تحریر:علی اسرار
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
شاعر کو تلمیذ رحمانی بھی کہا گیا ہے اور پیغمبر کا بھی درجہ دیا گیا ہے لیکن میرتقی میر تنہا شاعر ہیں جن کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ ولی دکنی، سودا، انیس ، نظیراکبرآبادی، غالب اور اقبال کے ہوتے ہوئے میر اردو شاعری میں عظمت کے تنہا مسند نشین نہیں ہیں اور نہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں ۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اردو کے تمام شعراء میں سرفہرست میر ہی کا نام رہےگا۔ حالانکہ آج عام مقبولیت کے اعتبار سے غالب اور اقبال، میر سے کہیں آگے ہیں اور ان کی کتابیں کلیات میر کے مقابلہ میں بہت زیادہ فروخت ہوتی ہیں ، ان کے اشعار زیادہ زبان زد ہیں ، ان کے اثرات جدید شاعری پر زیادہ نمایاں ہیں پھر بھی غالب اور اقبال کی شاعرانہ عظمت کے منکر موجود ہیں ۔ مگر میر کی استادی سے انکار کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ہر عہد میں بڑے سے بڑے شاعر نے اپنا سر میر کی بارگاہ میں جھکا دیا ہے۔
میرتقی میر
————
ان کا مقام شاعری ہی میں نہیں بلکہ زبان کے ارتقا کی تاریخ میں بھی بہت اہم ہے۔ کھڑی بولی جس پر جدید ہندی اور اردو زبان کی بنیاد ہے، اتنے نکھر ے ہوئے روپ میں میر کے ہاں نظر آتی ہے کہ اس کے بعد کا ہر روپ میر کی دین معلوم ہوتی ہے۔ اسلوب اور انداز کے اعتبار سے بھی میر کی حیثیت ایک ایسے شاعرانہ سرچشمے کی سی ہے جس سے تمام ندیاں پھوٹتی ہیں ۔ وہاں غالب کے رنگ کے بھی ابتدائی نقوش ملتے ہیں (اور اس سے جدید شاعری کا رنگ پیدا ہوا ہے) اور مومن اور داغ کے رنگ کے ساتھ ساتھ خارجیت کا وہ انداز بھی ملتا ہے جسے لکھنؤ اسکول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لطف یہ ہے کہ جس کو آج اقبال کی غزل کا نیا اسلوب سمجھا جاتا ہے اور جس کی روانی میں فکر کی عظمت کی وجہ سے ایک بھاری پن آگیا ہے اور گمبھیر کیفیت پیدا ہو گئی ہے، اس کے نشانات بھی میر کے یہاں موجود ہیں اور بعض مقامات پر علامتوں ہی کی نہیں بلکہ خیالات کی حیرت انگیز یکسانیت ہے، حالانکہ فکری اور جذباتی اعتبار سے میر اور اقبال کے درمیان دوصدیوں کا فاصلہ حائل ہے۔اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پورے دو سو برس بعدجب ۱۹۴۷ء میں دہلی ایک بار پھر خون کی ہولی میں نہائی اور پنجاب اور دہلی کی سرزمین پر ہندو مسلم سکھ عیسائی فسادات نے نادرشاہی قتل عام اور احمدشاہی لوٹ کھسوٹ کی یاد تازہ کر دی تو اردو کے جدید تر نوجوان شاعروں نے غالب، اقبال اور جوش کا دامن چھوڑکر میر کے دامن میں پناہ لی۔
ڈیڑھ سو برس سے اردو کے عظیم شعراء میر کو خراج عقیدت پیش کرتے آئے ہیں اور یہ بات ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے کہ ’’آپ بے بہرہ ہے ہے جو معتقد میر نہیں ۔‘‘ پھر بھی میرکا مطالعہ اسکولوں اور کالجوں کے نصاب کی کتابوں تک محدود رہا، اور میر شاعروں اور نقادوں کے شاعر بنے رہے لیکن ۱۹۴۷ء کے زخمی اور لہولہان ہندوستان اور پاکستان نے دوبارہ کلیات میر کو کلیجے سے لگایا اور اس کے اوراق میں اپنے زخموں کا مرہم ڈھونڈنا چاہا۔ صدیوں کی فرسودگی کے بعد بھی تازہ رہنے والا یہ کام یقینا ًعظیم قدروں کا حامل ہے۔ وقت کے ہاتھ اسے چھو نہیں سکتے اور تاریخ کی گرد اسے دھندلا نہیں سکتی۔
اردو شاعری کی جدید تحریک کے بانی اور مشہور تذکرہ نگار محمد حسین آزاد (۱۸۳۳ء تا ۱۹۱۰ء) نے اپنی دلچسپ کتاب ’’آب حیات‘‘ میں میر کی تعریف اس طرح کی ہے کہ، ’’قدردانی نے ان کے کلام کو جوہر اور موتیوں کی نگاہوں سے دیکھا اور نام کو پھولوں کی مہک بناکر اڑا دیا۔ ہندوستان میں یہ بات انہیں کو نصیب ہوئی ہے کہ مسافرغزلوں کو تحفے کے طور پر شہر سے شہر میں لے جاتے تھے۔‘‘
پھولوں کی یہ مہک آج بھی آوارہ ہے۔ اب اسے میر کی بدنصیبی سمجھا جائے یا اردو والوں کی بدمذاقی کہ کلیات میر کا کوئی صحیح اور خوبصورت ایڈیشن آج تک شائع نہیں ہوا ہے اور بیشتر انتخابات ناقص ہیں ۔ اب یہ اور بات ہے کہ میر کے چند اشعار زبان زد رہے ہیں اور زندگی کی مشکل گھڑیوں میں تسکین کا باعث بنے ہیں ۔ یہ اشعار صاحبان ذوق کے درمیان سوغات کی طرح تقسیم ہوتے رہے ہیں۔ اکثر بچوں نے اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے سے پہلے یہ کلام جستہ جستہ بڑے بوڑھوں کی زبانی سنا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ بھی ہوا ہے کہ بعض اشعار کے الفاظ بدل گئے ہیں اور بعض دوسرے اور کمتر شعراء کے اشعار میر کے نام سے منسوب ہو گئے ہیں اور حد یہ ہے کہ بڑے بڑے صاحب نظر نقاد اس فریب میں آگئے ہیں۔
اس طرح میر کو سمجھنے کا ایک آسان طریقہ بھی رائج ہو گیا۔ وہ بہتر نشتروں کے شاعر مشہور ہو گئے جن کا کلام صرف آہ ہے۔ کیونکہ کسی نے کبھی یہ کہہ دیا تھا کہ سودا کی شاعری واہ ہے اور میر کی شاعری آہ… کیجے کیا میر صاحب، بندگی، بےچارگی۔ چنانچہ تنقید بھی اسی ڈگر پر چل کھڑی ہوئی اور لوگوں کی توجہ ایسے اشعار کی طرف سے ہٹ گئی جن میں آہوں کا گزر نہیں تھا اور سپردگی وفتادگی معصومیت اور سادگی کے بجائے میر کی بے دماغی بول رہی تھی۔میر کی شاعری جتنی سادہ اور دلنشیں ہے اتنی ہی ٹیڑھی، بانکی، ترچھی، تیکھی بھی ہے۔ اس میں جتنی نرمی اور گداز ہے اتنی ہی تلخی اور صلابت بھی ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعربہت مشہور ہے:
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
لیکن مزاج کی ایک دوسری ہی کیفیت اس شعر میں ملتی ہے:
اپنا شیوہ کجی نہیں یوں تو
یارجی، ٹیڑھے بانکے ہم بھی ہیں
اگر ایک طرف میر صاحب یہ کہتے ہیں :
دور بیٹھا غبار میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
تودوسری طرف اس بے ادبی کی بھی ہمت رکھتے ہیں :
ہاتھ دامن میں ترے مارتے جھنجھلاکے نہ ہم
اپنے جامے میں اگر آج گریباں ہوتا
میر کے اعلیٰ درجے کے اشعار صرف یہی نہیں ہیں :
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوانے کام کیا
دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی!
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سپہر!
اس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا
تلخ اور شیریں ، نرم اور گرم کے اس امتزاج میں میر کی شخصیت کا سارا جادو ہے اور یہ شخصیت اپنے عہد کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر ایک ہو گئی ہے اور اس کی وجہ سے اس شاعری میں دل اور دلّی ہم معنی الفاظ بن گئے ہیں۔
کبھی کبھی یہ خیال پیدا ہوتا ہے (اور یہ خیال ہی ہے) کہ میر نے حافظ اور غالب کی طرح اپنے عہد کے شکنجوں کو توڑنے میں کامیابی حاصل نہیں کی اور وقت اور تاریخ کے بنائے ہوئے بھیانک قید خانے کی ساری آئینی سلاخیں میر کے جسم و جان میں پیوست ہو گئیں ۔ میرکے ہندوستان کی طرح حافظ کا ایران بھی خانہ جنگیوں کا شکار تھا اور اس نیم مردہ جسم کو تیمور کی فوجوں نے اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندڈالا اور غالب کی دلی ۱۸۵۷ء کے غدر کی نذر ہو گئی۔ یہ دونوں فتنے کسی طرح نادرشاہی اور احمدشاہی فتنوں سے کم نہیں تھے۔ پھر بھی ایک کے یہاں نشاط سرشاری ہے اور دوسرے کے یہاں سرکشی اور انانیت۔ اس کے برعکس میر کے یہاں وہ نشاط و سرشاری، وہ شگفتگی اور بالیدگی مفقود ہے۔
ان کی شاعری غم کا ایک اتھاہ سمندر ہے جس میں آہوں کی کچھ موجیں ہیں اوراحتجاج کے کچھ طوفان۔ ہنس کر طنز کرناان کے لئے مشکل ہے۔ جھنجھلاکے گالی دینا آسان۔ (سودا کے بعد سب سے زیادہ گالیاں میر کے کلام میں ملیں گی۔ اسی لئے کسی نے کہا تھا کہ میر کا بلند کلام بے انتہا بلند اور پست کلام بے انتہا پست ہے)۔ میر کے یہاں عشق ظہور عالم کا باعث ہونے کے باوجود جان لیوا ہے۔ شوق کی افراط ذرے کوصحرا اور قطرے کو دریا بنانے کے بجائے رونے اور مرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ آوارگی آزادہ روی نہیں ہے بلکہ پریشاں حالی اور پریشاں روزگاری ہے۔ اس میں تڑپ نہیں ہے، افسردگی اور بےچارگی ہے۔ اسی لئے میر نے آوارگی کو نسیم وصبا سے نہیں بگولوں سے تشبیہ دی ہے۔
میر معشوق سے کھیل نہیں سکتے۔ وہ یاتو شکوہ کرتے ہیں یا پرستش اور ان کی طبیعت واسوخت کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ وصال اور ہم آغوشی کی منزل ذرا کم ہی آتی ہے۔ انتظار کا درد بڑی حد تک لذت سے نا آشنا ہے۔ وہ کرب ہی کرب ہے۔ رقص اور نغمے کے الفاظ تو درکنار، اس تصور کی پرچھائیں بھی میر کی غزلوں پر نہیں پڑی، کبھی زمزمہ پردازی کا ذکر ضرور کرتے ہیں مگر اس اہتمام کے ساتھ کہ یہ اسیری کا مژدہ ہے۔
لیکن یہ غم غم ِذات نہیں ، غم کائنات ہے۔ یہ اپنے دل کی اندرونی فضا میں محدود ایک فرد کی شکست نہیں ہے بلکہ ایک پوری دنیا، ایک پورے عہد کی شکست ہے جس کواس فرد نے اپنی ذات میں سمیٹ لیا ہے۔