از:پروفیسر قدوس جاوید
یاسر کاظمی نے کہا ہے
یاسر کیا کہتا پھر تا ہے ، کچھ نہ سنو تو بہتر ہے
دیوانہ ہے دیوانے کے منھ نہ لگو تو بہتر ہے
کیا جانے کیا رت بدلے حالات کا کوئی ٹھیک نہیں
اب کے سفر میں تم بھی ہمارے ساتھ رہو تہ بہتر ہے
رت اور حالات بدلتے رہیں گے لیکن اردو اور گوجری ادب و صحافت کا دیوانہ غلام رسول بڈھانہ اب کسی بھی سفر میں ہمارے ساتھ نہیں رہ پائے گا۔ البتہ پیار بھرے لہجے میں ، اس کی مدبرانہ اتیں ذہن و دل سے کبھی محو نہیں ہوپائیں گی، اور جتلاتی رہیں گی کہ
باتیں ہماری یاد رہیں، پھر باتیں نہ ایسی سننے گا
غلام رسول آزاد (بڈھانہ) ایک غیر معمولی بصیرت مند انسان تھا، عرف عام میں مشور بڈھانہ صاحب کی بصیرت مندی کے نشانات ان کی ادبی اور صحافی تحریروں میں آج بھی کہیں نہ کہیں محفوظ ہیں۔ خواجہ ثناء اللہ بٹ، حامدی کاشمیری، عظیم منظور، محمد یوسف ٹینگ اور حمید اللہ بٹ جیسع کشمیر کے منتخب روزگار ادیب اور دانشور، غلام رسول بڈھانہ کی تخلکقی بصیرت مندی کے گواہ رہے ہیں۔ کشمیر میں سیاست کے ’’بھیشم پتامہہ‘‘ پروفیسر سیف الدین سوز کے شاگرد معنوی غلام رسول بڈھانہ نے شعبہ ارد و کشمیر یونیورسٹی میں طالب علی کے دنوں میں ہی ، ادب صحافت اور نظری سیاست میں اپنی استادی کا لوہا منوالیا تھا۔ بڈھانہ کی ذات میں بصیرت مندی کا جو شعلہ تھا، وہ محترم سیف الدین سوز کی صحبت کی وجہ سے ہی بھڑکا تھا۔ روزنامہ آفتاب کے خواجہ ثناء اللہ بٹ نے اس شعلے کو ہوادی۔ مجھے یاد ہے نویں دہائی کے اخیر میں غلام رسول بڈھانہ کی جو بے خوف تحریریں، ستم ظریف کے فرضی نام سے روزنامہ آفتاب سرینگر میں شائع ہوتی تھیں ، وہ اجتہادی بھی ہوتی تھیں اور انکشافی بھی ۔ بعض تحریر یں ایسی بھی ہوتی تھیں کہ سیاست کے بڑ ے بڑے پیر ان پار سا پر دونوں ہاتھوں سے تھامنے دشار۔۔۔ کی کیفیت طاری ہوجات تھی۔ غلام رسول بڈھانہ مثالی کشمیری تھا جہ یس کی تحریروں اور سرگرمیوں کا مرکز اور محور کشمیر ہی ہوا کرتا تھا۔ اسکی شخصیت کی طرح اس کی سوچ ، فکر اور تحریر بے ریا ہوتی تھی۔ رسائش کی تمنا نہ ملے ک پرواز ۔ اپنے وطن کشمیر کی خوش آئند تعمیر ہی ان کا مشن تھا۔ وہ کشمیری تھا اور اس کی تحریر یں بھی کشمیر کے لئے ہی ہوتی تھیں۔ بڈھانہ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ تھا۔ اور اس حوالے سے اپنے وطن کے ماضی اور حال کا خوب علم تھا۔ اسے یہ بھی پتہ تھا کہ بیرون ریاست کے کرشن چندر، عزیز احمد اور کشمیری لال ذاکر جیسے افسانہ نگاروں نے عام طور پر کشمیر کو صرف ایک حسین و جمیل ، عیش کدہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ محمود ہاشمی اور پریم ناتھ پردیسی سے قطع نظر خود کشمیر کے اکثر افسانہ نگاروں نے بھی کشمیر کے اصل اور حقیقی مسائل پر کم ہی توجہ دی ہے۔ حالانکہ معاشی پس ماندگی، سماجی اور سیاسی استحصال کے نتیجے میں کشمیر کل بھی بے حال تھا اور آج بھی خوشحال نہیں ہے۔ پردیسی نے اپنے افسانوی مجموعہ بہتے چراغ (۱۹۵۰ء) میں درست لکھا تھا کہ
’’کشمیر کا ہر بدنصیب بانشدہ خود ایک افسانہ ہے ، جس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی۔۔ ک شمیر جہنم ہے۔ اور اس جہنم میں دہکتی ہوئی بھٹیوں اور غلیظ کپڑوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ‘‘
اور اردو اور پنجابی کے مستند افسانہ نگار خالد حسین نے اپنے افسانوی مجموعہ جنت گرہن ۲۰۲۰ ء میں بڑے خلوص کے ساتھ بتایا ہے کہ کس طرح فساد اور جہاد کے جنون کے سبب اس جنت کو گرہن لگ گیا۔ بڈھانہ محدود ثقافی اور مذہبی قومیت اپنے ماحول معاشرہ کی تہذیب و ثقافت اور مذہبی عقائد ؍ آستھا کو وہ کہیں زیادہ وسیع انسانی تناظر میں دیکھتا بھی تھا اور لکھتا بھ تھا۔ بڈھانہ نے اردو اور گوجری میں مضامین کے علاوہ افسانے لکھے ۔ یہ افسانے، افسانے نہیں ، صدیوں سے جبرو استحصال کی چکیوں میں پلتے کشیر کے پسماندہ قبضوں کے درد و غم کے آئینے میں جسے بڈھانہ نے اس ریاست کے ارباب اقتدار کو دکھایا ہے۔ بڈھانہ کا مطالعہ وسیع تھا اور مشاہدہ گہرا اور تہہ دار۔ بڈھانہ کی باتوں اور تحریروں کی تہوں اور طرفوں کو کھولنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہوتی تھی اس کے لئے سننے یا پڑھنے والے کو بڈھانہ کی ہی طرح پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرنا لازمی ہوتا تھااور جو ایسا نہیں کر پاتے تھے۔ بڈھانہ کی باتیں ان کے سروں کے ۔۔۔۔۔۔۔ جاتی تھیں اور ایسے ہی لوگ بڈھانہ کے بارے میں کہتے پھرتے تھے کہ
دیوانہ ہے دیوانے کی کچھ نہ سنو
غلام رسول بڈھانہ قوم اور گوجری زبان دونوں کے لئے ہمیشہ فکر مند اور سرگرم رہتے تھے۔ بڈھانہ عصری ثقافتوں کے مطابق گوجری زبان اور قوم دونوں کی ترقی اور جدید کاری کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ بڈھانہ کی خواہش کے مطابق میں نے بھی گوجری زبان اور ثقافت کا مطالعہ اور مشاہدہ کیا اور یہ جانا کہ جس طرح مرا من نے باغ و بہار میں محمد حسین آزاد نے آب حیات، میں اور سر سید، سنتی کمار چٹر جی، محی الدین قادری زور مسعود حسن خاں اور شوکت سبزواری اور پروفیسر ظہور الدین وغیرہ نے جدید ہندوستانی زبانوں کے آغاز و ارتقا سے بحث کرتے ہوئے اردو کی پیدائش اور اررتقا کے بارے میں مختلف اور متضاد نظریات پیش کئے ہیں، اسی طرح گوجری کے آغاز و ارتقا کے متعلق بھی رام پرشاد کھٹانہ سے لے کر ڈاکٹر رفیق انجم تک نے اپنے اپنے خیالات ظاہر کئے ہیں۔ محمد حسین آزاد کے مطابق اردو برج بھاشا سے نکلی ہے، پروفسیر شیرانی، کے اس مدلل دعوی کہ کہ اردو زبان پنجابی سے نکلی ہے آسانی سے رو نہیں کیا جاسکتا ، لیکن گریرسن نے یہ کہہ کر کہ تمام جدید ہندوستانی زبانیں (جن میں اردو اور گوجری زبانیں بھی شامل ہیں) شورسینی اب بھرنش کے بچے ہیں۔ شورسینی اپ بھرنش کی جانشین مغربی ہندی ، ہندوستانی سے کئی بولیاں پیدا ہوئیں، جن میں ساخت بناوٹ کے لحاظ سے ایک گروہ میں رج بھشا، قنوجی اور بندیلی تھی، دوسری طرف کھڑی بولی، اور ہریانی تھی۔ ان دونوں گروہوں کی بولیوں کے لہجے، ان کے اسما افعال اور صفات کے آخر میں ’’او‘‘ یا ’’ او‘‘ آتا ہے، لیکن اردو میں آخر میں ’’آ‘‘ کا استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً گوجری ، ہریانی کے اپنو، گھوڑو، چلیو، مارو اور چھوڑیو جیسے الفاظ اردو میں اپنا، گھوڑا، چلا، مارا، چھوڑا ہوجاتے ہیں۔ برج (گوجری، ہریانی) کی بنیاد پر بعض ماہرین لسانیات اردو کو گورجری کے بعد کی زبان ہے یعنی اردو برج گوجری سے نکلی ہے۔ لیکن ڈاکٹر مسعود حسن خاں اور شوکت سبزواری وغیرہ گوجری برج بھاا کو اردو کا سر چشمہ ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
اب یہاں ہندوستانی زبانوں ، خاص طور پر اردو اور گوجری کے رشتوں کے حوالے سے جونئی تحقیقات سامنے آرہی ہیں ان یہ نکتہ بھی سامنے آرہا ہے ہ گوجری ، اردو سے زیادہ قدیم زبان ہے اور گوجری زبان پر اردو زبان کے اثرات مرتب نہں ہوئے بلکہ اردو زبان کی ابتدا اور ارتقا میں گوجری کا اہم رول رہا ہے۔ اور اس رائے کو غلط ثابت کرنا دشوار ہے۔ اگر اردو کے قدیم ادبی نمونوں (شعری و نثری) کی لفظیات کو پیش نظر رکھا جائے (جنہیں جمل جالبی جیسے مستند ادبی مورخین نے بھی قدیم ادو دکنی کے کھاتے میں ڈالا ہے) ان کا لسانی جائزہ لیا جائے تو گورجی اور اردو کی قدیم لفظیاتی (لسانی ساخت) اور صوتیاتی مشابہتوں کی بنیاد پر اگر یہ کہاجائے کہ اردو کی رگوں میں گوجری کا لہو دوڑتا ہے تو اس نظرئے کو بھی رد کرنا دشوار ہوگا۔ یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جاسکتی ہے اور کہی جانی چاہئے کہ گوجر قوم ، اس کی زبان، ثقافت معاشرت اور معیشت کے ساتھ ابھی تک انصاف نیں کیا جاسکا ہے حالانکہ مرکزی حکومت، اور کچلرل اکیڈمی کی جانب سے گوجر قوم کے حق میں بہت کچھ کئے جانے کے دعوے اور وعدے کئے جاتے رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے بعض دعوئوں میں سچائی ہو۔ پھر بھی کچھ اور چاہئے وسعت۔
l میں نے یہ نتائج غلام رسول آزاد کے ساتھ گوجر قوم ، گوجر ی زبان اور اردو کے قدیم شعری اور نثری نمونوں پر تحقیقی و تنقیدی غورو فکر کے بعد ہی اخذ کیا ہے۔ بڈھانہ مرحوم کے تعاون سے میں نے اپنے تین اسکالروں، اسلم چودھری، رویز چودھری، اور شوکت چودھری۔ سے گوجری اور اردو کی شاعری اور نثر کے پی یچ۔ ڈی کے مقالے لکھوائے جو بہت پسند کئے گئے۔ لیکن بعض لوگوں نے اردو پر گوجری کے اثرات کے کلعے پر اعتراض بھی کیا لیکن اس موضوع پر تحقیقی و تنقید کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ اس کی جانب میں نے بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کے گوجری پہاڑی ریسرچ سینٹر کے سر براہ اور گوجری اردو کے نامور ادیب ڈاکٹر رفیق انجم ک ی بھی توجہ مبذول کروائی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ غلام رسول بڈھانہ کی تمام گوجری اردو تحریریں حاصل کرکے کلیات کے طور شائع کی جائیں۔
شعبہ اردو میں بحیثت لیکچرر تقری کے بعد ابتدائی برسوں میں ہی لائق و فائق شاگردوں کی جو ایک کہکشاں مجھے میسر آئی اس میں غلام رسول بڈھانہ، نذیر بٹ، یوسف تانترے، جاوید گگرو، نذیر شیخ اور فاروق گگرو کے علاوہ شفق سپوری، نذیر آزاد جوہر قدوسی، سے لے کر سلیم سالک جیسے آج کے معتبر نام شامل تھے۔ ان کا میرے ساتھ معاملہ کیا جانے دل کو کھینچے ہے کیوں شعر میر کے جیسا تھا۔ یہ سب کے سب مجھے کل بھی عزیز تھے اور آج بھی ہیں۔ بڈھانہ اور ان سب کی محبتوں کے بغیر میرا وجود آدھا ادھورا ہی رہے گا۔
بڈھانہ کی شخصیت اور گوجری اور اردو میں اس کی خدمات کے بارے میں لکھنے کی بہت ساری باتیں ہیں (تفصیل پھر سہی) مختصر یہ کہ آج جب کہ سماج، سیاست اور علم و ادب میں بھی منافقت عام ہے۔ مرحوم غلام رسول بڈھانہ ایک بے ریا، سچا، خود دار اور اپنی اور دوسروں کی عزت نفس کا احترام کرنے والا شخص تھا، لیکن ہر لمحہ نئی آن نئی شان کے ساتھ بڈھانہ نے جو بے پناہ عزت اور محبت مجھے دی ، میں چاہنے کے باوجعد شاید اس کانصف بھی اسے لوٹا نہیں سکا۔ بڈھانہ عمر میں مجھ سے چھوٹا تھا لیکن فہم و فراست میں بہت بڑا تھا، پھر بھی وہ مجھ سے پہلے چلا گیا۔ شاید اس لئے کہ وہ صرف بڈھانہ نہیں دیوانہ بھی تھا۔ ایسا نہیں ہوتا تو وہ میرے ریٹائرمنٹ کے بعد ، حالات جیسے بھ یہوں۔ صرف ھ سے ملنے ار بار جموں کیوں آتا؟ بہر حال۔۔ ۔بڈھانہ کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ میرا دل بھی بار بار یہی کہتا ہے کہ
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
