
مجھے فخر تھا کہ میں ڈاکٹربھاسکر جیسے عالمی شہرت یافتہ سائنس داں کا اسسٹنٹ بن گیا ۔ میرے لئے یہ معمولی بات نہیں تھی۔ اٹھارہ امیدواروں میں سے انہوںنے مجھے منتخب کیا تھا۔ کمپیوٹرسائنس میں میری ماسٹر ڈگری کام آگئی۔ ماہرینِ تعلیم کہتے ہیں نہ کہ تعلیم کبھی بیکار نہیں جاتی۔ یہ بات میرے لئے سچ ثابت ہوئی۔ کئی مہینوں سے میں ملازمت کی تلاش میں تھا۔ نہیں مل رہی تھی، اور ملی تواتنی شاندار!
ڈاکٹربھاسکر کی اپنی وسیع وعریض لیباریٹری تھی، جس میں وہ دن رات کام کرتے۔طرح طرح کے تجربے اور نت نئی ایجادات کرتے ۔وہ کئی کارآمد چیزوں کی ایجاد کرچکے تھے۔ان میں سب سے اہم وہ مائیکرو ڈرون تھا جو کسی کو نظر نہیں آسکتا لیکن وہ سب کی تصویریں اپنے لینس کی مدد سے اتار سکتا ہے۔ان کو حکومت کا ہر طرح کا تعاون اور تحفظ حاصل تھا۔
اُن دنوں وہ ایک ایسی مشین بناناچاہتے تھے جو انسانوںکو ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسمٹ کرسکے ۔بس مشین کے اندرکسی شخص کو بٹھایا، بٹن دبایا اور چند سکنڈمیں وہ بھارت سے لندن پہنچ جائے۔جس طرح ٹیلی ویژن میں تصویریں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہیں۔ روزانہ صبح میں ناشتے کے بعد وہ اپنی میز پرمشین بنانے کا ڈائیگرام پھیلا دیتے اور گھنٹہ دو گھنٹہ غور وفکر کرتے ۔کبھی مجھ سے سوال کرتے ، کبھی مجھے بتاتے سمجھاتے۔اس کے بعد ہی لیب میں دوسرے پروجیکٹ پر کام ہوتا۔ہفتوں بس ڈائیگرام پر غوروخوض ہوتا رہا،لیکن ابھی تک مشین بنانے کی طرف انہوںنے پیش رفت نہیں کی تھی۔
صرف ہم دونوں ہی ڈائیگرام پر مغز ماری نہیں کرتے تھے بلکہ ڈاکٹر کی اکلوتی حسین بیٹی بھی لیب میں موجود رہتی۔ وہ ہماری گفتگو میں بہت کم حصہ لیتی۔ جب ڈاکٹر اس سے کوئی سوال کرتے تبھی وہ جواب دیتی، ورنہ خاموش رہتی۔
اتنے وسیع وعریض مکان میں صرف دونوں باپ بیٹی رہتے ۔ ڈاکٹر بھاسکر کی اہلیہ کئی برس پہلے داغِ مفارقت دی گئی تھیں۔ میں شروع شروع میں اس حسینہ کو ان کی اسسٹنٹ سمجھا تھا۔ لیکن ایک دن ڈاکٹر نے دورانِ گفتگو بتایا تھا کہ وہ ان کی بیٹی ہے۔
وہ انتہائی حسین تھی۔ گورارنگ، سیاہ گھنے اورلمبے بال، مرمریں سراپا، بلوریں آنکھیں، پتلے پتلے نازک ہونٹ ، آواز میں چاندی کی کھنک ۔ جو دیکھے تو دیکھتا ہی رہ جائے۔
چونکہ وہ ڈاکٹرکی بیٹی تھی اس لئے کبھی میں نے اس سے بے تکلف ہونے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن اس کودیکھتے ہی میرے دل میں کچھ کچھ ہونے لگتا ۔ اس کا اصل نام کیا تھا یہ آج تک مجھے نہیں معلوم ہو سکا۔ ایک بار میں نے ڈاکٹر بھاسکر سے پوچھا تو انہوں نے مسکراکر کہا تھا۔’’نام؟۔۔۔۔جو نام تمہیں پسند ہو، وہ رکھ دو۔‘‘
اپنی بیٹی کے لئے ایسے بے تکلفانہ جواب کی امید نہیں تھی۔میںنے گھبراکر بیٹی کی طرف دیکھا۔ اس نے بھی میری طرف مسکراکر دیکھتے ہوئے کہا۔’’ جی ہاں مسٹر راہل!۔۔۔۔آپ میرا جو نام رکھنا چاہیں رکھ لیں۔۔۔۔ڈیڈی کو اعتراض نہیں تو مجھے بھی نہیں ہے۔‘‘
اس کی دلکش مسکراہٹ پر میں ہلاک ہوتے ہوتے بچا تھا۔ میں نے ہکلاتے ہوئے کہا تھا۔ ’’مسکان کیسا نام رہے گا؟‘‘
اس نے بڑے ناز وانداز سے کہاتھا۔ ’’اگر آپ کو یہ نام پسند ہے تو میں آج سے اپنے لئے یہی نام رکھ لیتی ہوں۔‘‘
اور میں اس کی اس ادا پر سوجان سے فدا ہوگیا۔
اس واقعے کے بعد سے اکثرمیں اس سے باتیں کرنے کے بہانے تلاش کرتا رہتا۔ لیکن ڈاکٹر بھاسکر کی موجودگی میں محتاط رہتا۔اور تنہائی تو بہت کم نصیب ہوتی۔
مسکان بہت ذہین اور پھرتیلی تھی۔ ڈاکٹر بھاسکر کی کئی الماریوں میں سینکڑوں فائلیں تھیں۔ وہ جب کبھی مجھے کسی خاص فائل نکالنے کے لئے کہتے تو مجھے کم از کم دس بارہ منٹ لگتے لیکن مسکان بہ مشکل تیس چالیس سکنڈ میں یہ کام کردیتی۔
دھیرے دھیرے میں مسکان کا گرویدہ ہوتا گیا۔میں اسے ’’آپ‘‘ کہہ کر پکارتا لیکن وہ مجھے ہمیشہ ’’مسٹرراہل‘‘ ہی کہہ کر مخاطب کرتی۔ میرے دل میں یہ تمنا رہتی کہ وہ مجھے ’’راہلـ‘‘ یا’’ ڈیر راہل ‘‘کہہ کر بلائے لیکن یہ تمنا بس تمنا ہی رہی۔
جب مسکان سے میرا لگاؤ حد سے زیادہ ہوگیا تو ایک دن میں نے اس سے کہا۔’’آپ ہمیشہ گھر پر ہی رہتی ہیں۔۔۔۔کبھی گھر سے باہر جاتے نہیں دیکھا۔۔۔۔کیا آج میرے ساتھ پارک گھومنے چلیں گی؟‘‘
’’اس نے بڑے ہی دلنواز اندازمیں میری طرف دیکھ کر کہا۔’’تو مسٹر راہل !آپ مجھے پارک گھمانے کا شوق رکھتے ہیں؟‘‘
اس کا یہ سوال بڑے عجیب کا انداز کا تھا ۔ میں نے ہمت جُٹاکر کہا۔’’جی ہاں!۔۔۔۔بہت دنوں سے خواہش ہے کہ آپ کے ساتھ کبھی باہرکی سیر کروں۔۔۔۔آزادی سے گھوموں پھروں۔۔۔۔‘‘
’’اچھا تو آپ ڈیڈی سے اجازت لے لیں۔‘‘
’’واہ!‘‘ میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوگیا۔ اور جب ڈاکٹربھاسکر سے اجازت طلب کی تو انہوںنے بلاتکلف اجازت دے دی۔
اس دن ہم ڈاکٹر کی کار میں جوبلی پارک گھومنے گئے۔ کار وہی چلا رہی تھی۔میں اپنے آپ پر بے انتہا افتخار محسوس کررہا تھاکیوںکہ میرے ساتھ شاید دنیاکی سب سے حسین دوشیزہ تھی۔پارک میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو اسے گھور گھو ر کر نہ دیکھتا ہو۔ اور وہ سبھی کی آنکھوں سے بے نیاز، میرے ساتھ نپے تلے قدم رکھتی ہوئی میرے ساتھ چل رہی تھی۔ اس کی چال بھی عام لڑکیوں سے الگ تھی۔ ویسی چال میں نے آج تک کسی لڑکی کی نہیں دیکھی تھی۔ سفید سوٹ اور کالے دوپٹے میں اس کا حسن نکھرا ہوا تھا۔
ٹہلتے ٹہلتے میں نے اس کا ہاتھ پکڑنے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس نے فوراً کہا۔’’نہیں مسٹرراہل ۔۔۔۔یہ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔پبلک پلیس میں آپ کو اس سے پرہیز کرنا چاہے۔‘‘
پھر میری ہمت نہیں ہوئی اس سے بے تکلف ہونے کی۔
شام ڈھلنے والی تھی۔ میں نے پارک کے ریسٹورنٹ میں اسے کافی اور اسنیک کی دعوت دی جسے اس نے مسکراکرٹھکرادیا۔’’نہیں مسٹرراہل!۔۔۔۔ میں یہ سب چیزیں نہیں کھاتی پیتی ۔۔۔۔آپ کی خواہش ہے تو آپ کھا پی لیں۔‘‘
دھت تیری کی!یہ کیسی حسینہ ہے جو چاہنے والے کی ہر پیشکش کو ٹھکرا دے رہی ہے۔میں دل برداشتہ ہوگیااور جلد ہی واپس آگیا۔ مسکان کو لیب میں چھوڑکر بوجھل قدموں سے گھر آگیا۔
میری محبت کا جواب اس کی طرف سے نہیںمل رہا تھا۔ لیکن میرے لئے یہ کم نہیں تھا کہ وہ میرے ساتھ باہر جانے کے لئے تیار ہوجاتی تھی۔ ڈاکٹر بھاسکرکو بھی کبھی اعتراض نہیں ہوتا تھا۔
ایک شام پھر ہم دونوں پارک میں گھوم رہے تھے کہ چار لفنگوں نے مسکان کو چھیڑنا شروع کردیا۔ پہلے تو اس نے ان کی باتوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا، اطمینان سے ٹہلتی رہی۔میںنے احتجاج کیا تواس نے مجھے سمجھایا کہ ایسے لفنگوں کے منھ نہیںلگئے۔ لیکن جب ان غنڈوں کی باتیں ناقابل برداشت ہوگئیں تو اس نے بڑی نرمی سے سمجھایا۔ ’’تم لوگوں کی یہ حرکتیں بڑی مہنگی پڑسکتی ہیں۔۔۔۔مجھے تم معمولی لڑکی سمجھنے کی غلطی نہ کرنا۔۔۔۔میرے دوست مسٹرراہل بھی مجھ سے بے تکلف ہونے کی جرأت نہیں کرسکتے۔‘‘
لیکن غنڈوں پر مسکان کی باتوں کا اثرنہیں ہوا۔ ایک نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑناچاہا تھا کہ بجلی کی سی سرعت کے ساتھ اس نے جوڈوکا ایسا ہاتھ مارا کہ وہ پل بھر میں چاروں خانے چت ہوگیا۔ دیکھتے دیکھتے ہی بھیڑ جمع ہوگئی۔بقیہ غنڈے اس پر حملہ کرنے کے لئے لپکے ہی تھے کہ اس نے مجھے الگ ہی رہنے کو کہا اور مارشل آرٹ کا ایسا مظاہرہ کیا سبھی غنڈے دھول چاٹنے لگے۔ چاروں اس طرح ہاتھ پیر پٹک رہے تھے جیسے ان پرتشنج طاری ہوگیا ہے۔ میں اس سچویشن پر تھر تھر کانپنے لگا لیکن مسکان بالکل نارمل تھی۔پوری بھیڑ اس کوتعریفی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ کچھ لوگ تو کھل کر اس کی بہادری کی تعریف کررہے تھے۔
اور اس نے ان سب سے بے نیاز ، مجھ سے بڑے اطمینان سے کہا۔’’ چلئے مسٹر راہل!۔۔۔۔گھر چلتے ہیں۔۔۔۔یہ سب تھوڑی دیر میں ٹھیک ہوجائیں گے۔۔۔۔تشویش کی کوئی بات نہیں۔‘‘
میں نے اس حادثے کا ذکر ڈاکٹر بھاسکر سے اس ڈر سے نہیں کیا کہ آئندہ اس کے ساتھ باہر جانے کا موقع نہیں ملے گا۔اور میرا خیال ہے مسکان نے بھی نہیںکیا ورنہ وہ ضرورمجھ سے دریافت کرتے۔
تین چار مہینے ہوگئے مجھے ڈاکٹر بھاسکر کے لیب میں کام کرتے ہوئے۔ایک دن انہوں نے کہا۔’’راہل!۔۔۔۔میں ایک سائنس کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے دارالحکومت جارہا ہوں۔۔۔۔چار پانچ دنوں کے لئے۔۔۔۔ایسا کرو ، تم دن بھر چاہے جہاں رہو لیکن رات یہیں میرے گھر پر رہنا ۔۔۔۔نہیں تومسکان اکیلی رہ جائے گی۔۔۔۔تم کو اس کا خیال رکھنا ہے۔‘‘انہوںنے چابیوں کا ایک گُچھا میری طرف بڑھایا۔
میں حیرت سے ڈاکٹرکو دیکھنے لگا۔ ان کے چہرے پر اطمینان تھا۔ پھر میں نے مسکان کی طرف دیکھا۔ اس نے بھی میری طرف اسی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا جس کی وجہ سے میں نے اس کانام مسکان رکھا تھا۔ اس نے کچھ کہا نہیں،بس سرہلاکر اپنے ڈیڈی کی تائید کی۔ میرے دل میں تو لڈّو پھوٹنے لگے۔ دن بھر کہیں کیوں رہوںگا؟ یہیں لیب میں مسکان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاروں گا ۔ پتا نہیں پھر ایسا سنہرا موقع ملے گا کہ نہیں۔
اس دن دوپہرکی فلائٹ سے ڈاکٹر بھاسکر دارالحکومت کے لئے پرواز کرگئے۔ ان کے جانے کے بعد شام ڈھلے تک میں لیب میں رہا۔ اور جب تک رہا مسکان کالیب میں آنا نہیں ہوا۔ میں نے یہ بات اکثرنوٹ کی تھی کہ مسکان لیب میں تبھی آتی ہے جب ڈاکٹر بھاسکر بھی ہوں۔ پتانہیں مکان کے کس حصے میں تھی۔ کیا کررہی تھی،سورہی تھی یا جاگ رہی تھی؟کچھ معلوم نہ تھا۔ میری ہمت نہیں ہوئی کہ لیب سے باہر جاکر مکان میں اسے تلاش کروں ۔اگرضرورت سمجھے گی توخود ہی لیب میں آجائے گی۔ لیکن اس کی غیر موجودگی مجھے بری طرح کھل رہی تھی۔
شام ڈھلنے کے بعد لیب کو مقفل کرکے میں کھانا کھانے اپنے گھر آگیا۔کھانے کے دوران ہی ڈاکٹر بھاسکر کا فون آیا کہ وہ منزل تک پہنچ گئے ہیں۔ انہوںنے ہدایت کی کہ میں جلد سے جلد لیب پہنچنے کی کوشش کروں کیونکہ وہاں مسکان اکیلی ہے۔ میں نے انہیں تسلی دی کہ فوراً روانہ ہورہا ہوں۔
ڈاکٹر بھاسکر کے مکان کا مین گیٹ کھولا، پھر لیب کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ لیب میں مسکان نہیںتھی۔ اب میرے لئے ضروری ہوگیا تھا کہ اسے تلاش کروں ورنہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری کیسے نبھاؤں گا۔ میں اسے مکان کے دوسرے حصوں میں تلاش کرنے لگا۔ آخر کار وہ ایک کمرے میں کرسی پر بیٹھی ہوئی مل گئی۔
’’ہیلو مسکان!۔۔۔۔میںکب سے آپ کاانتظار لیب میں کررہا تھا۔۔۔۔آج دن میں بھی آپ نے لیب میں قدم نہیں رکھا۔‘‘ میں نے پیار سے کہا۔ لیکن وہ خاموش رہی۔نہ آنکھ اٹھاکر دیکھا نہ مسکرائی۔ ایسا لگا جیسے کسی دیوی کی مورتی رکھی ہو۔
میں نے دو تین بار اس کا نام لے کر پکارا لیکن اس کے جسم میں جنبش تک نہ ہوئی۔ مجبوراً میںنے اس کے قریب پہنچ کر اس کے کندھے کو پکڑکر ہلانا چاہا کہ میرے حلق سے چیخ نکل گئی۔’’ارے یہ کیا؟‘‘
پھر میں جلدی جلدی اس کا جسم ٹٹولنے لگااور بڑبڑایا۔’’یہ تو بے جان ہوگئی۔‘‘
مجھ پر وحشت طاری ہوگئی۔ میں جلدی سے اس کمرے سے نکل کر لیب کی طرف بھاگا اور اسی وحشت کے عالم میں لینڈ لائن پر ڈاکٹرکو فون کیا۔
’’کیا بات ہے راہل؟۔۔۔۔اچانک فون۔۔۔۔اور تم اتناگھبرائے ہوئے کیوں ہو؟‘‘
’’سر۔۔۔۔سر۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔مسکان۔۔۔۔بے جان۔۔۔۔۔‘‘
اچانک ڈاکٹربھاسکر کا قہقہہ سنائی دیا پھرآواز آئی۔’’مسکان۔۔۔۔بے جان ۔۔۔۔ تم تو شاعری کرنے لگے۔۔۔۔تم نے کیا سمجھا تھا۔۔۔۔ایک باپ اپنی جوان بیٹی کو اپنے جوان اسسٹنٹ کے ساتھ خالی مکان میں تنہا چھوڑدیتا؟‘‘
’’لیکن سر!۔۔۔۔کبھی اس کا احساس تک نہیں ہوا۔‘‘میری آواز میں اداسی تھی۔
ادھر سے ڈاکٹرکی آواز آئی۔ ’’لگتا ہے تم اس سے دل لگابیٹھے تھے۔۔۔۔اسی لئے تمہاری آواز میں اتنی اداسی ہے۔۔۔۔ہاں، یہی تو میرا کمال ہے ۔۔۔ کیا تمہیں میرا یہ کارنامہ پسندنہیں آیا؟‘‘
’’بہت زیادہ سر۔۔۔۔لیکن سرپلیز۔۔۔۔ آپ ایک کارنامہ اور کیجئے سر۔۔۔۔ اس روبوٹ کو میرے لئے زندہ جاوید کردیجئے۔‘‘میںنے کہا اور بوجھل ہاتھوں سے فون کا ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
