تحریر:دانش علی انجم
انہوں نے 6 جنوری 1883 ء کو موجودہ لبنان میں نہایت غربت کے عالم میں آنکھ کھولی۔ ان کا نام خلیل جبران رکھا گیا۔ آج وہ دنیا بھر میں اپنی کتاب ”دی پرافٹ“ کی وجہ سے مشہور ہیں جو 1923 ء میں پہلی مرتبہ شائع ہونے کے بعد 108 زبانوں میں ترجمہ ہو کر کروڑوں کی تعداد میں بکی، اتنی کہ آج وہ شیکسپئیر اور لاؤزی کے بعد تیسرے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔ ان کی نظمیں جان ایف کینیڈی، اندرا گاندھی، ایلوس پریسلی، جان لینن اور ڈیوڈ باؤوی جیسے لوگ شوق سے پڑھتے تھے۔
وہ محبت، امن اور دوسروں کو سمجھنے پر یقین رکھتے تھے لیکن جب وہ امریکہ آئے تھے تو انگریزی پر عبور نہ ہونے کے سبب انہیں ”احمق“ کہا گیا تھا اور ان کی سانولی رنگت کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں ”غلیظ“ تک کہا گیا لیکن ان کے بعض اساتذہ نے ان کی تخلیق شدہ تصاویر اور دنیا کے بارے میں ان کے نکتہ نظر کی وجہ سے ان کے اندر چھپی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور انہوں نے بھی جلد ہی انگریزی پر مکمل عبور حاصل کر کے ان کا اظہار کیا۔
1895 ء میں ان کی والدہ نے اپنے خاندان کو بہتر زندگی فراہم کرنے کے لیے ایک مشکل فیصلہ کرتے ہوئے جبران، ان کی دو چھوٹی بہنوں اور سوتیلے بھائی کو لبنان سے امریکہ منتقل کر دیا جہاں یہ خاندان بوسٹن کے جنوبی علاقے میں رہائش، پذیر ہو گیا۔ یہ علاقہ اس وقت شامی/لبنانی امریکیوں کا دوسرا سب سے بڑا اکھڈ تھا۔
ان کا خاندان شدید مالی مشکلات کا شکار رہا اور وہ بچپن میں ہی ٹی بی کے ہاتھوں اپنے سوتیلے بھائی اور ایک چھوٹی بہن کو کھو بیٹھے۔ کچھ عرصے بعد ان کی والدہ کا بھی کینسر سے انتقال ہو گیا۔ ان کی دوسری بہن، ماریانا نے درزی کا کام کر کے اپنا اور جبران کا پیٹ پالا۔
اپنے خاندان میں ادبی رجحان رکھنے والے وہ واحد فرد تھے۔ ان کی بہنوں کو تو مالی مشکلات اور مشرق وسطیٰ کی روایات کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔
جبران اپنے خاندان کی عورتوں سے بہت متاثر تھے، خاص کر اپنی والدہ سے۔
اپنی ماں کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :
”انسانیت نے آج تک ماں سے خوبصورت لفظ ایجاد ہی نہیں کیا۔ دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا یہ میٹھا اور مہربان لفظ، امید اور محبت سے لبریز ہے۔ ماں ہمارا سب کچھ ہے، دکھ میں ہماری غم گسار، مصیبت میں ہماری امید اور بے بسی میں ہماری طاقت۔ ماں، محبت، رحم، ترحم اور معافی کا منبع ہے۔ دینا کی سب سے خوبصورت پکار، بلاشبہ“ مری ماں ”ہی ہے۔“
جبران نے بعد میں خواتین کی تعلیم اور خودمختاری کے لیے بہت کام کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی انسان کے لیے دوسروں کے حقوق کی حفاظت سے بڑھ کے مقدس کام اور ہو ہی نہیں سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ”عظیم ترین شخصیات کی روحیں زخموں سے اٹی ہوتی ہیں کیونکہ مشکلات سے گزر کر ہی کوئی شخص مضبوط بن سکتا ہے“
وہ اکثر سماجی نا انصافی اور معاشرے کے دوغلے معیارات پر کھل کر تنقید کیا کرتے تھے، ان کی اسی صاف گوئی کی وجہ سے انہیں اکثر قتل کی دھمکیاں تک ملتی تھیں، بیروت تو چھوڑ، امریکہ تک میں ان کی کتابیں بھی جلائی گئیں۔
10 اپریل 1931 ء کو محض 48 سال کی عمر میں جگر کی بیماری کے سبب ان کا انتقال ہو گیا۔