تحریر:فاضل شفیع بٹ
اپنے علاقے کے مختلف چھوٹے بڑے سرکاری اسکولوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کالج میں داخلہ لیا۔ کالج میرے لئے کسی جنت سے کم نہیں تھا۔ طبعیت میں لڑکپن سے ہی کچھ عجیب بات تھی۔ حسن و جمال آنکھ کو خوب بھاتا تھا اور جب بھی کسی خوبصورت لڑکی کو دیکھتا تھا تو بے چین ہو جاتا تھا۔ کالج میں چونکہ بہت سی خوبصورت لڑکیاں تھیں۔ ان کو دیکھتے ہی میرے دماغ میں پھلجڑیاں پھوٹنے لگتی تھیں اور دل بلیوں کی طرح اچھلنے لگتا تھا۔ گویا ہر ایک لڑکی سے مجھے پیار ہو جاتا۔ یہ کسی پاگل نے اڑائی ہوگی کہ پیار زندگی میں صرف ایک بار ہوجاتا ہے ۔ میں تو دن میں دس لڑکیوں کو اپنا دل دے بیٹھتا تھا۔ لیکن پھر یہ سوچ کر اپنے دل سے ان خیالات کو باہر پھینک دیتا تھا کہ کہیں یہ پڑھائی میں خلل کا سبب نہ بن جائے۔ تعلیم سے کوئی سمجھوتہ نہیں تھا مگر دل بھی اپنی پیاس بجھانے کو بے قرار تھا۔
تعلیم مکمل کرتے ہی ایک اچھی خاصی سرکاری نوکری حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔ میری شخصیت میں بھی ایک عجیب کشش اور وجاہت تھی اور صنفِ نازک میری طرف کسی مقناطیس کی طرح کچھی چلی آتی تھی۔ سرکاری نوکری ملنا گویا میرے ادھورے خوابوں کی ایک تعبیر تھی۔ یہ میری زندگی کا ایک بڑا مقصد تھا جس کے لیے میں نے اپنے بھر پور شباب کے دنوں میں خود کو کئی خوبصورت لڑکیوں سے مجبوراََ دور رکھا تھا۔ ان کی طرف مائل ہونے سے اپنے دل و جسم پر جیسے پابندی لگا دی تھی۔ اب وہ قدغن ختم ہو چکی تھی۔ اتنے سالوں کی بھڑاس نکالنے کا اب وقت آچکا تھا۔ اب میرے پاس چھوٹی موٹی طاقت تھی، پیسہ تھا، گویا اپنی چھوٹی سی دنیا کی ہر چیز میرے قدموں میں تھی۔ نوکری ملتے ہی مجھے ہر خوبصورت لڑکی سے پیار ہو جاتا تھا۔ گاڑی میں، میرے آفس میں، راستے میں، جتنی بھی خوبصورت لڑکیاں ملتی، میرا دل زور سے دھڑکنے لگتا۔
حسن و جمال سے لطف اندوز ہونے کی شروعات نوکری ملنے کے ایک مہینے بعد ہی ہوئی۔ اس پہلی لڑکی کی خوشبو مجھے بے چین کر دیتی، میرا جسم اس کی محبت کی آگ میں جھلس جاتا۔ میں اس کے رنگین خوابوں میں کھو جاتا اور ایک دن وہ میری قربت میں آ ہی گئی۔ اتنے قریب کہ میرے ہونٹ اس کے ہونٹوں میں پیوست ہوئے اور اس کی خوشبو میرے جسم میں پھیل گئی۔ اس رات ہم ایک ساتھ تھے، ایک کمرے میں، ایک بستر میں۔۔۔۔۔۔
کچھ ہوش اڑا دینے والی ملاقاتوں کے بعد پتہ نہیں کیوں مجھے اس سے گھن آنے لگی۔ اس کے جسم سے، اس کے گلابی ہونٹوں سے، اس کی ہر ایک ادا سے مجھے نفرت ہونے لگی اور میں نے اس کے ساتھ اپنا رابطہ منقطع کیا۔ میری پہلی ہوس اپنے تکمیل کو پہنچ چکی تھی۔
یہ سلسہ بلا کسی ناغے کے جاری رہا۔ خوبصورت لڑکیوں پر اپنا جسم, دولت اور وقت نچھاور کرنا بڑا خوش کن لگتا تھا۔ شادی سے پہلے میں نے کئی لڑکیوں سے جسمانی تعلقات قائم کیے۔ پھر گھر والوں کی مرضی پر میں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ میری بیوی خوبصورتی میں یکتا تھی۔ ایک سال تک کسی بھی دوسری لڑکی کی طرف میرا گویا دھیان ہی نہیں گیا۔ پھر اچانک میری بیٹی کی پیدائش سے ہی میری بیوی کے ساتھ دوریوں کا ایک ہلکا سا سلسلہ شروع ہوا۔
میرے آفس میں ایک جوان لڑکی کام کرتی تھی۔ اب میری ساری توجہ اور سارے جوش کی مرکز وہ لڑکی تھی۔ میں نے اپنی دفتری پوزیشن کے بل بوتے پر اس کے ساتھ خوب اپنی تسکین کا سامان کیا۔ لیکن پھر حسب عادت اس سے بھی دل بھر گیا اور اس کا تبادلہ کرا دیا۔
میرے گھر پر بھی ایک کالج کی لڑکی شام کو میرے پاس ٹیوشن کی غرض سے آیا کرتی تھی۔ وہ مجھے اچھی لگنے لگی۔ اور وہ بھی شاید اسی بات کی منتظر تھی۔ اس کے دل میں بھی ارمانوں کا ٹھاٹھے مارتا سمندر جوش مار رہا تھا۔ جب بھی میری اہلیہ گھر میں نہیں ہوتی تھی, ہم دونوں ایک دوسرے کی ضرورت اچھے سے پوری کرتے تھے۔ اس لڑکی میں باقی لڑکیوں سے ہٹ کر ایک بات تھی۔ وہ میری ہی طرح جوش و جذبے کا ایک وسیع سمندر تھی۔ وہ اپنی مرضی سے خود کو پیش کرتی تھی اور بہت لطف اندوز ہوتی تھی۔ یہ شاندار کھیل بھی کئی مہینے جاری رہا۔ اور پھر میرا من اس لڑکی سے متلانے لگا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ اس کو ایک اچھے خاصے گھر کا لڑکا مل گیا تھا اور اب وہ میرے ساتھ ڈھیلی پڑ گئی تھی۔ میں نے بھی حالات کو بھانپ کر اس کی ٹیوشن سے چھٹی کر دی۔
میں اپنے علاقے کا ایک معزز شہری مانا جاتا تھا۔ میرے اندر کے جانور سے سب لوگ بے خبر تھے۔ اپنی نوکری سے سبکدوش ہونے تک حسن و جمال سے ہر طرح سے حض حاصل کرنا جاری رہا۔ کیونکہ یہ میری ضرورت بن چکی تھی۔ مجھے اپنی بیوی سے بھی پیار تھا اور میں اس کی تمام ضروریات پوری کرتا تھا لیکن اس کے برعکس سب خوبصورت عورتیں اور لڑکیاں بھی مجھے اچھی لگتی تھیں اور ان کے ساتھ تعلق قائم کرنا میری کمزوری بن چکا تھا۔ میں نے کئی دفعہ سوچا کہ اپنی بیوی سے دوسری شادی کرنے کا کہہ دوں, پھر اس کی ممکنہ پریشانیوں کا سوچ کر یہ فیصلہ بھی رد کیا۔ اور پھر ضرورت بھی نہیں تھی۔ کیونکہ میری خواہشیں اچھے سے پوری ہو ہی جاتی تھیں۔ میرا بھٹکا ہوا نفس مجھ پر اس قدر حاوی تھا کہ کبھی خوف خدا سے بھی میرا دل نہ گھبرایا اور سوچا ریٹائرمنٹ کے بعد توبہ کر کے سارے گناہوں کی معافی ایک ساتھ مانگ لوں گا۔ میری بیٹی بھی اب جوان ہو گئی تھی اور ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد میں نے حج کا متبرک فریضہ انجام دینے کا فیصلہ کیا۔
میں اپنی بیوی کے ہمراہ سفرِ حج پر روانہ ہوا۔ لاکھوں کی تعداد میں خوبصورت عورتیں حج کا فریضہ انجام دینے میں مصروف تھیں۔ لوگ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے اور میری آنکھیں خوبصورت عورتوں کا دیدار کرنے میں محو تھیں۔ سوچا کاش میں اندھا ہو جاتا اور کسی بھی دنیاوی چیز دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا۔ لیکن یہ مجھ پر اللہ کا عذاب تھا کہ میں اپنے پراگندہ ذہن و دل سے غلیظ اور شہوانی خیالات کو ارض مقدس میں بھی نہ نکال پایا۔
اب میرے نام کے ساتھ ایک اور لفظ جڑ گیا۔ میں حاجی تو بن گیا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں حسن و جمال کو دیکھنے کی عادت ابھی تک برقرار تھی۔ میں مسجد جاتا، نمازیں ادا کرتا، صدقہ و خیرات بھی دیتا لیکن گھر میں ایک بیس سالہ کام کرنے والی سانولی لڑکی کو دیکھ کر جی بھی ہمیشہ للچاتا تھا۔
اب دن بھر فیس بک پر لڑکیوں کا ناچ گانا دیکھتا رہتا۔ فیس بک پر ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ میں نے اپنی پوری سروس میں ایسی خوبصورت لڑکیاں نہ دیکھی تھیں۔ فیس بک پر بہت ساری عورتوں اور لڑکیوں سے میری دوستی ہو گئی۔ کسی بھی لڑکی یا عورت کے کسی بھی مبارک دن پر محترمہ کو مبارک باد پیش کرتا لیکن شاید اب عمر کی وجہ سے سر اور چہرے پر چھائی ہوئی سفیدی بھانپ کر سب عورتیں اور لڑکیاں مجھ کو نظر انداز ہی کرتیں۔
میری بیٹی جونئیر اسسٹنٹ تھی۔ ایک دن آفس سے گھر آکر بہت روئی۔ استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کے ساتھ اس کے باس نے بدتمیزی کی ہے۔ اس کی آنکھیں متورم اور سرخ تھیں۔ میں نے اس کی پیٹھ کو پیار سے تھپتھپایا اور اس کے باس کو سبق سکھانے کا وعدہ کیا۔ اچانک میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ میں نے آج تک جن لڑکیوں کے ساتھ اپنے جسمانی تعلقات قائم کیے تھے، وہ سب لڑکیاں میری آنکھوں کے سامنے تھیں۔ مکافات عمل شروع ہوچکا تھا۔
” دیکھا آج تمہاری بیٹی کے ساتھ کیا ہوا۔ وہی ہوا جو تم نے ہم سب کے ساتھ کیا تھا۔۔ اب بولو کیسا لگ رہا ہے تم کو۔۔۔” وہ سب لڑکیاں ایک ساتھ بلند آواز میں مجھ سے مخاطب تھیں۔ میری روح کانپ اُٹھی، میرا جسم تھرتھرانے لگا، مجھے اپنے وجود سے نفرت ہونے لگی۔۔
تھوڑی دیر کے بعد سنبھل کر میں نے اپنا فیس بک اکاؤنٹ کھولا اور کیا دیکھتا ہوں کہ اس دوڑ میں, میں تنہا نہیں ہوں۔ بہت سارے ریٹائرڈ ڈاکٹر، انجینیئر, پروفیسر, کاروباری اور بڑے بڑے ادیب اور شاعر میری ہی طرح ٹھرکی نکلے۔۔ وہ لوگ بھی ان عورتوں کی تصاویر پر خوب کمنٹ کرتے، ان کی خوب پذیرائی کرتے۔ جنم دن پر مبارک باد دینا, پارٹی کی تصویروں پر شاندار شاندار تبصرے کرنا وغیرہ وغیرہ ان ٹھرکیوں کی طبعیتِ ثانیہ تھی۔ شاید یہ خوبصورت عورتیں ان کے بڑھاپے کا سہارا تھیں۔ حالانکہ یہ لوگ اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین تھے لیکن وہاں یہ کسی بھی نوجوان ڈاکٹر, انجینیر, طالب علم, ادیب یا نو آموز شاعر کی رہنمائی نہیں کرتے تھے۔ بلکہ معاشرے کی ایسی بے باک اور ماڈرن عورتوں اور لڑکیوں کی معمولی سے معمولی پوسٹ پر بھی اپنے تبصرے جاری رکھے ہوئے تھے۔
میرے اندر کے جانور نے بھی ایک راحت کی جگالی کی اور ایک جوان لڑکی کی نئی تصویر کو لائک کرکے اس پر کمنٹ کرنے لگا۔