تحریر:شہزاد نیئر
“دو ہزار بندے”
استاد بندے علی خاں آنکھیں بند کیے سر سمندر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ٹھمری کی تانیں سامعین پر سحر طاری کر رہی تھیں۔ واہ واہ، سبحان اللہ کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ سازندوں نے جیسے سازوں میں جادو بھر لیے تھے۔ وہ استاد کی طرف دیکھتے ہوئے انگلیوں کو سروں کی رفاقت میں جنبش دے رہے تھے۔
رات کے سناٹے میں سماں بندھا ہوا تھا کہ اچانک پچھلی قنات کھل کر سٹیج پر آ گری۔ اس پر پاؤں رکھتے ہوئے کئی آدمی نعرۂ تکبیر بلند کرتے سٹیج پر آ دھمکے۔ ان کے سروں پر ٹوپیاں اور ہاتھوں میں ڈنڈے تھے۔ سب سے آگے لمبی داڑھی والا لمبا تڑنگا شخص تھا۔ اس نے استاد بندے علی خاں کے سامنے والے مائک کو زور سے ڈنڈا مارا جس کی آواز لاؤڈ سپیکر پر پورے پنڈال میں گونج گئی۔ حاضرین میں کھلبلی مچ گئی۔ وہ سراسیمہ ہو کر تیز تیز قدموں سے باہر جانے لگے۔
ادھر سٹیج پر عجیب دھما چوکڑی مچی۔ طبلہ نواز نے پہلے تو طبلے کے پیچھے چھپنا چاہا پھر اس اوٹ کو ناکافی جان کر ہاتھوں اور گھٹنوں پر چلتے ہوئے نیچے لڑھک گیا۔ ایک حملہ آور نے ستار کو ڈنڈا مارا جو پھسل کر ستار نواز کے گھٹنے پر جا لگا۔ اس کی چیخ بلند ہوئی اور وہ وہیں لوٹ پوٹ ہو گیا۔ ہارمونیم والا پہلے ہی ہارمونیم چھوڑ، گری ہوئی قنات والے رستے سے فرار ہو چکا تھا۔ سرمئی ٹوپی اور ہلکی ڈاڑھی والے نوجوان نے ہارمونیم اٹھا کر سامعین کی طرف اچھال دیا۔ ایک لٹھ بردار نے سارنگی نواز کی گود سے سارنگی نوچ کر اس کے سر پر دے ماری۔
بندے علی خاں پہلے تو سکتے کے عالم میں بیٹھے رہے پھر پیرانہ سالی کے باوجود تیزی سے اٹھے اور سٹیج سے اتر کر اندھیرے میں غائب ہو گئے۔
سروں کی مالا بکھر چکی تو حملہ آور پنڈال میں گھس آئے۔ جتنی کرسیاں میزیں زمین پر پٹخ پٹخ کر توڑ سکے، توڑ دیں۔ گلدستوں سے کھینچ کر پھول زمین پر بکھیر دیے۔ پھر اکٹھے ہو کر چند نعرے لگائے اور اطمینان سے چلے گئے۔
کچھ دیر بعد محفل موسیقی کا منتظم تھانے میں رپورٹ لکھوا رہا تھا۔
” کتنے لوگوں نے حملہ کیا؟“ تھانے دار نے پوچھا
” دس پندرہ بندے ہوں گے جناب“
” صرف دس پندرہ! اور حاضرین کی تعداد؟“
” تقریباً دو ہزار بندے“ منتظم نے مختصر جواب دیا۔
*** ***
“تقویٰ”
آدھی رات کو سندھ کا پانی کسی خونی شیر کی طرح دھاڑتا بستی میں داخل ہو گیا۔ کچھ اور اٹھانے کا تو وقت نہیں تھا، سب نے بچے اٹھائے اور ٹیلے کی طرف بھاگ پڑے۔
دن چڑھا تو بھوک دکھائی دینے لگی۔ رنکل کماری کو چاروں طرف پانی کے سوا کچھ نظر نہ آیا تو وہ رونے لگی۔ دیکھا دیکھی سب بچے دردناک آواز میں رونے لگ پڑے۔ بڑوں نے پہلے تو بچوں کو بہلانے کی ناکام کوشش کی پھر سب مل کر آسمان پر بیٹھے بھگوان کو پکارنے لگے۔
دن ڈھلے، دور ایک کشتی دکھائی دی جو آہستہ آہستہ ٹیلے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ کشتی کی نوک پر کسی مذہبی تنظیم کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ قریب پہنچ کر ایک نوجوان نے رسا پھینکا جسے جمنا داس نے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور کھینچ کر کشتی کو نزدیک کرنے لگا۔ ایک دم دیگ میں پکے چاولوں کی خوشبو ٹیلے پر پھیل گئی۔
”بھگوان تمھارا بھلا کرے، بچوں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا“
یہ سنتے ہی نوجوان نے پاس کھڑی پوجا دیوی کے ماتھے کا تلک دیکھا اور مڑ کر کشتی کے پچھلے حصے میں چلا گیا۔ وہاں وہ کسی سے بات چیت کرتا رہا۔ ادھر ٹیلے پر موجود انسانوں کے چہروں پر پھیلی خوشی کی دھوپ انتظار کے سائے میں بدلنے لگی۔ وہ تصور ہی تصور میں لذیذ چاولوں کے نوالے نگلنے لگے۔
نوجوان لمحہ بھر کو کشتی کے اگلے حصے پر آیا اور جھٹکے سے رسا واپس کھینچ لیا۔ اس نے جمنا داس کو بتا دیا کہ لوگ انہیں جو امدادی رقم دیتے ہیں اس میں زکٰوۃ بھی شامل ہوتی ہے جو غیر مذہب لوگوں کو نہیں دی جا سکتی۔ اس نے مزید کہا کہ لوگوں کی دی ہوئی زکٰوۃ مقدس امانت ہے اور وہ کسی صورت بھی اس میں خیانت نہیں کر سکتے۔
اس سے پہلے کہ جمنا داس کچھ کہتا، کشتی ذرا پیچھے ہوئی اور رخ بدل کر دور ہونے لگی
*** ***
“اینٹ اور مسجد”
بازار میں شانِ رسالت کا جلوس نکلا ہوا تھا۔ سبز جھنڈے اُٹھائے رنگ برنگی پگڑیوں والے سیکڑوں لوگ ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر نعرے لگا رہے تھے۔ کئی ٹولیوں کے پاس میگا فون تھے اور ان میں خوش الحان بچے منقبت پڑھ رہے تھے۔ بیچ بیچ میں نعرے بلند ہونے لگتے اور جلوس آگے روانہ ہو جاتا۔
چلتے چلتے جلوس جب ایک بڑی جامع مسجد کے سامنے پہنچا تو اندر سے امام صاحب اور کئی افراد پھولوں کے ہار لے کر نکلے اور جلوس کے رہنماؤں کو پہنا دیے۔ ایک ہار امام صاحب نے اپنے گلے میں ڈالا اور ہراول دستے میں شامل ہو کر آگے آگے چلنے لگتے۔
پیچھے ایک ٹولی نے شربت فروش کی ریڑھی پر ہلہ بول دیا۔ جلوس میں شامل نوجوان خود ہی گلاس بھر بھر کر شربت پینے لگے۔ چھینا جھپٹی میں کئی گلاس ٹوٹے اور شربت زمین پر گرتا رہا۔
تھوڑی دور جا کر جلوس ایک دوسری مسجد کے سامنے رک گیا۔ نعرے اچانک فلک شگاف ہو گئے۔ جلوس کے شرکا میں نیا جوش بھر گیا۔ پہلی مسجد کے امام صاحب نے دوسری مسجد کے طرف ہاتھوں کے اشارے کر کر کے منکرینِ شانِ رسالت کے خلاف خوب نعرے لگوائے۔ اچانک اُس مسجد کا لاؤڈ سپیکر آن ہونے کی آواز آئی اور ایک کرخت آواز گونجی ”یہ جلوس والے آگے چلے جائیں، ہماری نماز کا وقت ہونے والا ہے“ ۔ اِس پر جلوس نے مزید جوش و خروش سے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ کچھ جذباتی نوجوان، جن کی پہلی پہلی داڑھیاں نکلی تھیں، مسجد کے دروازے پر پہنچ گئے اور بند دروازے کو دھکے دینے لگے۔ دروازہ مضبوط تھا، نہ کھُلا نہ ٹوٹا۔ نوجوانوں نے مسجد کا بورڈ اتار کر توڑ دیا اور چندے والی صندوقچی اُکھاڑ لی۔ ایک نوجوان صندوقچی سر سے بلند کر کے نعرے لگانے لگا۔ اسی دوران مسجد کے اندر سے چند اینٹیں آ کر جلوس پر گریں۔ جلوس کے شرکاء نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اور بہت سے پتھر مسجد کے اندر گرنے لگے۔ دکان داروں نے پتھراؤ اور لوٹ مار کے خوف سے دکانیں بند کر دیں۔
پھر پولیس کی گاڑیوں کے سائرن سنائی دینے لگے۔
جلوس آرام سے نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھ گیا اور پولیس نے ایک فاصلے سے جلوس کے آگے آگے چلنا شروع کر دیا۔
*** ***
“اولادِ مادینہ”
”کیا؟“
اس کی حیرت دیدنی تھی!
” وہی جو میں نے کہا“
اور وہ چپ کا چپ رہ گیا
ہفتوں ریڈیو پر اس کا اشتہار سنتا رہا تھا میں۔
” اولاد نرینہ۔ صرف بیٹا ہو گا۔“ وغیرہ وغیرہ۔
” حکیم جی میرے تین بیٹے ہیں۔ اب بیٹی چاہتا ہوں۔
کیا اس کی بھی کوئی دوا ہے آپ کے پاس؟ ”
*** ***
“چارج”
جانے والا، آنے والے کو سب کچھ تفصیل سے بتا رہا تھا۔
کس بستی میں جرائم پیشہ لوگ آباد ہیں۔ کس محلے میں کون منشیات کا کاروبار کرتا ہے۔ تھانے کے لیے ماہانہ رقم کس طرح اور کہاں کہاں سے آتی ہے۔ دھندا کرنے والی عورتیں کتنی ہیں اور کس کس گاؤں کی ہیں۔
آنے والا سر کی معمولی جنبش اور معمول کی سنجیدگی سے سنتا رہا۔
جانے والے نے مقدموں، حوالاتیوں، بستہ “الف” اور “ب” کے بدمعاشوں، علاقے کے چودھریوں اور بارسوخ لوگوں کی تفصیلات بتائیں۔ اسلحہ خانے اور مال خانے کا چارج ہو چکا تو دونوں تھانیدار چائے پینے لگے۔
آنے والے نے سرسری انداز میں پوچھا ”یہ تھانے کے دروازے کے سامنے سڑک کے پار بیٹھا بوڑھا سا شخص کون ہے؟“ ۔
جانے والے نے ہنستے ہوئے بتایا ”ساتھ والے گاؤں کا ہے۔ ہر روز صبح سویرے آ جاتا ہے۔ کپڑا تان کر سائبان سا بناتا ہے۔ بیٹھا تھانے کے دروازے کو گھورتا رہتا ہے۔ پھر اچانک اٹھ کر دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر لیتا ہے۔ کبھی آسمان پر مکے برسانے، ہوا میں تلواریں چلانے لگتا ہے۔ کبھی دردناک آواز میں روتے ہوئے مٹی اٹھا کر ہوا میں اڑاتا اور سر میں ڈالتا ہے۔ تھک جائے تو بیٹھ کر زمین پر لکیریں کھینچنے لگتا ہے۔
آنے والے نے حیران ہو کر پوچھا ”پاگل ہے؟“
” نہیں، کئی سال پہلے اس کا جوان اکلوتا بیٹا کسی جھگڑے میں ملک صاحب کے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا۔ ملک صاحب نے کہہ دیا کہ ایف آئی آر نہیں کٹنی چاہیے۔ اس وقت کے تھانے دار نے دھوکے سے معافی نامے پر انگوٹھے لگوا لیے۔ تب سے اس کا دن یہیں گزرتا ہے۔ بالکل بے ضرر ہے۔ ہمارے کسی کام میں رکاوٹ نہیں ڈالتا بلکہ سڑک بھی پار نہیں کرتا“ ۔
آنے والے کی آنکھوں میں سوچ کی پرچھائیں دیکھ کر جانے والا مسکرایا
” یار پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ یہی سمجھ لو کہ اسے بھی تمھارے چارج میں دے کر جا رہا ہوں“ ۔