تحریر :فاضل شفیع بٹ
"تحصیلدار صاحب میرے ساتھ یہ ظلم نہ کریں۔ میں ایک غریب آدمی ہوں۔ میرے پاس بس یہ تھوڑی سی زمین ہے”۔ شبروز تحصیلدار کے سامنے گڑگڑا رہا تھا۔” شبروز دیکھو اس زمین پر ہم گاؤں کے لیے ایک واٹر سپلائی پلانٹ تعمیر کرنے جا رہے ہیں۔ یہ انتہائی ثواب کا کام ہے اور ہاں جو تھوڑی بہت زمین بچ جائے گی, آپ اس میں اپنے لیے دکان تعمیر کر لینا” تحصیلدار صاحب بڑے عاجزانہ انداز میں شبروز سے مخاطب ہوئے۔
شبروز گاؤں کا ایک غریب اور محنتی آدمی تھا, جس کے پاس تھوڑی سی زمین تھی اور مسجد کمیٹی کے سربراہ امجد علی ہر وقت اس زمین کو ہڑپنے کے چکر میں تھا اور اس کام کے لیے امجد علی نے مسجد کے خزانے سے ابھی تک لاکھوں روپے خرچ کیے تھے۔ لیکن اپنی ناپاک کوششوں میں وہ ابھی تک ناکام رہا۔
امجد علی نے ایک دن تحصیلدار صاحب سے مل کر واٹر سپلائی پلانٹ کے لیے شبروز کی زمین کی تجویز پیش کی اور بچی کھچی زمین پر مسجد کے نام پر اپنے بےروزگار بیٹے کے لیے دکان تعمیر کرنے کی بھی تجویز رکھی۔ مگر جب تحصیلدار صاحب نے کچھ دن بعد اراضی کے ریکارڈ اور موقع کی صورتحال کو دیکھ کر شبروز کو دکان تعمیر کرنے کی اجازت دی ، تو امجد علی کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ اس کے سجے سجائے خواب گویا پل بھر میں مسمار ہو گئے تب امجد علی نے تحصیلدار صاحب کے فیصلے کی مخالفت شروع کر دی۔
آستان پور کے لوگوں نے شبروز کے حق میں اس فیصلے کی کافی سراہنا کی۔ کیونکہ شبروز نے نیک نیتی سے واٹر سپلائی پلانٹ کے لئے کچھ اراضی وقف کر دی اور باقی ماندہ اراضی پر اپنے لئے دکانات تعمیر کرنے کا تحصیلدار سے اجازت لے لی۔ آستان پور میں ہمیشہ پانی کی قلت رہتی تھی جس کے لیے سرکار نے اس گاؤں کے لیے ایک واٹر سپلائی پلانٹ کی منظوری دی تھی۔ حالانکہ گاؤں میں امیر لوگوں کی بہت سی زمینیں خالی پڑی تھیں تاہم اس نیک کام کے لیے ایک غریب نوجوان شبروز کی زمین کو ہتھیانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ منصوبہ بنانے والے لوگ مسجد کی پہلی صف میں نماز ادا کرنے والے اور سفید لمبی داڑھی رکھنے والے لوگ تھے۔ ایسے لوگ جنہوں نے مذہب کے نام پر کمزور لوگوں پر کافی ظلم ڈھائے تھے، ایسے لوگ جو نئے نئے فتنوں کو ہوا دینے میں ہمیشہ پہل کرتے تھے اور ایسے لوگ جنہوں نے مسجد کے خزانے سے اپنے گھر آباد کیے تھے۔
اگلے کچھ دنوں میں گاؤں کے لئے واٹر سپلائی پلانٹ پر برق رفتاری سے کام شروع ہوا اور شبروز نے بھی قرض لے کر اپنی دکان کا کام شروع کیا۔
امجد علی سے یہ سب دیکھا نہ گیا۔ وہ حسد کی آگ میں جل رہا تھا۔ اب وہ واٹر پلانٹ کی تعمیر سے ناخوش نظر آرہا تھا۔ گاؤں کے لیے پانی کی قلت کا مسئلہ اس کے لیے کسی اہمیت کا حامل نہ تھا۔ وہ شبروز کی بچی کھچی زمین کو ہڑپنا چاہتا تھا اور اس کام کے لیے نئے نئے منصوبے تیار کرنے لگا۔ امجد علی نے حاجی غلام دین کے ہمراہ ضلع کے کلکٹر صاحب کے سامنے شبروز کے خلاف اپنی عرضی دائر کی۔ حاجی غلام دین نے پچھلے سال ہی حج کا متبرک فریضہ انجام دیا تھا اور شاید شیطان کو کنکر مار کر اپنے اندر کے شیطان کو مارنا بھول گیۓ تھے۔ کلکٹر صاحب حاجی غلام دین کے ہم زلف تھے اور ان کے مراسم بہت اچھے تھے۔ کلکٹر صاحب نے تحصیلدار کو فون کر کے شبروز کے کام کو فوراً روکنے کا حکم دیا۔ تحصیلدار صاحب ایک ایماندار اور عدل پسند آفیسر تھے۔ انہوں نے کلکٹر صاحب کو سمجھانے کی ایک ناکام کوشش کی۔ کلکٹر صاحب نے امجد علی کو شبروز کے خلاف کورٹ میں کیس دائر کرنے کی صلاح دی اور ان کو وکیل صاحبہ سے ملنے کے لیے روانہ کیا۔
وکیل صاحبہ کلکٹر صاحب کی اہلیہ تھی جو دن بھر اپنے چیمبر میں مکھیاں مارتی رہتی تھی۔ ان کو وکالت کے بارے میں زیادہ علمیت تو نہ تھی لیکن کلکٹر صاحب کی مہربانی سے اچھا خاصا کماتی تھی۔
وکیل صاحبہ نے امجد علی کے ہاتھ میں وکالت نامہ تھما دیا۔ امجد علی اور حاجی غلام الدین نے بڑی چالاکی سے وکالت نامے پر محلے والوں کے فرضی دستخط کیے اور شبروز کے خلاف کیس دائر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وکیل صاحبہ کے لیے ایک لاکھ روپے کی فیس مسجد کے خزانے سے ادا کی گئی۔ اس طرح کلکٹر صاحب کے گھر مسجد کے خزانے سے لی گئی رقم راتوں رات داخل ہوئی۔ جج صاحب نے کلکٹر صاحب کے کہنے پر واٹر پلانٹ اور شبروز کا کام فوراًبند کرنے کا حکم جاری کیا۔
کلکٹر صاحب بڑے شاطرانہ طریقے سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اسی کلکٹر صاحب نے گاؤں کے لیے واٹر پلانٹ کی سفارش کی تھی اور آج اسی واٹر پلانٹ کی بدولت ان کی اہلیہ نے محض ایک دن میں لاکھوں روپے کما لیے تھے۔ کلکٹر صاحب سرکار سے اپنی تنخواہ لینے کے ساتھ ساتھ اپنی نااہل بیوی کی کمائی کا ایک خوب ذریعہ بھی تھے۔
امجد علی اور حاجی غلام الدین نے آستان پور کے اندر ایک گھناونا ماحول قائم کیا ہوا تھا۔ یہ لوگ مذہب کی آڑ میں لوگوں کو اکسا رہے تھے۔ ایک غریب کی زمین ہڑپ کر اس پر مسجد کے لیے دکان تعمیر کرنا مذہب کے اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔ لیکن مسجد کے نام پر دکانات تو محض ایک بہانہ تھا۔ اصل میں امجد علی کو اپنے بے روزگار بیٹے کے مستقبل کی فکر ستا رہی تھی اور اپنے بیٹے کے مستقبل کے لیے شبروز کی ملکیتی زمین کو ہڑپنے کے منصوبے بنائے جا رہے تھے۔ جس کے لئے امجد علی جیسا مکار اور طاقتور انسان کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔
امجد علی اپنے ذاتی مفادات کے لیے مذہب کا استحصال کرنے والا ایک طاقتور انسان تھا۔ جس نے ابھی تک مسجد کے خزانے سے دس لاکھ روپے کی ھیرا پھیری کی تھی اور آستان پور کے لوگ چُپ چاپ یہ تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ امجد علی اور حاجی غلام دین جیسے لوگ مذہب کی آغوش میں ایک نہایت ہی گھٹیا قسم کا کھیل انجام دے رہے تھے۔
بے بس شبروز اپنے حق کی لڑائی لڑنے کے لیے مجبور تھا لیکن غریبی اور تنگدستی نے شبروز کی زندگی کو ہر طرف سے گھیرا تھا۔ وہ اپنے کیس کی سماعت کی رقم کہاں سے لاتا ؟
مگر خوش قسمتی سے ایک ایماندار وکیل صاحب نے شبروز کا کیس مفت میں لڑنے کا فیصلہ کیا۔ وکیل صاحب نے شبروز کی کافی حوصلہ افزائی بھی کی اور حق کی اس لڑائی میں آخر تک شب روز کا ساتھ دینے کا وعدہ بھی کیا۔
واٹر پلانٹ کے ساتھ ساتھ شبروز کی دکانوں کا کام بند کروا دیا گیا تھا۔ کل تک امجد علی نے جس واٹر پلانٹ کے آڑ میں شب روز کی زمین کو ہڑپنے کی کوشش کی تھی، آج امجد علی اسی واٹر پلانٹ کے بالکل خلاف تھے اور آستان پور کے دین دار اور باشعور لوگ اس کام میں امجد علی کا ساتھ بخوبی نبھا رہے تھے۔ ان لوگوں کو شب روز سے ہمدردی تھی لیکن یہ لوگ امجد علی کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔
شبروز انصاف کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوا۔ اس نے کئ عہدہ داروں کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن ہر دروازے پر شبروز کو شکستگی کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی بھی عہدے دار نے کلکٹر صاحب کی نافرمانی کرنا مناسب نہ سمجھا۔ سب لوگوں کو اپنی نوکری سے محبت تھی اور کلکٹر صاحب کے خلاف جانا گویا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ شبروز کے وکیل صاحب نے بھی کافی جدوجہد کی لیکن جابر, کورپٹ اور طاقتور نظام کے سامنے وہ لاچار تھے۔
کلکٹر صاحب، وکیل صاحبہ اور جج صاحب کی مدد سے امجد علی کے حق میں فیصلہ سنایا گیا۔ وکیل صاحبہ نے کیس جیتنے کےآٹھ لاکھ روپے کی مانگ کر رکھی تھی۔ امجد علی نے آناًفاناً آستان پور کے لوگوں سے مسجد کے نام پر چندہ جمع کیا اور وکیل صاحبہ کی جھولی پیسوں سے بھر دی۔ پیسے ملتے ہی وکیل صاحبہ اپنے شوہر کے ہمراہ حج کا متبرک فریضہ انجام دینے کے لیے نکل پڑی۔ جج صاحب کا پروموشن ہوا اور اپنی پسند کی عدالت میں نیا تبادلہ کروانے میں کامیاب ہوئے۔
امجد علی اور حاجی غلام دین نے شبروز کی پوری زمین ہڑپ کر کے وہاں ایک خوبصورت شاپنگ کمپلیکس تعمیر کرنے کا منصوبہ تیار کیا اور مسجد کمیٹی سے مستفعی ہوئے۔
مسجد کا خزانہ خالی ہو چکا تھا اور سارے روپیے کیس کی سماعت پر خرچ ہوئے تھے۔ گاؤں میں خبر گردش کر رہی تھی کہ شاپنگ کمپلیکس میں مسجد کے نام پر کوئی دکان نہ ہوگی جبکہ پس پردہ کلکٹر صاحب کے نام پر ایک دکان رکھی جائے گی۔
شبروز آج بھی مزدوری کر کے اپنا پیٹ پال رہا ہے۔ اس نے وقت کے طاقتور انسانوں اور دین کے ٹھیکے داروں کے سامنے جھکنا مناسب نہ سمجھا۔ وکیل صاحب کی مدد سے شبروز نے جج صاحب کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی اور شبروز کو پورا یقین ہے کہ قانون ایک دن ضرور اس کے ساتھ انصاف کرے گا۔