
بالی ووڈ میں بننے والی زیادہ تر فلمیں کمرشیل ہوتی ہیں۔ یہاں فلمساز ویسی فلموں میں رو پیہ لگانا چاہتے ہیں جو باکس آفس پر سپر ہٹ ثابت ہو اور ان کی جیب بھر جائے۔ ایسے میں سنجیدہ موضوع پر منی فلموں کی کمی صاف طور پر محسوس کی جاتی ہے۔ دیش بھکتی بھی ایک ایسا موضوع ہے جس پر فلمساز روپیہ خرچ نہیں کرنا چاہتے ۔ مثال۔
کے طور پر سن 1997ء کوہی لیا جائے ۔ اس سال ریلیز ہونے والی تین ساڑھے تین سو ہندی ناموں کی فلموں میں صرف بادر کوہی دیش بھکتی مانا جاسکتا تھا۔ باقی ناموں میں یا تو وہ بھائیوں کے بچھڑے اور ملنے کی کہانی ہے یا پھر پر یمی پر پریمکا کے آم کی ڈالی کے نیچے مٹک مٹک کر گیت گانے کی ۔ ” پر دیں اور پیار ہو گیا فلموں میں بھی دیش بھکتی کے نام پر فلمساز و ہدایت کار نے اپنے فرض ادا کر کے چھٹکارا پا لیا تھا۔ ۔ ویسے بارڈر فلم کو ہندی سنیما تماش بینوں نے جس طرح پسند کیا اور جس طرح سے اس کا ٹکٹ بلیک ہوا ، اس سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ دیش بھکتی فلموں کی پذیرائی تماش بین کرتے ہیں۔ سحچ تو یہ ہے کہ اگر کسی سنجیدہ موضوع پر بڑے بڑے ادا کاروں کے ساتھ دیش بھکتی والی فلم بنائی جائے تو اس کے چلنے کی امید عام فلموں کے مقابلے میں تھوڑا زیادہ ہے کم نہیں۔ جیسے یہی دتا کی فلم "بارڈر میں سنی دیول، جیکی شراف،سنیل شیٹی ،اکشے کھنہ تبو اور پوجا بھٹ جیسے جانے پہچانے
اداکاروں نے کام کیا تھا اور تماش بینوں نے انہیں اپنی زمین کی حفاظت کے لئے وطن کی سرحد پر جان کی بازی لگاتے ہوئے دیکھ کر تالیاں بجائی تھیں ۔ اس فلم سے ڈسٹر یوٹروں کوبھی کافی فائدہ ہوا تھا۔
اس فلم میں 1971ء کے زمانے میں راجستھان کی سرحد پر پاکستان کے خلاف ہندوستانی فوج کی ایک حصہ کی بہادری اور حوصلہ کی ہمت افزائی کی گئی تھی ۔ اس فلم میں جاوید اختر کے تحریر کردہ اردو گیت سندیشے آتے ہیں، ہمیں تڑپاتے ہیں کہ گھر کب آؤ گے“ کو عام تماش بینوں کے درمیان کافی مقبولیت ملی تھی۔۔
1971ء میں بھارت پاک جنگ سے پہلے 1962ء میں بھارت اور چین کے درمیان بھی سرحد پر جنگ ہو چکی تھی۔ اس وقت ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے کومنہ چڑھاتے ہوئے چینی فوج نیفا ، لداخ کی سرحد کے اندر داخل ہو گئی تھی ۔ تب اُردو کے مایہ ناز شاعر کیفی اعظمی کے تحریر کردہ گیت محمد رفیع کی آواز میں کر چلے ہم فدا جان وتن ساتھیوں ، اب تمہارے حوالے وطن ساتھیوں ، نے اس فلم کو کافی مقبولیت دلائی تھی ۔ باد مین اسی جنگ پر چیتین آنند نے”حقیقت ” نام کی فلم بنائی تھی ۔ جس میںں فیروز خان اور دھرمیندر جیسے کلا کاروں نے کام کیا تھا۔ دیش بھکتی فلموں میں اور دیر پاتھے، ہم راہی ” آنند مٹھ "شہید”، "لیڈر” ہندوستان کی قسم جا گرتی کرانتی میجر صاحب شہید بھگت سنگھ اور رنگ دے بسنتی چولا‘وغیرہ جیسی فلموں کے نام ساتھ ساتھ لیے جاتے ہیں۔ بنگلہ زبان میں بنی فلم اودیرپاتھے ( اس فلم کی ہندی ” ہم راہی ہے ) میں تحریر کردہ مشہور گیت "جن من گن بھی شامل کیا گیا تھا۔ لیکن ۲۲ / جولائی 1947 کو اسے راشٹریہ گیت کادرجہ مل جانے کے سبب اسے اس فلم سے بٹا دیا گیا تھا۔ کیونک سنیما ہال میں بیٹھ کر راشٹریہ گیت کو سننا سخت توہین تھی۔۔
۔ اس وقت ہم راہی فلم سے بھی اس گیت کو نکال دیا گیا تھا۔ اس کو نکالنے کے بعد یہ ہوا کہ کسی بھی فلم کے آخر میں ” جن من گن ” کا بیک گراؤنڈ سے آواز ہوتو تماش بین اپنی کری کے آگے کھڑے ہو جا ئیں۔ لیکن ہندی سنیما گھر کے تماش بین کا کیا کہنا کہ فلم کے آخرمین ہونے۔۔
کے بعد اس کے لئے کھڑا رہنا وقت برباد کرنا تھا۔ اس لئے اسے بھی بند کر دیا گیا۔ بعد میں ونود چوپڑہ نے فلم ۱۹۴۲ء: اے لو اسٹوری سے اسے پھر لاگو کرنے کی کوشش کی لیکن یہ اوندھے منہ گر پڑے۔ راشٹریہ گیت سننے کے لئے چند سیکنڈ تک کھڑے رہنے کی ان کی اپیل پر کسی نے دھیان ہی نہیں دیا۔۔
ہمارا راشٹریہ گیت وندے ماترم فلم ” آنند مٹھ میں شامل تھا۔ یہ فلم آنند مٹھ نام کے ناول پرمبنی تھی، جسے بنکم چند چٹرجی نے تحریر کیا تھا۔ ناول اور فلم دونوں میں انگریزی حکومت کے زمینداروں کے خلاف سنیاسیوں کے غدر کا قصہ ہے۔ سنیاسی غدر کے علاوہ بھارت کی آزادی کی جنگ کے سوسالوں کی تاریخ میں کئی۔
قربانیاں ہیں، جن پر فلم بنائی جانی چاہئے ۔ ۱۸۵۷ء کے اول شہید منگل پانڈے، جلیانوالہ باغ اور سبھاش چندر بوس پر فلمیں بنائی گئیں ۔۳ اپریل کو امرت سر کے جلیا نوالہ باغ میں ہوئے قتل عام کو اسی نام والی فلم میں دکھایا گیا۔ فلم کی کہانی مائیکل ڈائر سے لے کر اودھم سنگھ کے قتل کئے جانے تک تحریر کی گئی تھی۔ سبھاش چندر بوس اور ان کی آزاد ہند فوج کو شہید اور انڈین فلموں میں پیش کیا گیا تھا۔ "شہید” کی کہانی پوری طرح آزاد ہند فوج کی کو ہیما پر قبضہ کرنے جانے کی کہانی ہے۔ اس فلم میں دادامنی اشوک کمار کے اہم کردار ہیں اور سبھاش چندر بوس کو فلش بیک میں فلم کے ہیر وکمل حاسن کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ آزاد ہند فوج کے ذریعے اتر پورب کے حصہ پر قبضہ کرنے کی کوششوں کو بھی فلم انڈین میں دکھایا گیا ہے۔ جو ہندوستانی” نام سے۔
ریلیز کی گئی تھی۔اُپکار، کرانتی، جا گرتی وغیرہ کو خاص کر اس کے اردو گیتوں کی وجہ سے دیش بھکتی فلموں کی صف میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ فلم "لیڈر” کا ایک گیت’ اپنی آزادی کو ہم ہرگز مٹاسکتے نہیں ،سر کٹا سکتے ہیں لیکن سر جھکا سکتے نہیں’ آج بھی لوگوں کی زبان پر رہتا ہے۔ یہی حال ” جا گرتی فلم کے اردو گیتوں کا بھی ہے ۔ آؤ بچو تمہیں دکھا ئیں جھانکی ہندوستان کی اور ہم لائیں ہیں طوفان سے کشتی نکال کے، اس دیش کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے ہر سال یوم جمہور یہ ۲۶ جنوری اور یوم۔
آزادی ۱۵ار اگست کے قومی تہوار کے موقعے پر سنا جاتا ہے اور مادر وطن کے سپوتوں کی قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے۔ فلم ‘پکار’ کا یہ گیت ” میرے دیش کی دھرتی سونا اگلے ، اگلے ہیرے موتی“ بھی کافی مقبول ہے ۔ اس فلم کو فلم ساز و ہدایت کار منوج کمار نے سابق وزیرا عظم شری لال بہادر شاستری کے جئے جوان جئے کسان کے نعرہ سے متاثر ہو کر ہی بنایا تھا۔ ایسے ہی فنکار منوج کمار کو دیش بھکتی فلم کا ہیرو اور انہیں بھارت کمار بھی کہا جاتا ہے۔ ۱۹۴۲ء کے پس منظر اور آندولن کے ارد گرد پر مبنی فلم ۱۹۴۲ء : اے لو اسٹوری ہے۔ اس فلم میں ہماچل پردیش کے ایک گاؤں کا سونی میں ایک انگریز افسر کے قتل اور کرانتی کاریوں کا قصہ ہے۔ مرکزی رول انیل کپور نے ادا کیا ہے۔ انوپم کھیر اور جیکی شراف نے اس فلم میں کرانتی کاریوں کے رول بخوبی نبھائے ہیں ۔ آزادی کی لڑائی میں حصہ لینے والے اہم بہادروں پر بھی بہت ساری فلمیں بنی ہیں، جس میں گاندھی کو ان میں فوقیت حاصل ہے۔ ریچر ڈاٹن برو نے اپنی فلم میں ایمانداری دکھاتے ہوئے و پن کیگ سہیلے کو چند سکنڈ کے لئے فلم کے پردے پر گاندھی جی کے حقیقی روپ میں دکھایا ہے۔ شیام بینگل کی "دی میٹنگ آف مہاتما‘ بھی گاندھی جی پر ہی فلم ہے۔۔
بھارت اور دکھن افریقہ کی سرکاروں کے تعاون سے بنی اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ دکھن افریقہ میں گوری سرکار کے قانون سے بے پروا ہو کر کس طرح گاندھی جی ایک عام شخص سے مہاتما بن گئے۔ اس فلم میں رجت کپور نے گاندھی جی کا اور پلوی جوشی نے کستور با گاندھی کے رول بخوبی نبھائے تھے ۔ گاندھی جی کے علاوہ ولبھ بھائی پٹیل اور ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی زندگی پر بھی فلمیں بن چکی ہیں۔ مرد آہن سردار ولبھ بھائی پٹیل پر فلمساز کیتن مہتا نے سردار نام سے فلم بنائی تھی ۔ اس فلم میں پریش راول مرکزی رول میں تھے۔ اس طرح امبیڈکر کی زندگی پر فلمساز جبار پٹیل نے فلم بنائی تھی جس میں مرکزی کردار ملیالم کے مشہور و مقبول ایکٹر ماموٹی نے ادا کیا تھا۔ ان فلموں سے متاثر ہو کر پاکستان کی سرکار نے قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی پر بھی فلم بنائی تھی ۔ ڈر انکولا کے رول ادا کرنے والا کر سٹو فارلی نے جناح کا کردار ادا کیا تھا۔ خیر یہ ان کا معاملہ تھا۔ ابھی اس بات پر دھیان دینا ہے کہ آزادی کے بعد ۶۵ سالوں کے درمیان آزادی کے۔
متوالوں کی زندگی پر جو فلمیں بننی چاہئے تھیں ، وہ نہیں بن سکی ہیں ۔ حکومت ہند اور ہمارے سنجیدہ فلمساز کو دھیان دینا چاہئے تا کہ ہماری آئندہ نسل ہماری آزادی کے متوالوں کے بارے میں جان سکیں اور اس سے متاثر ہو کر اپنے وطن کے لئے اپنی جان نچھاور کر سکیں۔!