تحریر:ڈاکٹر خالد سہیل
ترجمہ: ہما دلاور
ورجینیا وولف بیک وقت خوش نصیب بھی تھیں اور بد نصیب بھی۔ ایک طرف انہوں نے تخلیقی اظہار کی بلندیوں کو چھوا اور ایسے ناول لکھے جو ان کی وفات کے پچاس سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی عالی قدر مقام رکھتے ہیں، دوسری طرف انہیں بار بار ڈپریشن کے دورے جھیلنا پڑے اور آخرکار انہوں نے اپنے کوٹ کی جیبیں پتھروں سے بھریں اور پانی کی جانب ڈوبنے کے لیے چل دیں، یوں انہوں نے اپنی جان لے لی۔ ان کی پوری زندگی میں تخلیقی صلاحیت اور دیوانگی میں چولی دامن کا ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ ان کے زیادہ تر افسردگی کے دورے اس وقت وقوع پذیر ہوئے جب ان کے ناول اشاعت کے لیے جا چکے تھے اور اس دوران وہ تنقیدی جائزے کا انتظار کر رہی تھیں۔
جب ہم ورجینیا وولف کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری کئی ایک انتہائی دلچسپ رفاقتوں سے مڈبھیڑ ہوتی ہے۔ ان کا خاندان ایک ہی وقت میں نعمتوں سے نوازا بھی گیا تھا اور شامت کا مارا بھی تھا۔ ان کے رشتہ داروں میں فنکار بھی تھے اور ذہنی بیمار بھی۔
ان میں سے کچھ کو تو علاج کی غرض سے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ ان کا گھرانا ان محققین کے لئے کافی ثبوت مہیا کرتا ہے جو نہ صرف تخلیقی صلاحیت اور دیوانگی کو موروثی سمجھتے ہیں بلکہ ایسا بھی سوچتے ہیں کہ یہ دونوں ایک ہی گھرانے میں پیڑی در پیڑی چلتے ہیں۔ ان گھرانوں میں پیدا ہونے والے بچوں میں غیر روایتی فکر اور طرز حیات کی جانب رغبت ورثے میں ملتی ہے۔ وہ جو ذہنی طور پر مضبوط ہوتے ہیں اور پریشان کن کیفیات کا سامنا کر پاتے ہیں فنکار بن جاتے ہیں، وہ جو کمزور اور غیر محفوظ ہوتے ہیں ان کا نروس بریک ڈاؤن ہو جاتا ہے۔
اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی زندگیوں میں ان دونوں انتہاؤں کا تجربہ کرتے ہیں اور ورجینیا وولف ان ہی میں سے ایک ہیں۔
کے جیمیسن لکھتی ہیں ”ورجینیا کے دادا، ماں، بہن بھائی، اور بھانجی سب رہ رہ کے ہونے والے ڈپریشن میں مبتلا رہے، ان کے والد اور ایک اور بھائی سائیکلو تھیائمک تھے، اور ان کے کزن جیمز جومینیا اور ڈپریشن کی وجہ سے ہسپتال میں داخل رہے تھے، کی وفات شدید مینیا کی وجہ سے ہوئی۔ ’
الما بونڈ رقم طراز ہیں، ”ورجینیا کے پر دادا، دادا، چچا اور کزن سب ممتاز لکھاری تھے۔ ان کی والدہ جولیا جیکسن کی تحریریں چھپ چکی تھیں اور وہ ایک فرانسیسی رئیس کی پوتی تھیں جو فرانسیسی ملکہ ماری اینٹونیٹا کے قریبی معتمد تھے۔ ورجینیا کی بہن ونیسا معروف مصور بنیں جنہوں نے تنقید نگار کلائیو بیل سے شادی کی، جبکہ ان کے بھائی ایڈرین ماہر نفسیات ’لکھاری اور مدیر تھے۔
ورجینیا وولف کی والدہ جو خود ڈپریشن کے عارضے میں مبتلا رہیں، ورجینیا کو وہ پرورش اور دیکھ بھال مہیا نہ کر سکیں جو ان کی جذباتی نمو اور بلوغت کے لیے درکار تھی۔ ماضی کو یاد کرتے ہوئے ایک دفعہ انہوں نے اپنی والدہ کے بارے میں لکھا،
” میں اب دیکھ سکتی ہوں کہ ان کی زندگی اس قدر پھیلی اور بکھری ہوئی تھی کہ مجھ پر توجہ دینے کے لیے نہ تو ان کے پاس وقت تھا نہ طاقت۔ مجھے یاد نہیں کہ میں ان کے ساتھ چند منٹ سے زیادہ کبھی اکیلی رہی ہوں۔ وہ مجھے گلے نہ لگا سکیں کیونکہ ان کے جذباتی بازو نہیں تھے ’
الما بونڈ کو لگتا ہے کے ورجینیا کی والدہ ”نرگسیت مائل خاتون دکھائی دیتی ہیں جنہیں مستقل توثیق کی ضرورت تھی، اور یوں وہ ایک پروان چڑھتی بچی کی ضروریات پر توجہ نہ دے پائیں۔ ورجینیا ایک جذباتی محرومی کا شکار بچی تھیں جس نے ان کی خود توقیری اور خود اعتمادی کو سبوتاژ کر دیا،“ ایک ننھی بچی کے طور پر ورجینیا میں جذباتی عدم توازن کے خوائص دکھائی دیتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ ان کے جذبات اچانک سے بھڑک اٹھتے تھے جو غصے سے لے کر اداسی تک اور بے خودی تک پر محیط ہوتے تھے ”۔
ورجینیا کے ماں باپ دونوں پہلے سے شادی شدہ تھے اور ورجینیا کے سوتیلے بہن بھائی بھی تھے۔ ورجینیا اور ان کی بہن ونیسا دونوں ہی اپنے سوتیلے بھائیوں کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں اور اس تجربے نے ورجینیا کی جنسی نشو و نما کو سبوتاژ کر کے رکھ دیا۔
ان مشکلات کے باوجود ورجینیا کی اپنی والدہ سے گہری وابستگی تھی اور جب ان کی وفات ہوئی تو ورجینیا کو تیرہ برس کی عمر میں اپنے پہلے نروس بریک ڈاؤن کا تجربہ ہوا۔ افسردگی (ڈپریشن ) کی دوسری واردات کا تجربہ بائیس برس کی عمر میں ہوا جب ان کے والد وفات پا گئے۔
نجی زندگی سے جڑے رومانوی معاملات میں ورجینیا نے کئی ایک مشکلات کا سامنا کیا۔ لیونارڈ سے شادی سے قبل وہ کچھ نسوانی ہم جنس پسند تجربات سے گزر چکی تھیں۔ دماغی علالت کا ماضی رکھنے کی وجہ سے، ورجینیا اور لیونارڈ نے اولاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چند برسوں میں وہ محبوبوں سے زیادہ دوست بن گئے۔ ان کی ازدواجی زندگی بنا جنسی عمل کے تھی۔ لیونارڈ بہت زیادہ خیال رکھنے والے شوہر تھے اور جب بھی ورجینیا پر ڈپریشن کا دورہ پڑتا وہ مہینوں تک ان کی تیمارداری کرتے۔
انیس سو بائیس میں ورجینیا میں مشہور لکھاری ویٹا سیک ول ویسٹ کی جانب کشش پیدا ہوئی جبکہ وہ ابھی لیونارڈ کے ساتھ بیاہ کے بندھن میں بندھی ہوئی تھی۔ وہ ( ورجینیا اور ویٹا) دونوں اچھی دوست اور محبوب بن گئیں۔ ”ان کا یہ رشتہ ان دونوں ہی کی زندگی کا سب سے معنی خیز اور دیرپا رشتہ بن گیا۔ ورجینیا اسے ’روحانی دوستی‘ کہا کرتی تھی۔ انہوں نے کئی برس تک ایک دوسرے کو متاثر کیا اور اپنے تخلیقی کام کا بہترین حصہ تخلیق کیا۔
ویٹا کو ورجینیا کی شخصیت اور لیونارڈ میں جس فن کی کمی تھی کے بارے میں کچھ آگہی تھی۔ وہ (ویٹا اور ورجینیا) ایک دوجے کی تکمیل کرتی تھیں۔ ویٹا کو محسوس ہوا کہ ان کی سہیلی کے فن کو یہ درکار ہے کہ وہ ہم خیال افراد کی سنگت میں رہیں، جبکہ لیونارڈ یہ سمجھ نہ پائے تھے۔ وہ سمجھ گئی تھیں کہ ورجینیا کے افسانوں کی بنیاد مشاہدات ہوتے ہیں، تخیل نہیں۔ چند برسوں میں ویٹا کی ورجینیا کی جانب جنسی رغبت ختم ہوتی گئی اور وہ کچھ عرصے تک دوست رہیں مگر جب ویٹا نے گوین سینٹ اوبن ’جنہیں ورجینیا نا پسند کرتی تھیں، سے رومانوی تعلقات استوار کر لیے تو ویٹا اور ورجینیا کے ناتے ٹوٹ گئے۔ ورجینیا اپنی ڈائری میں لکھتی ہیں،
”ویٹا سے میری دوستی اختتام کو پہنچی۔ بنا کسی جھگڑے کے، بغیر کسی دھماکے کے بلکہ ایسے جیسے پھل پکنے کے بعد گر جایا کرتے ہیں۔“
ماہر نفسیات البرٹ روتھنبرگ کا ماننا ہے کہ تضاد تخلیقی صلاحیت میں بڑھوتری کا باعث بنتا ہے اور یہ کہ ہم جنس پسند لکھاریوں اور فن کاروں میں ایک مخلوط نعمت ہے۔ یہ ان کی زندگی زیادہ مشکل لیکن زیادہ تخلیقی بنا دیتی ہے۔ ”فنکارانہ انداز سے تخلیق کرنے کے محرکات کی اولین ضرورت تضاد ہے، اور اس کی ذمہ دار تضاد پر مبنی بہت سی کیفیات میں سے ایک ہم جنس پسندی ہے۔“
ایک نوجوان لکھاری کے طور پر ورجینیا اپنی صلاحیتوں پر شک کیا کرتی تھیں۔ وہ اندیشوں اور عدم تحفظات سے لبریز تھیں۔ انہیں خدشہ رہتا تھا کہ وہ ایک لکھاری کے طور پر ناکام ہو جائیں گی۔ انہوں نے اپنی ڈائری میں تحریر کیا،
” مجھے یہ خوف تھا کہ مجھے ایک حقیر لکھاری سمجھ کر رد کر دیا جائے گا“ ۔
اور وہ خود سے سوال کرتی تھیں،
” وہ وقت کب آئے گا جب میں اپنی چھپی ہوئی تحریر شرم سے کپکپائے بنا اور کہیں چھپ جانے کی خواہش کیے بغیر پڑھ پاؤں گی؟“
وہ اپنے آپ پر سخت تنقید کیا کرتی تھیں۔ انہیں پریشانی رہتی تھی کہ دوسرے ان کی تحریر کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ انہوں نے لکھا
” جب میں کوئی تبصرہ لکھتی ہوں تو ہر جملہ ایسے لکھتی ہوں جیسے اسے تین اعلیٰ ججوں کے حضور مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔“
چالیس سال کی عمر تک ورجینیا کافی پر اعتماد لکھاری بن چکی تھیں۔ انہوں نے اپنی آواز کا راز پا لیا تھا۔ اس کے بعد وہ دوسرے افراد کی رائے کے بارے میں کم پریشان ہوتی تھیں۔ دوسروں سے اپنی تعریف کروانے کی بجائے وہ لکھنے کے عمل سے کہیں زیادہ لطف اٹھاتی تھیں۔ انہوں نے اپنی ڈائری میں قلمبند کیا،
” میرے ذہن میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ (چالیس سال کی عمر میں ) میں نے دریافت کر لیا تھا کہ اپنی آواز میں کچھ کہنا کیسے شروع کیا جائے ؛ اور یہ مجھے اتنا راغب کرتا ہے کہ میں محسوس کرتی ہوں کہ میں بنا تعریف کے آگے بڑھ سکتی ہوں۔“
”میں وہ لکھتی ہوں جو مجھے پسند ہے :اور وہ کہتے ہیں جو انہیں پسند ہے۔ میں نے دیکھنا شروع کر دیا ہے کہ ایک لکھاری کے طور پر میری واحد دلچسپی ایک انوکھی انفرادیت میں ہے، نہ کہ طاقت یا جذبے یا کسی اور حیرت انگیز چیز میں، لیکن پھر میں خود سے کہتی ہوں کہ یہ انوکھی انفرادیت نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں ادب عالیہ کی عزت کرتی ہوں؟
”سچ تو یہ ہے کہ لکھنا عمیق لذت ہے اور پڑھا جانا سطحی۔“
چالیس برس کی عمر کے بعد وہ زندگی کے اس دور میں پہنچ گئی تھیں جہاں وہ لکھ سکتی تھیں، ”میں لکھ سکتی ہوں، لکھ سکتی ہوں، میں اب لکھ سکتی ہوں ؛ دنیا میں سب سے زیادہ پر مسرت احساس۔“ وہ بتدریج ایک بہت پراعتماد لکھاری کے طور پر ابھریں اور وہ بہت سی خواتین کی حوصلہ افزائی کا منبع تھیں۔
ورجینیا وولف کو خواتین کی آزادی ’خودمختاری اور جدوجہد میں گہری دلچسپی تھی۔ انہوں نے خواتین کے مسائل پر کئی مضامین لکھے اور سیمیناروں میں پڑھے۔ ان کی کتاب،‘ اپنا ایک ذاتی کمرہ ’ A ROOM OF HER OWN اور خواتین کے افسانوں اور روزگار پر ان کے مقالے ادب برائے حقوق نسواں میں سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا ماننا تھا، ”اگر کوئی خاتون افسانہ نگاری کرنا چاہتی ہیں تو ان کے پاس اپنے مالی وسائل اور اپنا ایک ذاتی کمرہ ہونا چاہیے۔“ وہ اس امر سے آگاہ تھیں کہ خواتین جس سماج میں رہتی ہیں اس نے تمام تر سماجی، قانونی اور سیاسی حدود کے ساتھ خواتین کا مالیاتی طور پر خود مختار ہونا ناممکن بنا دیا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ فکر کی آزادی اور فنکارانہ آزادی کا مالی خود مختاری سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ انہوں نے ان مشکل اور پریشان کن حالات کے بارے میں لکھا جو خواتین پر اثر انداز ہوتے ہیں، ”اول تو یہ کہ پیسے کمانا ان (خواتین) کے لئے ناممکن تھا، دوم یہ کہ اگر یہ ممکن ہو بھی جاتا تو قانون ان کی کمائی ہوئی رقم کے ملکیتی حقوق انہیں دینے سے انکاری تھا۔“
”۔ فکری آزادی کا انحصار مادی اشیاء پر ہے۔“
ورجینیا وولف محسوس کرتی تھیں کہ ہمیں حضرات کو ایسی تعلیم دینی چاہیے کہ وہ خواتین کی کامیابیوں اور کارناموں کی حوصلہ افزائی اور حمایت کریں اور انہیں عزیز جانیں کیونکہ، ”افسانے کا مستقبل کافی حد تک اس بات پر منحصر ہے کہ حضرات کو کس حد تک خواتین میں اظہار رائے کی آزادی کا سامنا کرنے کی تعلیم دی جا سکتی ہے۔“
ورجینیا وولف خواتین کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ وہ خود مختار سوچ کو پروان چڑھائیں اور زندگی اور ادب کے بارے میں ان کی اپنی رائے ہو کیونکہ وہ محسوس کرتی تھیں کہ تخلیقی اور تنقیدی تحریر میں،
”۔ آپ اس وقت تک کسی ناول پر تبصرہ تک نہیں کر سکتیں جب تک آپ کی اپنی رائے نہیں ہے، جب تک انسانی رشتوں، اخلاقیات اور جنسی عمل کو لے کے آپ اپنے سچ کا اظہار نہیں کر سکتیں۔“
ورجینیا وولف نے خواتین لکھاریوں کو انتباہ کی کہ اگر وہ ادب میں عظیم افسانے اور شاہکار تخلیق کرنا چاہتی ہیں تو انہیں مردوں سے غصے، حسد ’نفرت اور تلخی پر مبنی سیاسی تحریروں سے دور رہنا ہو گا کیونکہ،
’women‘ s writing has suffered in the past from the intrusion of feminist anger ”
ورجینیا وولف کا موقف تھا کہ ایک حقیقی فنکار اور بڑا لکھاری انسانیت کے اس مقام سے لکھتا ہے جہاں وہ جنسی اور صنفی تعصب سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ انہوں نے انسانی تاریخ کے عظیم لکھاریوں کے بارے میں لکھا،
” جب وہ لکھتے ہیں تو نہ وہ مرد ہوتے ہیں نہ عورت ہوتے ہیں۔ وہ انسانی روح کے اس بڑے حصے کو متاثر کرتے ہیں جو صنف سے عاری ہے ؛ وہ قارئین کے جذبات اکساتے نہیں ہیں ؛ وہ انسان کی عظمت بڑھاتے ہیں، سنوارتے ہیں، تعلیم دیتے ہیں۔ وہ صنفی امتیاز ’تعصب اور استحصال سے بالاتر ہو کر ایسا ادب تخلیق کرتے ہیں جن سے ہر طبقے کے مرد و زن دونوں محظوظ اور مسحور ہو سکتے ہیں۔ ‘
ورجینیا وولف نے اپنے زمانے اور ادب پر ایسا نقش چھوڑا کہ ’برٹش ویکلی‘ نے ایک بار انہیں ”حیات خواتین ناول نگاروں میں قابل ترین“ کا خطاب دیا۔
ٹی ایس ایلیٹ نے دعویٰ کیا کہ ”وہ لندن کی ادبی زندگی کا مرکز تھیں“ اور کئی ایک کا ماننا تھا کہ ”خواتین لکھاری ورجینیا وولف کی بہت زیادہ مقروض ہیں۔“
یہ بدقسمتی ہے کہ اگرچہ ورجینیا نے اپنے شوہر لیونارڈ کے اشتراک سے اپنے ہو گارتھ پریس سے انسانی نفسیات اور تحلیل نفسی پر کئی ایک کتابوں کی اشاعت کی لیکن خود کبھی (نفسیاتی) علاج نہ کروایا۔ ورجینیا نفسیاتی علاج کو ”ذہن کا بلادکار“ کہا کرتی تھیں۔
THERAPIST IS THE RAPIST OF THE MIND
دونوں کا ماننا تھا کہ دیوانگی نے ورجینیا کی تخلیقی صلاحیت کی اعانت کی ہے اور وقتاً فوقتاً نفسیاتی مریضہ ہونا ورجینیا کے لئے بہتر ہوتا بجائے اس کے کہ وہ نفسیاتی تجزیہ کرواتیں اور روایتی انسان رہتیں۔ ”لیونارڈ نے ان کے آخری ایام تک ان کی دیکھ بھال کی۔ ورجینیا نے آخر کار مارچ 1941 میں 59 سال کی عمر کو پہنچ کے خود کشی کا فیصلہ کر لیا۔
تو انہوں نے لیونارڈ کی محبت اور خیال کے اعتراف میں ان کے لئے ایک پیار بھرا مکتوب تحریر کیا۔ انہوں نے کہا،
”سب سے عزیز، مجھے اب پورا یقین ہے کہ میں دوبارہ ذہنی توازن کھو رہی ہوں۔ میں محسوس کرتی ہوں کہ ہم ان ہولناک ادوار میں سے ایک اور سے نہیں گزر سکتے۔ اور اس بار میری بحالی صحت نہیں ہوگی۔ مجھے آوازیں سنائی دینا شروع ہو گئی ہیں، اور میں توجہ مرکوز نہیں کر پاتی۔ چنانچہ میں وہ کر رہی ہو جو کرنا بظاہر سب سے مناسب ہے۔ تم نے مجھے ہر ممکن خوشی دی۔ تم نے ایک دوست اور شریک حیات بن کے وہ سب کچھ کیا جو کوئی بھی شریک سفر کر سکتا تھا۔ میرا نہیں خیال کہ دو لوگ اس سے زیادہ خوش ہو سکتے ہیں، جب تک اس ہولناک بیماری نے نہ آن گھیرا۔ اب میں اس ذہنی بیماری سے مزید نہیں لڑ سکتی۔ “
یہ دیکھنا جاذب توجہ ہے کہ ورجینیا وولف نے کیسے اپنے نفسیاتی عارضے کے تجربات کو اپنے افسانوں میں استعمال کیا۔ اس نے اپنی اذیتوں تک سے اپنے فن اور اپنی زندگی کی افزودگی کے لیے استفادہ حاصل کیا۔ انہوں نے لکھا، ”ایک تجربے کے طور پر، تضحیک کے لئے نہیں، میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ پاگل پن بہت شاندار تجربہ ہے ؛اس کے لاوے میں میں ایسے تصورات جذبات اور احساسات پاتی ہوں جن کے بارے میں میں افسانوں میں لکھتی ہوں۔
یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں نہیں بلکہ مکمل شکل میں وارد ہوتے ہیں۔ اور وہ مجھے اپنی تخلیقی شخصیت اور صلاحیت کے بارے میں بہت کچھ سکھاتے ہیں۔“ ورجینیا وولف اپنی زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ادب میں ایک قابل احترام نام اور لکھاریوں اور ماہر نفسیات کے لیے ایک معمہ رہی ہیں۔ ان کے ادب اور خاص طور پر نسوانی ادب پر بہت سے احسانات ہیں۔