تحریر:ایس معشوق احمد
بعض واقعات انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں اور آنکھوں سے آنسو خودبخود رواں ہوتے ہیں۔دل روتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ 23 مئی 2023 کو پیش آیا جس پر یقین کرنا ناممکن اور صبر کرنا مشکل تھا ۔کس منہ سے یہ کہیں کہ ہماری پیاری بہن عصمت آراء اس دنیا میں نہیں رہی۔ اس روز سید اشفاق نے فون کرکے یہ اطلاع دی کہ عصمت بیمار ہے۔ میں نے شعبان کو کال کی اس نے نہیں اٹھائی تو تشویش ہوئی ۔چند منٹ بعد ہی اس کے نمبر سے کال آئی اور ایک غیر مانوس آواز نے یہ جاں فرسا اور اذیت ناک خبر دے کر کلیجہ چیر دیا کہ عصمت کا انتقال ہوگیا ہے۔انا للہ وانا اليہ راجعون۔اف خدایا یہ ظلم۔یہ اذیت ، اب ایسی خبر بھی سنی تھی جو حقیقت کے باوجود ناقابل یقین ہو ،جس کو سن کر صبر کرنا چاہیے لیکن سینہ کوبی کرنے کو من کرتا ہے،ایسی اذیت ناک خبر سن کر کریم رب کی رحمت سے بےتحاشا سوالات کئے جا سکتے ہیں کہ یا الہی اب اس کی بچیوں کا کیا ہوگا، شیرخوار بچہ کیسے پرورش پائے گا ، والدین پر کیا گزرے گی ، شوہر کو کیسے قرار آئے گا ، افراد خانہ کو کیسے صبر آئے گا اور سہیلیوں اور دوستوں پر کیا بیتے گی۔عصمت کو اس عمر میں نہیں مرنا تھا، بھلا اس عمر میں بھی کوئی انتقال کرتا ہے لیکن عصمت۔۔۔ وہ سب سے الگ تھی، سب سے جدا شاید اسی لیے بتیس سال کی عمر میں ہی اس جہاں فانی کو خیر آباد کہہ کر چلی گئی اور پیچھے چھوڑ گئی دوستوں اور سلہیوں کے لیے یادیں، اپنوں کے لیے اذیتیں ، شوہر کے لئے امتحان۔۔۔ اتنا ہی ظلم اس نے جا کر نہ کیا بلکہ وہ دو بچیوں کو اپنی مامتا سے محروم کر گئی اور ان کو مستقبل کے وسوسے سونپ کر گئی ، ماں باپ کے لئے صبر کی ستم گر راہ چھوڑ کر گئی جس پر انہیں چلنا ہی پڑے گا، بہنوں کے لئے ایک زخم چھوڑ کر گئی جو ہزار کوشش کے باوجود نہیں بھرے گا اور انتہا تو یہ کہ کہ اپنے شیر خوار بچے کو اپنے دیدار اور دودھ سے محروم کرکے گئی۔
دوست زندہ ہو تو اس سے ملاقات کرکے مسرت حاصل ہوتی ہے لیکن کوئی دوست اس عمر میں انتقال کر جائے جس عمر میں مسقتبل کو سجانے سنوارنے کے خواب جاگتی آنکھوں سے بھی دیکھے جاتے ہیں تو رنج گلے لپٹ جاتا ہے اور دکھ بغل گیر ہوتا ہے۔ عصمت کا سانحہ معمولی نہ تھا اور اس دکھ کو کم کرنے کے لئے اس کے عزیز و اقارب کی تکالیف کو بانٹنا ضروری تھا۔ اس لئے عصمت کے انتقال پر رنجیدہ ہوکر تعزیت کرنے کے لئے 28 مئی کو اوڑی جانا طے پایا۔اس سفر میں شریک سید اشفاق ہوئے۔ حالت غیر اور غمزدہ، اوڑی کا انجان سفر ، خوف اور وسوسوں کو کم کرنے کے لئے شعبان سے رابطہ کیا ۔وہ ہمہ وقت ہر کام کے لئے تیار رہتا ہے بس اس کے کانوں تک بات پہنچنی چاہیے۔راستے کو ہموار اور سفر کو آسان کرنے کے لئے اس کی رہنمائی لی ۔راستے میں بس ایک بات ذہن پر بار بار دستک دیتی رہی کہ اوڑی عصمت کے گھر پہنچ کر کیسے صبر آئے گا اور عصمت کے والدین اور عزیز و اقارب کو کیا تلقین کریں گے۔
آخرکار جیسے تیسے اوری پہنچ ہی گئے ۔شعبان کو کال کی چند منٹ انتظار کے بعد وہ گاڑی لے کر آگیا اور اگلے چند منٹوں کے بعد شعبان نے ہمیں دکھایا کہ یہ عصمت کا گھر ہے اور یہ سسرال ، ایک گھر کو نکل کر پاس ہی راستے کے دوسری جانب کے گھر کو عصمت نے روشن کیا تھا اور اس کے روشنی یقینا دونوں گھروں کو منور کرتی ہوگی۔گھر کو ہی دیکھ رہے تھے کہ شعبان کی آواز آئی کہ یہ عصمت کے والد ہیں ۔ان سے مصحافہ کیا ،ان کے گلے لگ کر انداز ہوا کہ جس باپ کی جوان بیٹی انتقال کر گئی ہو اس کے سینہ کا ارتعاش اور دل کا کیا حال ہوتا ہوگا ، اس کی آنکھوں میں کتنی نمی ہوگی ، اس کے سینے میں کتنا درد سما چکا ہوگا اس درد کا انداز اس سے گلے لگ کر کیا جاسکتا تھا۔باپ کی بے بسی کا عالم اور صبر کی انتہا دیکھ کر آنکھیں بھر آئیں کہ وہ رب کی رضا میں راضی تھا۔عصمت کی والدہ کی حالت کا اندازہ تو صرف وہ لوگ ہی کرسکتے ہیں جن کا کوئی اپنا اس وقت چھوڑ کر گیاہو جب امید تک نہیں ہوتی کہ یہ گھاؤ بھی سینے پر کھانا ہے۔
عصمت کے سسر سے باتیں ہوئیں، اس کی قبر پر فاتحہ پڑھنے گئے ، اس کے شوہر سے تعارف ہوا اور بات واپسی کی ہوئی تو شعبان اور عصمت کی بہنوں نے بغیر کھانے کے نکلنے کی اجازت نہ دی۔عصمت کی بڑی بہن نے نم آنکھوں سے اتنا کہا کہ عصمت اگر زندہ ہوتی تو چاؤ سے سب کو کھانا کھلا کر خوش ہوتی۔کھانا کھالو عصمت کی روح کو سکون ملے گا وہ خوش ہوگی۔بس اس کا یہ کہنا تھا کہ دل پگھل گیا ، آنکھیں نم ہوئیں اور سید اشفاق کے منع کرنے کے باوجود میں نے اپنا ہاتھ دھو لیا اور کھانا شروع کیا۔پہلا نوالہ منہ میں رکھتے ہی مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ واقعی عصمت کی روح کو سکون مل رہا ہے وہ زندہ ہوتی تو کم سے کم مجھے اوڑی میں دیکھ کر نہ صرف خوش ہوتی بلکہ اشتیاق سے ناز اٹھاتی ،تکلف سے کام لیتی ،کسی چیز سے منع کرتے تو زبردستی کھلاتی ، محبت سے روکتی ، گھومنے لے جاتی اور ہم سے باتیں کرتی مسقبل کے متعلق، ادب کے متعلق ، کامیابی کے متعلق اور شاید ان تیاریوں اور پلانز کے متعلق جو ہم نے مستقبل کو سںنوارنے کے لئے سوچ اور کرسکتے تھے۔عصمت نہیں تھی اس کے بدلے اس کی دو بہنیں تھیں اور ہم سب کی نم آنکھیں ، اس کی یادیں ، اس کی باتیں ، اس کا مسکراتا چہرہ اور اس کی دو خوبصورت بچیاں جنہیں شاید خبر نہ تھی کہ ان کی ماں اب کبھی واپس نہیں آئے گی۔
عمصت کی بہنوں اور شوہر سے اجازت لے کر واپسی کی راہ لی لیکن غم تھا کہ مسلسل سینے میں پیوستہ ہوتا جارہا تھا، دکھ تھا کہ ساتھ چھوڑنے کو تیار ہی نہ تھا، اذیت تھی کہ تیر کی طرح سینے میں گھڑ جاتی تھی اور آنسو تھے کہ روکنے کے باوجود رکتے نہیں تھے۔انسان اتنا بے بس ہے کہ جانے والوں کو روک بھی نہیں سکتا، بے بس ہوکر ان کے لیے بس دعا کرسکتا ہے۔میں بھی ہاتھ پھیلا کر اور رو رو کر دعا کرتا ہوں کہ رب کریم عصمت کی تمام خطائیں ، کوتاہیاں ، لغزشیں معاف فرمائے اور اسے جنت میں اعلی مقام عطا کرے۔
(نوٹ :- "بچوں والی عصمت” کے عنوان سے راقم نے عصمت کا خاکہ لکھا ہے جو میری کتاب ” میں نے دیکھا ” میں شامل ہے.)