
دفتر سے نکل کر فرحان بیوی بچوں کے لیے کچھ ضروری چیزیں لال چوک میں خرید کر سیدھا ڈلگیٹ سومو سٹینڈ پہنچا ۔ وہاں سے وہ اننت ناگ کے لیے اپنا رخت سفر باندھ دیتا ہے۔ سنیچروار ہونے کی وجہ سے بہت کم گاڑیاں وہاں موجود تھیں اور سواریاں بہت زیادہ کیوں کہ جنوبی کشمیر کے بہت سے ملازمین ہفتہ بعد اپنے گھروں کا رخ کیا کرتے ہیں ۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد فرحان کی نظر جے کے زیرو تھری نمبر والی سومو گاڑی پہ پڑی ۔ تیز قدموں کے ساتھ چل کر اس نے ڑرایور کو رکنے کے لئے اشارہ کیا ۔۔۔۔۔
ہاں بھائی کہاں جانا ہے ۔۔۔ اننت ناگ
نہیں نہیں میں اونتی پورہ تک ہی ہوں ۔ بھائی نمبر جو اننت ناگ کا ہے ۔ پلیز اننت ناگ تک برابر جاۓ ۔ یہاں بہت سواریاں ہیں جو انتظار کر رہی ہیں اور جن کو برابر اننت ناگ جانا ہے۔۔۔
نہیں نہیں مجھے آج تین دن بعد گھر جانا ہے ۔ فایدہ کیا ہے برابر اننت ناگ جانے کا ۔
فرحان نے پھر ڑرایور سے گویا التجا کی کہ مہربانی کر کے برابر اننت ناگ تک جاۓ ۔ لیکن ڑرایور کہاں ماننے والوں میں سے تھا ۔۔۔۔ اترو آپ بھی گاڑی سے اگر نہیں بیٹھنا ہے. یہ سن کر فرحان نے خاموشی میں ہی اپنی عزت بچانا غنیمت سمجھا۔۔ کچھ قدم چل کر آٹھ نو اور سواریاں بھی سومو میں چڑھ گئیں ۔ ان کو بھی اننت ناگ تک برابر جانا تھا اور ڑرایور کو وہاں تک جانے کے لیے اسرار کیا لیکن ڑرایور صاحب نے ایک کی بھی نہ مانی ۔۔۔ فرحان کو بہت دکھ ہوا ۔ سات روز بعد گھر واپس آرہا تھا اور اوپر سے اننت ناگ تک برابر گاڑی بھی نہیں مل پارہی تھی ۔ اس نے اپنے آپ سے ہی کہا کاش میں پولیس میں ہوتا اس کا چالان بھی کرتا اور مارپیٹ بھی ۔ تھی اسکا الو سیدھا ہوتا ۔ کتنا کمین اور کم ظرف ہے یہ بندہ۔۔۔۔۔
آگے چل کر گاڑی کو برابر دو گھنٹے تک جام میں پھس گئی ۔ نہ آگے جانے کا راستہ تھا اور نہ ہی پیچھے جانے کا ۔ ڑرایور نے اب رانگ سایڑ سے ہی گاڑی آگے کی طرف نکالی۔ عاشورہ کا مقدس ترین دن تھا اور شعیہ برادری کے لوگ امام عالی مقام رضہ کے تعین خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے جلوس کی شکل میں مخالف سمت میں آگے بڑھ رہے تھے ۔ اسی وجہ سے جام تھا ۔ اسی اثناء میں ڑرایور کو گھر کا فون آیا ۔۔۔۔ ہاں ہاں میں جلد ہی گھر پہنچ رہا ہوں ۔ تم بے فکر رہو ۔ میں نے اب اونتی پورہ تک ہی سواریاں اٹھائی حالانکہ کثیر تعداد میں سواریاں برابر اننت ناگ تک گاڑیوں کا انتظار کر رہے تھیں ۔ یہ کہہ کر اس نے فون کاٹ دیا ۔۔۔۔۔
پانچ چھ قدم ہی کیے تھے تو پولیس کی جپسی آگے کھڑا ہوئی۔ گاڑی سے اتر کر ایک سب انسپکٹر نے ڑرایور کو جتنا چاہا اتنی مارپیٹ کی اور جیپ سے اپنا سمارٹ فون نکال کر گاڑی کا فوٹو اٹھایا اور ان لائن چالان لکھنے لگا ۔ پانتھہ چوک بائپاس پہنچ کر ڑرایور گاڑی سے نیچے اترا اور سواریوں سے کہا ۔۔۔۔۔
میں یہاں تک ہی ہوں ۔ آپ لوگ مجھے کرایہ ادا کرنے کی زحمت نہ کریں کیونکہ پہلے میں چالان بھر دوں گا ۔ اس لیے واپس ہی لالچوک جاؤں گا ۔۔۔۔۔۔۔
فرحان ۔۔ کاش میں نے خدا سے کچھ اور مانگا ہوتا ۔