تحریر :ایس معشوق احمد
بعض قلمکار اپنی تحریر سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنی انہیں اپنے بچے سے انسیت ہوتی ہے۔اپنی تحریر سے لگاؤ رکھنا برا نہیں۔ اسی لگاؤ کا نتیجہ ہے کہ بعض اپنی تحریروں کو نکھارتے اور سنوارتے رہتے ہیں۔اس عمل کے دوران اگر کوئی مشورہ دے یا کمیوں اور خامیوں کی طرف توجہ دلائے تو خندہ پیشانی سے اس مشورے کو قبول کرتے ہیں اور وہ کمیاں دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔کچھ ایسے بھی ہیں جو تنقیدی رائے سے چڑ جاتے ہیں اور تحریر کی کمیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرنے والے سے ویسا ہی سلوک کرتے ہیں جیسے اس ڈرائیور کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کی گاڑی کے نیچے کوئی بچہ حادثاتی طور آئے اور اس کی موت واقع ہو۔
ادب کے لئے صحت مند تنقید ضروری ہے اور تخلیق کار کے لئے جھوٹی تعریف وش۔ جو تخلیق کار جھوٹی تعریفوں سے بچنے کی کوشش کرے گا قریب القین ہے کہ اس کا لکھا اسے آب حیات پلائے۔جون بیری مین نے پتے کی بات کہی ہے کہ اگر مجھے کسی رائیٹر کو کچھ بتانا پڑے تو میں اسے دو چیزوں سے دور رہنے کا کہوں گا: ایک تعریف اور دوسرا الزام۔ تعریف اسے جھوٹے گھمنڈ میں مبتلا رکھے گی اور الزام اسے خود ترسی کی طرف لے جاۓ گا۔
گدھے کو دس لوگ مل کر گھوڑا کہنے لگ جائے تو وہ گھوڑا نہیں بن جاتا ۔کوئی نہ کوئی سچائی کا مظاہرہ کرکے علی الاعلان یہ ضرور کہے گا کہ یہ گدھا ہے گھوڑی نہیں۔اسی طرح کسی قطعے پر رباعی کا لیبل لگانے سے وہ رباعی نہیں بن جاتی اور نہ ٹیگ لگانے سے کالم انشائیہ بن جاتا ہے۔ہر صنف کا اپنا مزاج ، حدود اور قاعدے ہوتے ہیں جن کی پابندی لازمی ہے۔ صنفی امتیازات کو دھیان میں رکھ کر جب کوئی قلمکار تازی تخلیق کو وجود بخشے گا تو ہی وہ معیاری کہلائے گی نہ کہ لیبل لگانے سے کوئی تحریر خالص ہوتی ہے ۔ہر انسان میں کمی اور کوئی نہ کوئی خامی ہوتی ہے۔ اسی طرح تخلیق میں بھی خامیاں ہوسکتی ہیں ۔ان کو دور کرکے قلمکار کے قلم سے ادب عالیہ تخلیق پاسکتا ہے۔
حال ہی میں ایک بڑے تخلیق کار کی تحریر اخبار میں پڑھنے کو ملی۔تحریر پر انشائیے کا لیبل لگا تھا لیکن اس میں انشائیے کا تڑکا نہیں بلکہ کالم کا مصالحہ تھا۔ موضوع بھی چلا چلا کر کہہ رہا تھا کہ مجھے پر کالم لکھو میں کالم کا ہی مواد ہوں۔ مجال ہے جو ان صاحب نے وہ چیخ و پکار سنی ہو۔تحریر کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک عام طالب علم بھی اس نقطہ تک باآسانی پہنچ سکتا ہےکہ تحریر انشائیہ نہیں کالم ہے کہ اس میں انشائیے کے لوازمات کا خیال نہیں رکھا گیا ہے اور نہ موضوع ایسا ہے کہ جس پر انشائیہ لکھا جائے۔ حال ہی میں منعقد ہوئے امتحانات میں دھندلیوں کا انکشاف ہوا جو اس تحریر کا موضوع تھا۔اسلوب بھی کالم کا ہی برتا گیا تھا۔ تحریر کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے اس بڑے ادیب سے کہا کہ حضور یہ انشائیہ نہیں کالم ہے تو اس پر سیخ پا ہوگئے اور اپنے علم کا رعب جھاڑنے لگے۔اسی پر بس نہ کیا بلکہ باضابطہ وزیر آغا اور سیلم اختر کے حوالے دے کر مجھے خوفزدہ بھی کرنے لگے۔اگر میں ان کے پاس بیٹھا ہوتا تو اغلب ہے کہ دو چار گھونسوں سے بھی میری خاطر تواضع کی ہوتی۔چونکہ میں دور بیٹھا تھا اس لئے لفظی تلوار اٹھانے میں ہی عافیت سمجھی۔ انہوں نے اچھی تعداد میں لفظوں کے تیر و تفنگ چلائے اور یہ ثابت کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے کہ یہ انشائیہ ہے۔جو محنت انہوں نے کالم کو انشائیہ ثابت کرنے میں لگائی اتنی ہی محنت اس تحریر پر کی ہوتی تو انہوں نے شہکار انشائیہ رقم کیا ہوتا۔سوشل میڈیا نے قلمکار کا صبر وتحمل چھین لیا ہے کہ جب کسی قلمکار کی تحریر اس ذرائع سے مشتہر ہوتی ہے تو اس کے دوست احباب اس کی جھوٹی تعریفیں کرتے ہیں جس سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اسے تعریفوں کی عادت پڑجاتی ہے اور وہ صحت مند تنقید کو برداشت کرنے کی قوت سے محروم ہوجاتا ہے۔ پھر جو بھی فرد اس کی تحریر پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کی سعی کرتا ہے اسے وہ اپنا دشمن تصور کرنے لگتا ہے،اس کی باتوں سے چڑنے لگتا ہے۔ اس موقعے پر اگر وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں، غصہ کرنے کے بجائے اپنی تحریروں کو ناقدین کی آراء کے عین مطابق سجانے سنوارنے کی کوشش کریں تو قوی امید ہے کہ وہ بہتر ادب تخلیق کرسکیں گے اور قارئین کو بھی اچھی اچھی تخلیقات پڑھنے کو ملیں گی۔