
دفتر سے نکلتے ہی ماجد نے گاڑی تیز رفتاری سے چلا کر گھر کی طرف روانہ ہوا ۔ کسی دوست کو پانچ بجے گھر میں ملنے کے لیے کہا تھا ۔ اس لیے اسے روٹی وغیرہ کا انتظام بھی بازار میں ہی کرنا تھا ۔ اسے پتہ تھا کہ دوست وقت کا بہت پابند ہے اس لیے پانچ بجے سے پہلے ہی گھر پہنچنا ضروری ہے ۔ گاڑی کے پیچھے ایمبولینس بار بار ہارن بجا کر ماجد کو سایڑ چھوڑنے کے لیے اشارہ کرتی تھی لیکن ماجد نے یہ دیکھ کر نظر انداز ہی کر دیا کہ ایمبولینس گاڑی میں کوئی بیمار ہے ہی نہیں ۔ واقعی ایمبولینس گاڑی میں کوئی بیمار تھا ہی نہیں لیکن پھر بھی اس کا ڑرایور بار بار ہارن بجا رہا تھا ۔ تھوڑا آگے چلا تو سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں جام میں پھنسی تھی کیونکہ کسی ماروتی کار کا ایکسیڈینٹ ہوا تھا ۔ ایمبولینس گاڑی کو نہ آگے جانے کا راستہ تھا نہ ہی پیچھے جانے کا کیونکہ سایڑ نہ چھوڈنے کی وجہ سے وہ بھی جام میں اس جگہ پھنسی جہاں پیچھے موڑنے کا کوئی موقع ہی نہ تھا ۔ ماجد نے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرکے گھر پہنچنے میں کامیابی حاصل کی ۔ لیکن جوں ہی گھر کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا تو اس کی بیوی رو رو کر اپنے بال نوچ رہی تھی ۔ پتہ چلا کہ ماجد کا چار سال کا چھوٹا لڑکا بخار میں مبتلا ہو گیا ہے ۔ جب نزدیکی پرائمری ہیلتھ سینٹر پہنچایا گیا تو وہاں ڈیوٹی پر مامور ڈاکٹر صاحب نے اس کو شہر کے صدر ہسپتال ریفر کیا ۔ ایمبولینس حاصل کرنے کے لئے اس نے فیس ادا کیا اور ایک ملازم جو ایمبولینس کا انچارج تھا سے کہا مہربانی کر کے جلدی کریں۔۔۔۔۔۔۔
جب ملازم نے ایمبولینس ڑرایور کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ ایمبولینس گاڑی ایک گھنٹے سے جام میں پھنسی ہوئی ہے ۔۔۔