان کے انشائیوں کا مطالعہ کریں گے تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ آپ کے وقت کا زیاں نہیں ہوگا اور آپ کو ہر سطر ،ہر انشائیے میں کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کو ملے گا۔