تحریر:ڈاکٹرگلزار احمد وانی
کبھی کبھار زندگی کے سفر میں انسان کو ان معمولی چیزوں کی فکر کرنا ضروری بن جاتا ہے جن کی طرف اکثر ایام میں دھیان نہیں جاتا ہے۔ انسانی زندگی میں جن اجزا کا عمل دخل ہے ان میں ان معمولی چیزوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے جنہیں اپنے اپنے وقت مقررہ پر نہ صرف غیر معمولی اہمیت حاصل ہوتی ہے بلکہ وہ یہ حقیقت اور بھی درشاتی ہیں کہ سوئی جیسی معمولی چیز کی بھی وقت عین پر اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کہ بڑی سے بڑی چیز کی ہو تی ہے۔
چھتری ہمیں بظاہر ان ہی معمولی اشیاء کی فہرست میں سے ایک معمولی چیزنظر آتی ہے صرف مجھ کو ہی نہیں بلکہ میرے جیسے جتنے بھی سطحی سوچ رکھنے والے انسان ہیں ان کے لیے بھی یہ ایک ایسی شے ہے جو بہ زبان حال اپنی اہمیت نہ صرف واضح کرتی ہے بلکہ اور زیادہ اپنی موجودگی اور فیضیابی کی طرف اکساتی ہے۔بلکہ اس کے مختلف کاموں اور کارناموں کو دیکھ کر انسانی عقل ادراک کے آئینے میں کھو جاتی ہے۔وہ یہ کہ انسان جیسی اشرف المخلوقات تخلیق کو کس طرح سے یہ بے جان شے اپنے سائے میں اور اپنی معمولی ساخت ہونے کے باوجود بھی دھوپ اور موسلا دھار بارش سے نہ صرف بچاتی ہے بلکہ اس کا وقار اور اس کے پوشاک کی زیب و زینت کو بغیر کوئی گزند پہنچائے اور اس کے تشخص کو ملحوظ نظر رکھ کر کسی بھی ناقابل برداشت موسمی سازش کو ناکام بناتی ہے۔
مذکورہ شے کی اہمیت کبھی کبھار اس کی غیر موجودگی میں اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے جب موسم کا مزاج یکسر بدل جاتا ہے اور بیچ رستے میں تیز بارش ہو جاتی ہے جو انسان کے پوشاک کو آب آب کرتی ہے ۔اور اگلی بار ہلکے بادل بھی چھا جانے پر اپنے ساتھ چھتری کو نہ بھول جانے کا تہیہ کر لیا جاتا ہے۔ بہرحال میں یہاں چھتری کی وکالت کرکے اس کی اہمیت کو اجاگر نہیں کرنے نہیں بیٹھا ہوں بلکہ داد دیتا ہوں اس کے ایجاد کرنے والے کو جس نے اس معمولی شے کو غیر معمولی بنایا ہے۔
آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ جب موسم کا مزاج بدلتا ہے تو سب سے پہلے ہلکی ہوا چلتی ہے اور اس کے بعد اس میں اور زیادہ قوت و رفتار آجاتی ہے اور سروں کے اوپر سائباں جیسی چھتری کو ہاتھ سے چھٹک کر ہواؤں کے سنگ پتنگ کی طرح اڑنے لگتی ہے۔ پھر انسان بھیگنا پسند کرے یا کہ فکر کرے چھتری کی۔
چھتری کے کئی اقسام ہیں چھوٹی ،بڑی اور ہلکی ۔ قدیم سوچ کے حامل کردار اکثر بڑی بڑی کمان والی چھتریوں کو ترجیح دیتے ہیں جب کہ اوباش قسم کے لوگ اسے اپنے ساتھ اٹھانے کی بھ زحمت گوارا نہیں کرتے ہیں جب کہ مزاج کے ٹھنڈے لوگ یا کالج کے طلبہ و طالبات چھوٹی چھتریوں کو لینا پسند کرتے ہیں کیونکہ اگر دوران سفر دھوپ کھل جائے تو بستے یا پرس میں اسے عیب سمجھ کر چھپایا جا رہا ہے۔
اکثر آپ نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ بچے چھتری کو اپنے ہاتھ میں سنبھالنے کی بہت ضد کرتے ہیں۔اور اپنے آپ کو موسم کی سو طغیانیوں سے بچنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں ۔پرانے زمانے میں اکثر کالے رنگ کی چھتری ہی ہر سو دکھائی دیتی تھی اب زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کے رنگوں میں بھی رنگ آگئے ہیں ۔جیسے رنگین چھتریاں سفید چھتریاں اور لوگو والی چھتریاں حتی کہ اب اسکول والے اسکول کے نام کی چھتریاں بچوں میں بانٹ کر اسے اور بھی وقعت بخشتے ہیں اور کتابوں اور وردیوں کے ساتھ ساتھ چھتری بھی لازم و ملزوم ہو کے رہ گئی ہے۔
ایک طرہ یہ بھی ہے کہ اب مختلف کاروباریوں نے بھی اسی شے کا سہارا لے کر ایک بام سو کام کے مترادف اپنی اپنی دکانیں کھول رکھی ہیں جیسے بھرے بازاروں میں ریڈے بانوں کے بیچوں بیچ بڑی چھتری پھیلا کے ہوئی ہوتی ہے جس کے نیچے وہ سبزیاں ،میوے سم کارڈ موبائل فون کے پارٹس وغیرہبیچنے کے کام میں محو رہتے ہیں ۔اب چھتری کے بھی متنوع کام لئے جا رہے ہیں ۔یعنی اب یہ صرف بھیگنے اور دھوپ کی شدت ہی سے نہیں بچا پاتی ہے بلکہ افلاس ، غربت و بیکاری سے بھی بچانے میں پیش پیش ہے۔چھتری کی چھترول اس سے بھی نکالی جاتی ہے کہ یہ ضعیفوں اور کمزوروں کو ٹیکنے کے کام کے ساتھ ساتھ راستے کے کتوں کو مارنے مروانے کے کام میں کام آتی ہے۔اس طرح یہ عصاء کے نعم البدل کے بطور بھی قاعدے اور فائدے کی شے لازوال ہے۔
ایک پہلو یہ بھی ہے انسان چھتری کے نیچے ایک نیوکلیس کی مانند ہوتا ہے اور یہ اس کے وسط میں ہوتا ہے اور اپنے آپ کو اس جہاں کا جیسے کوئی مرکزی کردار کے جیسا ہوتا ہے اسی طرح جس طرح بیچ آسماں کے نیچے دھرتی پر اس کی حیثیت ہوتی ہے کہ تو یونہی بے مقصد کے خالق کائنات نے نہیں بنایا ہے اس کی تخلیقیت کے پیچھے کوئی مقصد ضرور کار فرما ہے۔چھتری کے بیچ کمانوں کے اوپر والا سرہ کلغی نما جیسےرنگین ہوتا ہے جس سے بیچاری چھتری کا مقصد بالائے طاق رکھ کر اسے کسی کے سینے پر تان لیا جاتا ہے اور اسے یا تو مارنے والے کا ماننا پڑتا یا پھر مار اس کا مقدر بنتا ہے۔