
زاہد مختار کا نام دہائیوں سے ادبی افق پر ایک معیاری شاعر ، نفیس افسانہ نویس اور کامیاب مدیر کی حیثیت سے چمک رہا ہے۔ان کی قلم کی روانی ہی قابل رشک نہیں ہے بلکہ لہجے کی مٹھاس بھی دل پذیر ہے۔ان کے متعلق غلام نبی خیال لکھتے ہیں کہ _ _
"زاہد ایک حساس شاعر ہے، ایک سلجھا ہوا افسانہ نویس ہے اور ایک اچھا ڈراما نگار ہے۔میں زاہد کی کسی تخلیق کو پڑھے بغیر ہی کہہ سکتا ہوں کہ اس میں کتنی گہرائی اور کتنی سنجیدگی ہوگی۔”
مجھے یہ دعوی نہیں کہ پڑھے بغیر میں زاہد مختار کی کسی تخلیق کے بارے میں کہوں کہ اس میں کتنی گہرائی اور سنجیدگی ہے لیکن ان کی تازہ تصنیف دستک سی در دل پر کے مطالعے کے بعد میں خود کو یہ کہنے میں حق بجانب سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب دل پر ہی نہیں ذہن پر بھی دستک دیتی ہے اور اس کتاب کے مطالعے سے زاہد مختار کی حساسیت ،سنجیدگی ، موجودہ ادبی منظرنامے سے ان کی واقفیت ، ادبی دنیا میں پنپ رہی مختلف بیماریوں، گروہ بندی ، چاپلوسی ، خوشامد ، ایوارڈز کی خرید و فروخت پر ان کی نظر ، زندگی اور اس سے جڑے مسائل کا گیان ، زمانے اور معاشرے میں پھیل رہی عریانیت ، خام خالی اور انا پرستی ، فطرت اور قانون فطرت سے ان کی شناسائی کا پتا چلتا ہے۔
اس کتاب میں زاہد مختار کے چھتیس ادرائیے اور ایک معلوماتی انٹرویو شامل ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ اس کتاب میں شامل تحریریں محض ادارئیے ہیں یا انشائیے یا کالم ۔کتاب پر ادرائیے اور مقالات لکھا ہے لیکن ان تحریروں میں ادرایہ کی چہک ، انشائیہ کی مہک اور کالم کی لہک ملتی ہے۔ زیر نظر کتاب 2021 ء میں منظر عام پر آئی۔کتاب کو المختار پبلی کیشنز اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔زاہد مختار کی خاصیت ہے کہ وہ عام نہج سے ہٹ کر لکھتے ہیں۔اس کتاب میں بھی روایت سے بغاوت ملتی ہے کہ کتاب میں فہرست یا شامل کتاب ادرایوں کی ترتیب نہیں ملتی۔دعا کے بعد قارئین کو ” من وعن ” پڑھنے کو ملتا ہے ۔اس میں زاہد مختار نے جھوٹ اور سچ کا موازنہ کیا ہے اور خود کو بھی قلم و قرطاس کے کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔اپنی شعری تصنیف سلگتے چنار کے متعلق یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ____
"میری شعری تصنیف سلگتے چنار نے میری کشمکش ،میری تڑپ ، میری محرومی اور میری بے بسی یا شاید میرے ردعمل کو بیان کرنے کی سعی کی تھی۔ ”
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب کے مصداق مصنف کبھی فرار چاہتے ہیں سارے بندھنوں ،رشتوں ،مجبوریوں اور ذمہ داریوں سے تو کبھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ سب کچھ عیاں نہیں کیا جاسکتا۔ مصنف نے اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ مجھے انگور کی بیٹی سے نفرت اور حوا کی بیٹی سے الفت رہی ہے۔مصنف اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ ماں سر پر ہاتھ رکھے تاکہ ساری تھکان دور ہوجائے لیکن یہ چبھن کہ اس کا سایہ میسر نہیں۔احساس کی چبھن میں زاہد مختار کو یہ احساس تنگ کررہا ہے کہ ادبی منظر نامے پر ایک مخصوص طبقہ راج کررہا ہے اور یہاں وہی اعلی پائے کا ادیب ہے جس کی جتنی پہنچ ہے۔اچھا لکھنے والے غیر مانوس ہیں اور ان کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔ کچھ قلمکار اپنے حلقہ عزیزاں کو آگے بڑھانے میں معاون کردار نبھا رہے ہیں تو وہیں اونچے منصب والے اثر و رسوخ سے مالی معاونت اور ایوارڈ حاصل کرتے ہیں۔ ایوارڈ دینا ہو یا محفل برپا کرنی ہو اس کا واحد مقصد من ترا حاجى بگویم، تو مرا حاجی بگو ہے۔ ایک اور پھانس جو مصنف کو چھب رہی ہے کہ ہم جسمانی طور بچھڑنے والوں کو یاد نہیں کرتے۔ادبی محفلوں کی صف بندی میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا ٹیگور ہال ،ایس کے آئی سی سی ، ہوٹل یا کالج میں منعقد ہونے والی محفلوں کو خالص ادبی کہا جاسکتا ہے۔؟ محفلوں کی پہلی صف خاص طبقوں کے لئے مخصوص ہوتی ہے ، دوسری صف قلمکاروں کے لئے اور تیسری صف نو آموزوں کے حصے میں آتی ہے۔دوسری صف والوں کو پہلی صف تک پہنچنے کے لئے ایک صدی درکار ہے سوائے ان کے جو گروپ ازم اور سفارشی ہیں۔
ہمارا معاشرہ روز بہ روز تنزل کا شکار ہورہا ہے اور اخلاقی لحاظ سے ہم دن بہ دن پست ہوتے جارہے ہیں۔عریانیت فیشن بن چکی ہے ، مرد عورت کا رخت اختیار کررہے ہیں اور عورتیں مردانہ لباس زیب تن کررہی ہیں ،جنسی بے راہ روی عروج پر ہے ،عورت متاع بازار بنی ہوئی ہے ۔الزام تراشی اور عریانیت ادب میں بھی در آئی ہے۔اس ابتر صورتحال کو زاہد مختار نے یہ برہنگی کب تک ؟ میں موضوع بنایا ہے۔ بے بس انسان جب مجبوری سے تنگ آکر خواہش کرتا ہے کہ کاش اس نے کوئی دو نمبر والا کام کیا ہوتا تو وہ بھی امیروں میں شمار ہوتا ، اس کے بچے عالی شان محل میں رہتے ، اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ، ان کے پاس وافر پیسہ جمع ہوتا اور زندگی گزارنا آسان ہوتی ۔ شناسا میں اس رویے کو مصنف نے قلمبند کیا ہے اور آخر پر یہ تاثر دیا ہے کہ کسی کو سدا یہاں نہیں رہنا امیر ہو یا غریب سب کو دو گز کفن لپیٹ کر منوں مٹی تلے دفن ہونا ہے۔مصنف جب غور و فکر کرتا ہے ادبی دھندلیوں اور گروہ بندیوں پر ، فحاشی اور سرقہ بازی ، ایوارڈز، مشاعروں اور کانفرنسوں کے بندر بانٹ پر تو اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ یہاں سب سچ کے علمبردار ہیں مگر سچ کسی کی زبان پر نہیں تو وہ قلم اٹھا کر ضمیر کی چیخ کو قرطاس پر رقم کرتا ہے۔
جب جانبداری اور یاری دوستی قلم پر حاوی ہوجائے تو تنقید کی تنقید کا فریضہ حساس قلمکار نبھاتا ہے۔پھر وہ ادب کے لغوی معنی بھی بیان کرتا ہے اور بے مقصد ادب کو الگ کرکے ادبی محلفوں کی صف بندی کو بھی نشانہ بناتا ہے۔جب ادب کی بے ادبیاں اپنے عروج پر ہوں اور نظام ہستی اور فطرت خاموشی ہو تو ایک حساس قلمکار شناسا کا لحاظ نہیں کرتا اور نہ سرگوشی پر دھیان دیتا ہے بلکہ برسوں کا یارانہ بالائے طاق رکھ کر وہ ناقابل برداشت باتیں رقم کرتا ہے اور سچائی کے علم کو بلند کرنے کے لئے بس لکھتا چل جاتا ہے اس امید کے ساتھ کہ شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔ادبی سیاست کے بڑے بازار میں اناپرستی اور بعض لوگوں کی خام خیالی کو دور کرنے کے لئے جب کوئی یہ دعوی کرے کہ تماشائی سے بہتر ہے تماشا بن کے جی لینا تو اس کے دعوی کو غور سے سنا جاتا ہے۔داستان گو اور نانی اماں سے کہانی سننے کے بجائے جب فیس بک کے ذریعے افسانے پڑھانے کی کوشش ہوتی ہے تو زاہد مختار بے خوف فیس بکی ادب پر اظہار خیال کرتے ہیں اور اس کا انجام کیا ہوگا وہ انجام خدا جانے۔
دستک سی در دل پر میں بہترین زبان میں ادبی بد دیانتی ، گروپ ازم ، سرقہ باز ادیبوں ، سفارشی شاعروں ، چاپلوسی اور خوشامد سے ادبی دنیا میں نام پیدا کرنے والوں ، اپنے تعلقات کو استعمال کرکے ایوارڈ حاصل کرنے والوں کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔مناسب ہوگا اگر میں کہوں کہ اس کتاب میں میٹھے لہجے میں کڑوی بات کی گئی ہے جن کو سن کر کسی کے ماتھے پر شکن آسکتی ہے لیکن ان باتوں کو ٹھکرانے کا حوصلہ کسی میں نہیں۔زاہد مختار نے جھوٹ کا سینہ چیر کر سچ کو عیاں کرنے کی سعی کی ہے اور بے باکی سے طنز کے تیر چلائے ہیں۔اس کتاب کے مطالعے کے بعد زاہد مختار سے اپنے خفا ہوسکتے ہیں اور بیگانے ناخوش کیونکہ انہوں نے ادب اور ادبی منظر نامے کے حوالے سے تلخ اور ترش حقیقت بیان کی ہے اور زہرِ کو زہر کہنے کی جرات اور ہمت کی ہے وہ طبیعت سے مجبور زہر کو قند نہ کہہ سکے۔ وادی کے ادبی منظر نامے کے حوالے سے لکھتے ہیں۔__
” میری وادی میں کیا پورے برصغیر میں بہت اعلی پائے کےادیب ،شاعر،ڈرامانگاری ،صحافی ، ہدایت کار ، یا مصور رہتے ہیں لیکن قد آور وہی ہے جس کی جتنی پہنچ ہے۔معیار منصب کی سیٹرھی نہیں بلکہ منصب ہی معیار متعین کرتا ہے۔ادھر exhausted ادیبوں اور اپنے آپ کو دہرانے والے قلمکاروں کے دل میں اگلی صفوں کو چھوڑنے کا احساس بھی نہیں ۔تنقید و تعریف کے بیچ کی سرحدیں عنقا ہیں۔تنقید پر ذاتیات کی اور تعریفوں پر تصنع کی آمیزش نظر آتی ہے۔”
کتاب کے مطالعے سے یہ بات چھپی نہیں رہتی کہ زاہد مختار نہ صرف ادبی سرگرمیوں سے گہری واقفیت رکھتے ہیں بلکہ آس پاس کے ماحول اور معاشرے میں پنپ رہی برائیوں پر بھی ان کی نگاہ ہے۔جہاں کتاب میں ادب کے متعلق انہوں نے اپنے خیالات قلمبند کئے وہیں معاشرے میں پھیل رہی برائیوں کو بھی اجاگر کیا ہے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دستک سی در دل پر نہ صرف قارئین کے دلوں پر دستک دے رہی ہے بلکہ انہیں بیدار اور آگاہ کرنے کے لئے ان کے ذہنوں پر بھی دستک سی دے رہی ہے۔