ریاض توحیدی
عبدالرحمٰن مخلصؔ ایک ایسے شگفتہ مزاج ادیب تھے جن کی تحریرات میں زندگی کی رنگارنگ تصویریں جلوہ نما ہیں۔ مخلصؔ صاحب بحیثیت مدرس بھی اپنا ایک مقام رکھتے تھے اور ایک صاحب طرز ادیب کی حیثیت سے بھی اپنی ایک مخصوص پہچان بنانے میں کامیاب رہے۔ ان کی تصانیف اور تحریرات سے ظاہر ہے کہ مرحوم نہ صرف ایک صاحب طرز انشا پرواز بلکہ ایک صاحب بصیرت دانشور بھی تھے۔ ان کے بیشتر کالم ’’انشائیہ‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں، تاہم کہیں کہیں پر افسانوی رنگ بھی نمایاں ہے۔ ان کی تحریر میں اردو زبان کے قواعد ، محاورے، اصطلاحیں اور جملوں کی ساخت کا صحیح استعمال نظر آتا ہے۔
عبدالرحمٰن مخلصؔ کی نگارشات میں ادبیت کی ایسی چاشنی ہوتی ہے کہ اس کی تاثیر قاری کی طبیعت پر خوش گور کیفیت چھوڑ جاتی ہے۔ ان کا اسلوب تحریر بڑا ہی دل آویز ہے۔ وہ اپنے دلکش اسلوب کے توسط سے کسی بھی چھوٹے بڑے واقعہ کو بڑی فنی چابکدستی سے پیش کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں اور دوران تحریر نصیحت آمیز طنز اور پر لطف مزاح سے بھی کام لیتے ہیں، جس کا اندازہ درجہ ذیل اقتباس سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
’’بیٹھو جی بیٹھو ! تمہیں کیا تکلیف ہورہی ہے؟ بہت دیکھے ہیں تم جیسے نصیحت کرنے والے ! میں نے آج تک دس ’’انٹر وگیشن‘‘ برداشت کئے ہیں تم کس شمارو قطار میں ہو!‘‘ گویا ’’انٹروگیشن‘‘ نہ ہوا کوئی گولد میڈل ہوا جسے اس نے اپنے سینے پر سجایا تھا۔ نوجوانوں میں جوانی کا ابال اور طاقت کی فراوانی تسلیم، لیکن کیا وہ اس ابال اور طاقت کو شکست و ریخت کا موجب بنانے کے بجائے اس کی تصعید نہیں کرسکتے ؟۔‘‘ (دعوت فکر ص ۳۵)
ہر انسان سماجی مسائل کو ادبی پیکر میں پیش نہیں کر سکتا ہے۔ اس کے لئے تخلیقی شعور کے ساتھ ساتھ فنی لوازمات کی آگاہی بھی ضرور ہونی چاہے۔ بیدار مغز ادیب سماج کا نباض ہوتا ہے۔ وہ اپنی تحریر میں سماجی برائیوں کو اجاگر بھی کرتا ہے اور اچھائیوں کو اپنا نے کی تلقین بھی کرتا ہے۔ یہ خصوصیت مجموعی طور پر مخلصؔ صاحب کے ہر مضمون میں نظر آتی ہے۔ وہ اپنی تحریر میں شخصی اور معاشرتی خامیوں کی نشاندہی بھی کرتے ہیں اور ایک ذمہ دار انسان کی حیثیت سے انسانیت کی ارفع واعلیٰ قدروں کے تحفظ اور انہیں اپنانے پر بھی زور دیتے ہیں۔ اس طرح ان کی تحریر میں مقصدیت کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ مفید ادب کو زندگی کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
’’اگر ادب زندگی کے لئے مفید نہیں تو وہ کچھ بھی نہیں، چاہے اس میں سرخاب کے پر ہی کیوں نہ لگے ہوں۔ ‘‘ (زندگی کے رنگ ص ۲۵)
عبدالرحمٰن مخلصؔ کی نگارشات کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ ان میں جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا گیا ہے تو نفس مضمون کے تحت ہر خیال بر محل پیش ہوا ہے اور ہر خیال کے پیش نظر اردو اور فارسی کے مناسب اشعار اور حکایات کو بھی استعمال میں لایا گیا ہے۔ ان کے ہر کالم میں زندگی کے قابل نفریں اور مضحکہ خیز پہلو ایسے حکیمانہ انداز سے پیش ہوئے ہیں کہ دور ان قرات فارسی کے اندر اصلاح پسندی کا جذبہ ضرور پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کی نگارشات میں مقامی رنگ صاف نظر آتا ہے۔ ان میں جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا گیا ہے ماحول کے پیش نظر واقعاتی بیانیہ کے لئے اپنے سماج سے ہی کردار چنے گئے ہیں جیسے کسان، دکاندار، باغبان، ڈرائیور، ملا حجام، کمہار، لوہار، نجار، ٹھگ ، درزی ، قلعی گر، فروٹ مرچنٹ، پٹواری، ددھوبی، لائن مین، خوانچہ فروش پوسٹ مین وغیرہ اور ہر کردار کے مختصر خاکے کے ساتھ ساتھ اس کے طور طریقے کا نقشہ بھی کھینچا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ’’ڈرائیور‘‘ نامی کالم میں ڈرائیور کے حلیے اور تیور کو بڑے دلکش انداز سے یوں موضوع گفتگو بنایا گیا ہے:
’’بے جگڑ بے باک، بے خوف، منہ پھٹ، ملکجے و ضعدار کپڑے، مخمور آنکھیں، گھمبیر چہرہ، فربہ جسم، ہونٹوں میں سگریٹ ، زبان پر گالی، یہ ڈرائیور ہے جو جب گاڑی میں ایک جھٹکے کے ساتھ سوار ہوکر اسٹیرنگ و ہیل کے پیچھے دھم سے بیٹھتا ہے اور گیئر بدل کر کلچ چھوڑتا ہے تو ہواباز ہوا میں اور خلاباز خلا میں الامان والحفیظ کہہ کر سوچتا ہے کہ وہ ڈرائیور کے سامنے خاک بھی نہیں ۔ اپنی مرضی کا مالک ہے ۔چاہے تو چلے نہ چاہے تو نہ چلے، چاہے تو سواری کو سٹاپ سے ہزار میٹر ادھریا ادھرڈراپ کرے اور طبیعت ذرا جلال میں ہو تو ڈراپ ہی نہ کرے ‘‘ (زندگی کے رنگ ص ۵۴)
بہر حال عبدالرحمٰن مخلص ؔ کی تصانیف اردو ادب کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہے جو محبان اردو کے لئے نعمت غیر مترقبہ کے مثل ہے اور جو علم و ادب کے باشعور قارئین میں غور و فکر کا احساس جگاتے ہوئے کہتی ہے
من آنچہ شرط بلاغ است باتومی گویم
تو خواہ از سخنم پند گیر خواہ ملال
ترجمہ: میں شرط بلاغ کے تحت آپ سے کچھ عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اس سے نصیحت حاصل کریں گے یا ملال! (زندگی کے رنگ ص ۲۶)