تحریر:رمضان مغل
مزاح کے لفظی معنی ہنسی مذاق، جب کہ طنز کے معنی طعنہ یا چھیڑ کے ہیں۔ ایسی تحاریر جو آپ کو ہنسنے پر مجبور کر دیں اور اس تحریر میں تنقید کو مزاح کا جامہ پہنا دیا جائے لیکن اس کے باوجود بھی قاری ہنسنے پر مجبور ہو جائے طنز و مزاح کہلاتی ہیں۔ طنز و مزاح ایک مقبول صنف لطیفہ ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ زیادہ تر طنز و مزاح کو اردو ادب میں ایک جیسے معنوں میں لیا جاتا ہے اور ان الفاظ کا استعمال بھی ایک ساتھ کیا جاتا ہے، حالانکہ طنز اور مزاح میں بہت فرق ہے۔ دونوں اصناف کی اپنی اپنی علیحدہ حدود ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ اکثر ایک دوسرے کے متوازی بھی چل رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو ان کی سرحدیں ایک دوسرے سے ایسے ملی ہوتی ہیں کہ ان کو الگ کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ طنز سے مراد طعنہ، ٹھٹھہ، تمسخر یا رمز کے ساتھ بات کرنا ہے، جب کہ مزاح سے خوش طبعی، مذاق یا ظرافت مراد لیا جاتا ہے۔
عموماً طنز اور مزاح کے الفاظ کو ایک ساتھ میں ملا کر بطور ایک مرکب کے استعمال کیا جاتا ہے، مگر یہ دو مختلف المعانی الفاظ ہیں۔
سید ضمیر جعفری کے یہ اشعار اردو ادب میں طنزومزاح کی ایک بہترین مثال ہیں :
”آٹھ دس کی آنکھ پھوٹی آٹھ دس کا سر کھلا
لو خطیب شہر کی تقریر کا جوہر نکلا
ان کا دروازہ تھا مجھ سے بھی سوا مشتاق دید
میں نے باہر کھولنا چاہا تو وہ اندر کھلا ”
ان اشعار میں پہلا مصرعہ طنز اور دوسرا مصرعہ مزاح کی عمدہ مثال ہیں۔
طنزو مزاح میں لکھی گئی تحریروں میں تعمیری سطح پہ زندگی کے ان معاملات عکاسی بہترین انداز میں کی جا سکتی ہے جن کو درست کرنا ضروری ہوتا ہے۔
مزاح نگار زندگی کے بہت سارے پہلوؤں کو بالکل ہلکے موڈ میں ہنستت ہوئے اپنے قارئین تک پہنچا دیتا ہے۔ مزاح نگار اور مزاح میں انسان دوستی کا شائبہ پایا جاتا ہے کیوں کہ مزاح میں وہ اپنے قارئین کی دل آزاری کیے بغیر ہنسی کے قہقہے بلند کرتے ہوئے زندگی کے بہت سارے بگڑے ہوئے پہلوؤں کی نشاندہی کر جاتے ہیں اور اپنا اخلاقی اور معاشرتی فریضہ بہترین انداز میں نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
طنز میں تنقید کا عنصر پایا جاتا ہے۔ اب منحصر کرتا ہے کہ تنقید تعمیری ہے یا بس تنقید برائے تنقید ہے۔
ادب میں تنقید کی اہمیت اس کی مقصدیت کی وجہ سے ہے اس لیے اس کی تلخی کو بھی برداشت کر لیا جاتا ہے کہ اس سے کسی کی اصلاح ہو سکے۔ صرف اگر مزاح کا عنصر ہوتو اس میں مقصد ناپید ہوجاتا ہے صرف بے سروپا ہنسی مذاق کہلاتا ہے اگر مزاح کے ساتھ طنز کا پہلو بھی شامل ہوتو ایک تعمیری اور با مقصد سمت کی طرف متعین ہوجاتا ہے۔
مزاح کے دو لازمی اجزاء ہیں کوئی بھی مزاح نگار اپنی ذہانت اور قابلیت کا استعمال کرتے ہوئے ان پہلوؤں کو معلوم کر کے صحیح وقت پر ان کا استعمال کر سکتا ہے۔ یہ انتہائی مشکل کام ہوتا ہے لیکن ایک اچھا مزاح نگار اس کو عمدگی سے سر انجام دیتا ہے۔
رشید احمد صدیقی صاحب کہتے ہیں کہ:
”طنزو ظرافت کا شمار دنیا کے مہلک ترین اسلحہ جات میں ہوتا ہے، اس کے استعمال کا منصب ہر وقت، ہر سپاہی یا پیادہ کو نہ ہونا چاہیے بلکہ سپہ سالار کی خاص اجازت پر اور اس کی براہ راست نگرانی میں اس کو بروئے کار لانا چاہیے“ ۔
کہا جاتا ہے کہ طنزو مزاح سے صحیح معنوں میں محظوظ ہونے کے لیے صرف مزاح نگار یا طنز نگار کا باذوق اور اس صفت کا حامل ہونا ضروری نہیں جسے ”حیوان ظریف“ کہتے ہیں بلکہ قارئین کا بھی اس صفت سے مالا مال ہونا ضروری ہے ورنہ اس کی مقصدیت بے معنی ہے۔ کیوں کہ مزاح صرف کسی کی ٹانگ کھینچنا فقرے بازی یا عیب جوئی کرنا نہیں ہے بلکہ ماحول کی ہم آہنگی، تضاد میں امتیاز، اور ناہمواریوں کو اس طرح سے لوگوں تک پیش کرنا ہے کہ سننے اور پڑھنے والا اس بات کا قائل ہو جائے۔
ڈاکٹر سلیم اختر صاحب کہتے ہیں کہ:
” ہنسی انسانی جبلتوں میں سے ہے اس جبلت کا اظہار تخلیقی سطح پر ہو تو مزاح جنم لیتا ہے۔ دوسروں کو بھی مزاح کی مسرت میں شریک کرنا مزاح نگار کا اولین فریضہ ہوتا ہے“ ۔
لفظوں کے الٹ پھیر سے جو مزاح پیدا ہوتا ہے اسے لفظوں کی بازی گری بھی کہتے ہیں۔
اور ایسی بازی گری اردو شاعری کے ابتدائی دور بے شمار ملتی ہیں۔ مرزا غالب کی تصانیف میں بھی ان کے اثرات ملتے ہیں۔
جس کی ایک مثال یہ بھی ہے جب مرزا غالب بہادر شاہ ظفر سے عید ملنے گئے تو انھوں نے پوچھا ”مرزا کتنے روزے رکھے؟“ مرزا صاحب نے جواب دیا: ”پیرو مرشد ایک نہیں رکھا“ ۔
زندگی کے قیمتی اور یادگار لمحات کو خوشگوار بنانے کے لیے طنز و ظرافت کو حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ انسان جنسی اور مزاح کے رنگ اپنی زندگی میں شامل کر کے وقتی طور پر اپنے مصائب سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے۔ اس دنیا میں غموں سے نجات ممکن نہیں لیکن طنز و مزاح کے ذریعے ان مسائل کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔
کسی بھی زبان کا ادب، زندگی اور زندگی کے تمام موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ ادب اپنے عہد کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات کا بہترین عکاس ہوتا ہے۔ دنیا میں صرف رونا دھونا اور بری چیزیں نہیں ہیں بلکہ اس میں زندگی کو ہنس کر انجوائے کر کے جینے کے بھی بہت سے قیمتی لمحات میسر آتے ہیں اسی لیے زندگی کا حاصل ہی اس وقت کو سمجھا جاتا ہے کہ جب انسان تمام پریشانیوں کو بھلا کر ہنسی خوشی کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔
ادب میں طنز و مزاح تخلیق کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ انسان اپنی زندگی کی ادھوری خواہشات کے صدمے سے باہر نکل سکے۔ ہنسی اور مزاح کے ذریعے زندگی میں ایک نئی امنگ اور جینے کے لئے امید پیدا کرسکے اور تعمیری طنز و مزاح سے انسان بالکل ہلکے موڈ میں معاشرتی تلخ پہلوؤں کی تعمیر کی طرف توجہ دے کر بہتری کے لئے کوشش کر سکتا ہے۔ اگر انسان ہر وقت خود پر سنجیدگی طاری رکھے گا اور ہنسنا مسکرانا چھوڑ دے گا تو اس کا بچنا محال ہو جائے گا۔ اس لیے طنز و مزاح کے ذریعے زندگی کی رونق بحال کرنے کا فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں بہت سے ادیب اور شاعر حضرات خوش اسلوبی سے اپنا یہ کام کر کے اردو ادب کی اس صنف کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
لیکن یہ اکیسویں صدی ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہیں ہر چیز گلوبل ہونے کی وجہ سے انسانی انگلیوں کی پوروں پہ سمٹ گئی ہے اور اسی بدلتے وقت و حالات کے ساتھ طنزومزاح میں بھی جدت آئی ہے۔ جیسے مطالعہ کتابوں سے نکل کر آن لائن پی ڈی ایف فائل میں منتقل ہو گیا ہے اسی طرح طنزو مزاح نگاری نے بھی ایک جدید شکل اختیار کرلی ہے جو کہ سوشل میڈیا کے دور میں میمز کے نام سے آج کل جانی پہچانی جا رہی ہے۔ لیکن اردو ادب میں جو طنزومزاح کا مقام ہے اس کا مقابلہ کیا ہم آج کل کے میمز سے کر سکتے ہیں؟ یہ سوچنے کا پہلو ہے۔ اور ہمیں اس طرف توجہ بھی دینی چاہیے۔ تاکہ ہم اپنی زبان اور اس کی اصناف کی اصل شکل کو بچا سکیں۔ اور اردو ادب کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں۔