تحریر:رشید پروینؔ سوپور
میرے والد صاحب کو لوگ بڑے پیار سے عمہ تموک کے نام سے پہچانتے تھے اور ان کی شہرت آس پاس کے گاؤں میں بھی خاصی تھی کیونکہ وہ تمباکو بنانے میں سپیشلسٹ ہی تھے ، بس تمباکو اور نسوار ہی زیادہ تر بیچتے تھے اور مجھے یاد ہے کہ لوگ دور دور سے یہ تمباکو خریدنے ہمارے پاس آیا کرتے تھے،، لیکن اب وہ زمانے کہا ں رہے ، تمباکو۔کو لوگوںنے طلاق دی ، دیہی علاقوں کے واسیوں نے نسوارسے اپنے دانت مسخ کرنا چھوڈ دیا ، اچھا ہی ہوا لیکن اس کی مار مجھ پر ہی پڑی کیونکہ والد صاحب کے بعد جب میں دکان پر بیٹھا تو مجھے دکانداری کا کوئی خاص تجربہ نہیں تھا ، اور تمباکو کی سیل بلکل ہی کم ہوئی تھی، اب دیکھئے ،نا، زمانے کے رنگ تمباکو سے ہزاروں میں سے ایک مرتا تھاوہ بھی پچاس سٹھ برس جینے کے بعد ۔ لیکن اب جوان کیا کیا ڈرگ لے رہے ہیں اور کیا کیا نشیلی دوائیں استعمال کرتے ہیں ، چرس ، ہیروئین ، گانجا ، اور بھی بہت کچھ اب عام ہے ،سکولو ں، کالجوں ، یونیورسٹیوں میں ،بڑی تعداد تو جیتے جی مرتی ہے اور اچھی خاصی تعداد باغوں میں ،سڑکوں پر مردہ پائی جاتی ہیں ،، لیکن پھر بھی انسانیت کو فخر ہے کہ تمباکو کا استعمال کم ہوگیا ہے ، اور آد می بھی اس پر غرور کرتا ہے کہ تعلیم نے تمباکو ، نسوار کی عاد ت چھڑوادی ۔ لیکن نئے نئے زہریلے نشوں کو عام کیا ہے خیر ،، یہ کیسا الٹ پھیر ہوا ہے ، میری سمجھ میں نہیں آتا ،، بہر حال اب میں اپنے اس چھوٹے بازار میں بس اتنا ہی کمالیتا ہوں کہ دو وقت کی روٹی مل پاتی ہے ،، لیکن میرے اس مارکیٹ میں بڑے بڑے دکاندار ہیں ، ہول سیل بھی اور رٹیل بھی ،،، لیکن ان میں وہ بات نہیں جو مجھ میں ہے ، میں جو کچھ بھی بیچتا ہوں ، پیور، اور صاف ،، کوئی ملاوٹ نہیں، اس لئے میرے خریدارمیرے بغیر کسی اور سے خریداری نہیں کرتے ، میرے ان پرمنٹ خریداروں میں شکر ہے کہ مقامی تھانے کے کچھ ملازم بھی ہیںجو بلکل ہمارے دوست اور یار بن چکے ہیں ، ۔ اکثر میری دکان پر آکر میرے ساتھ ایک آدھ گھنٹہ بھی گذارتے ہیں اور شاید دوسرے دکاندار اس بات پر رشک کرتے ہیں یا حسد ، مجھے نہیں معلوم ، لیکن میری اہمیت اس سے بھی بڑی ہے کہ تھانے کے منشی جی سے مجھے ایکدم خبر مل جاتی ہے کہ چور پکڑا گیا کہ نہیں ، مال بر آمد ہوا کہ نہیں ، اس لئے میرے مارکیٹ کے دکاندار مجھ سے یہ باتیں معلوم کر نے ضرور آجاتے ہیں جب کبھی کسی دکان کو رات کے اندھیرے میں چور خالی کر جاجاتے ہیں اور ایسا اکثر ہوتا ہے ، منشی جی ،، بڑے ہی پارسا اور زاہد لگتے ہیں ، داڈھی سلیقے کی ، اور گلے میں ہر دم وہ چیک کپڑا جو نمازی لوگوں کی نشانی بن چکی ہے ، ہاتھ میں ہر وقت ایک تسبیح بھی رہتی ہے جس کے دانوں کو اس کی انگلیاں محو گردش رکھتی ہیں ، ایک دو دن کے بعد میرے پاس ضرور آجاتے ہیں ، میری دکان پر خاص تمباکو کی ایک دو چلمیں میرے ساتھ پیتے ہیں ،اور پھر میں بھی انہیں اسی خاص تمباکو، کی ایک آدھ پاؤ بھینٹ بھی کرتا ہوں ، بڑے متقی بھی لگتے ہیں ، کوئی چوری ہوتی تو دکان پر آتے ،میں چلم بھرتا ، اور منشی جی بڑے آرام سے تمباکو کا دھوں اپنے دونوں نتھنوں سے خارج کر تے ہوئے ایک لسٹ جیب سے نکال کر پڑھتے ،اور کہتے ،،’’کل جو چوری ہوئی ہے، اس میںبس دکان سے اتنا ہی مال اڈایا جاسکا ہے ‘‘،، پھر وہ مجھے فہرست سناتا ،، اس کے بعد کہتا ’’دیکھو ،نا،دکاندار بے ایمان ، جھوٹ اور کذب بیانی کرتا ہے ، دس ہزار کا مال کیا گیا دس لاکھ کی لسٹ ہمیں تھمادیتے ہیں ‘‘ منشی جی کے لہجے میں غصہ ہوتا ،، ۔ ’’ہاں ایسا نہیں کرنا چاہئے ، گناہ ہے ‘‘،میں کہتا ، ’’ ارے گناہ کیا سلاما۔یہ سب لوگ نارِ جہنم میں ڈالے جائیں گے،،توبہ توبہ ،، ۔ اس طرح سے اب ہماری قربت بھی بڑھتی گئی اور میں بھی متاثر تھا کہ اتنا زاہد آدمی ۔ نمازی اور پولیس میں ، کم سے کم میں نے تو دیکھا نہیں تھا ،کبھی کبھی مجھ سے پوچھ بھی لیتا ، ’’سلاما میں نے سنا ہے کہ تمہارے بعد جنہوں نے یہاں دکانداری شروع کی وہ آج اپنی کئی کئی دکانوں کے مالک ہیں ، بنگلے ہیں۔ گاڈیوں میں چلتے پھرتے ہیں اور تم ،‘‘ میں مسکرا کر رہ جاتا،،پھر بڑی آہستگی اور بڑے نرم لہجے میں جواب دیتا ’’گھر چل تو رہا ہے جناب ۔ بس شکر ہے اللہ کا کہ سکھ شانتی سے گذر رہی ہے ‘‘، میری دکان کے سامنے ہی عزیز کریانے کی بڑی دکان ہے ،، بڑا بیو پاری ہے اور دکان میں بھی اچھا خاصا مال رکھتا ،، مجھے معلوم ہے کہ کس کس مال میں ملاوٹ کرتا ہے اور کیسے کیسے پیسے بناتا ہے ، لیکن ہمیشہ دکھی رہتا ہے کہ گھر میں شانتی نہیں ۔ میری عزت بھی کرتا ہے اور مراسم بھی خاصے ہیں ۔۔ ایک روز صبح جب میں ابھی چائے پی رہا تھا تو عزیز کِریانے کا فون آیا ،، میرا ماتھا ٹھنکا ، پتہ چلا کہ اس کی دکان آج رات کے دوران لوٹی گئی ہے اور اب وہ مجھے بلارہا ہے ،، میں فوراً مارکیٹ پہنچا جہاں لوگوں کی بھیڑ جمع تھی ، عزیز جو کی دکان کے ٹوٹے تالے سڑک پر پڑے تھے ، ’’دیکھو سلاما میں تو لٹ گیا،مال کے ساتھ ساتھ میرا کیش بھی لے گئے ہیں ، سیف توڈ ڈالی ہے ۔چلو تھانے چلیں تمہارا ہی انتظار تھا ‘‘ شاید بڑی مشکل سے آنسو ضبط کر رہا ’’ہاں ہاں چلو ،‘‘ میں نے کہا اور میرے ساتھ کئی اور دکاندار بھی ساتھ ہولئے ،،پولیس سٹیشن پہنچے تو میرے دوست منشی جی ہی چوکی پر بیٹھے تھے ، مجھے دیکھا تو مسکرائے ،، میں نے چوری کے بارے میں کہا تو منشی جی نے فوراً قلم کاغذ سنبھا لا اور تفصیل لکھنی شروع کی ، تفصیل عزیز جو ہی بتاسکتا تھا ، کہ کیا اور کتنا مال دکان سے غائب ہے،، وہ لکھانے لگا ،،، ’’ کیش، پچاس ہزار ،،منشی جی نے قلم روکا ، ایک نگاہ عزیز جو پرڈالی ’’ سچ ، سچ ہی لکھانا ‘‘ منشی جی نے پھر قلم چلانا شروع کیا ’ جی ۔جی ،،چائے دس بوری ، ہلدی تین بوری ،، کاجو کشمش بادام دو دو بوریاں ، ایک لمبی چوڈی فہرست تھی۔۔۔ ابھی عزیزجُو فہرست بتاہی رہا تھا کہ منشی جی نے کاغذ قلم نیچے رکھا ،، اور عزیز جو کی طرف مخاطب ہوا ،، ’’ جھوٹ بولتے ہو ،، جھوٹ ،، سیف میں کوئی کیش نہیں تھا ، بس توڈی گئی ہے ، کشمش بادام کاجُو، ،تمہاری دکان میں تھے ہی نہیں ،، چائے کی تین بوریاں،،مرچ ایک بوری ہلدی ایک بوری اور نمک دو بیگ ، منشی جی بھی ایک دوسرے کاغذ سے فہرست پڑھ رہے تھے ، اور میں نے دیکھا کہ عزیز جو کے چہرے پر ہوائیاں اڈ رہی تھیں ،’’اب بولو کیا کہتے ہو‘‘ منشی جی نے عزیز دکاندار کی طرف فاتحانہ نظروںسے دیکھتے ہوئے کہا ، عزیز جو بمشکل کہہ پایا ’’جہ ، جناب یہی سچ ہے ‘‘، سنو۔ سلاما کی وجہ سے چھوڈ رہا ہوں ۔نہیں تو کذب بیانی میں اندر بھی کر سکتا ہوں ۔۔ پھر منشی جی نے میری طرف دیکھ کر کہا ، اب تم لوگ جاؤ ، ہمارے پاس چوری کی مکمل لسٹ ہے ،، کوشش کریں گے کہ مال بر آمد ہو ،، بڑے صاحب تفتیش کریں گے ، اور چور ملا تو تمہیں بلائیں گے ،، عزیز جو خاموش تھا ،، کئی بار منشی جی نے مجھے اس طرح کی فہرستیں سنائی تھیں، لیکن میں نے کبھی ان سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ آپ لوگوں کے پاس چوری کے مال کی فہرست پہلے سے ہی کیسے موجود ہوتی ہے ، اس طرف میرا خیال کبھی گیا ہی نہیں تھا ،، لیکن اس وقت اچانک میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا ،،ہم چوکی سے باہر پہنچ چکے تھے ، لیکن میں نظریں بچاکر واپس چوکی کے اندر آیا۔
آؤ ۔آؤ، سلاما ، کیا بات ہے ،، اور سنو یہ سب لوگ جھوٹ بولتے ہیں ، ان جھوٹے لوگوں کے ساتھ نہیں آنا چاہئے ،، منشی جی کے لہجے میں پیار ہی تھا .
’’ جناب آپ سچ بولتے ہیں ، لیکن مجھے یہ بتائیں ، کہ آپ لوگوں کے پاس صحیح تفصیل پہلے سے کیسے موجود ہوتی ہے ،، یعنی میرا مطلب آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ چوروں نے کیا کیا مال اڈایا ہے ‘‘ میرے لہجے میں استعجاب تھا، حیرانگی تھی۔اچانک منشی جی نے ایک زور دار قہقہہ لگایا ،، اس کا دوسرا ساتھی جو خاموش بیٹھا تھا وہ بھی کھلکھلا کر ہنس پڑا ،، پھر آہستہ سے اپنی چوکی سے اترا ، میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا ۔مجھے اس چھوٹی سی تنگ و تاریک کوٹھری کی طرف اشارہ کیا اورکہا‘‘
’’ یار ہو اس لئے بتاتا ہوںلیکن کہنا کسی سے نہیں ،، سمجھو ہم پیروں کے بھی پیر ہوتے ہیں اور اپنے وظیفوں سے ہم اُن جنوں کو یہاں ہی قید رکھتے ہیں جو ہمیں خبریں دیتے رہتے ہیں ،، بس کبھی کبھی رات کی تاریکی میں یہاں سے مارکیٹ کی طرف چلے جاتے ہیں ، اب کیا ہے ، جِن تو جِن ہی ہے کبھی کبھی بے قابو بھی ہوجاتے ہیں ‘‘ منشی جی کا لہجہ کچھ عجیب سا تھا ، ا پنی پُر رونق داڈھی پر ہاتھ بھی پھیر رہا تھا اور۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ بھی تھی۔۔ میں حیران و پریشان ہونقوں کی طرح منشی جی کا چہرہ تک رہا تھا جو اسوقت بھی چمک رہا تھا ۔