از:ڈاکٹرامتیاز عبدالقادر،بارہمولہ
تعلیم کا عمل اپنی اہمیت وافادیت کے اعتبارسے نہایت ہی مؤثرمعاشرتی عمل ہے اوراسی وجہ سے ہردور کے مفکرین اسی عمل کو زیادہ جامع اور مفید نتائج کاحامل بنانے کے لئے افکار پیش کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ عمل درحقیقت انسان کی ذہنی واخلاقی تدریج کاعمل ہے اور اس کے پیدا کردہ نتائج ہی خودانسان کی ترقی کا پیمانہ قرارپاتے ہیں۔ عصرحاضر مختلف نظریاتی لہروں اور فکری سمتوں کی باہمی آویزش اور ٹکرکادورہے۔ تصادم اورکشمکش کی اس فضامیں کمزور نظریاتی بنیادوں پرکھڑی اقوام زبردست خطرے میں ہیں۔ طاقتور اقوام کی طرف سے تمدنی،علمی اورتہذیبی یلغار نے بھرپور حملے کارنگ اختیار کرلیاہے۔ ان پرآشوب حالات میں کوئی ایسی قوم ابھر ہی نہیں سکتی جودوسروں کے ذہنی افکار کی دریوزہ گری کرتی پھرے اور جس کے پاس ایک مضبوط فکری و علمی انقلاب بپاکرنے کے لئے الہامی ہدایت پرمبنی کوئی نظریاتی سرمایہ نہ ہو۔
”مسلمان اورعلم کامحدودتصور“کتابچہ ڈاکٹرغلام قادرلون(حدی پورہ،بارہمولہ)کاچشم کشامضمون ہے جس کی افادیت کے مدّنظرسہیل بشیر کارصاحب نے اسے کتابی شکل دی ہے۔ڈاکٹرلون صاحب تابناک ماضی کے حُدی خواں ہیں اورمسلمانوں کی موجودہ حالت پرنوحہ کناں بھی؛لکھتے ہیں:
”عہدِعروج میں مسلمانوں کا تصورِزندگی ارفع اورتصورعلم وسیع تھا۔ان کی بلندنگاہی؛وسیع القلبی؛رواداری؛صبروتحمل ؛بلندہمتی؛روشن خیالی؛علم دوستی اورانصاف پسندی کاشہرہ دنیامیں عام تھا۔ان ہی صفات حسنہ کی بدولت وہ صدیوں تک روئے زمین کے بہت بڑے حصے کے امین اوروارث بنے رہے۔دورِزوال کے مسلمان ان تمام صفات سے عاری ہیں۔اس لئے اپنی سرزمین پربھی پردیسی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ع
در دیار خود غریب افتاد است“ (ص۵)
موجودہ دور میں مسلمان وہ بد قسمت قوم ہے جس کے پاس علم کے جویا ابتدا سے بہتے رہے لیکن اب اس چشمہ صافی سے خود بے بہرہ ہیں۔ ہمارے اسلاف نے دوسرے اقوام کی علمی وفکری رہنمائی کی اورآج اُن کے اخلاف نے ”علم“ کو مذہبی اوردنیاوی خانوں میں بانٹ دیا۔قرآن وحدیث نے یہ تفریق نہیں کی۔یہ تفریق دور ظلمت میں مغرب کے مذہبی پیشواؤں نے کی اور المیہ یہ ہے کہ مسلمان مذہبی رہنماؤں کی اکثریت فرسودہ نظریے کی تقلید کرتے ہوئے سائنس،فلسفہ ،طبیعیات، فلکیات ،ریاضیات، علوم کو”دنیاوی علم“ کالیبل چسپاں کئے ہوئے ہیں،جس سے عصر حاضر کامسلم نوجوان اپنے دین و عقیدے کے بارے میں عجیب مخمصے کاشکار ہوچکاہے۔ حالانکہ قرآن وحدیث میں طب، طبیعیات ،فلکیات ،ریاضیات ،ادب ،معدنیات،حیوانیات اورنباتیات وغیرہ علوم کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں لیکن ہم نے ان علوم کی اہمیت کو گھٹاکر شجرممنوعہ کی سطح پرلاکھڑا کیا ، نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔کل تک غیرہمارے اسلاف کے علمی کارناموں سے مرعوب تھے اورآج وہی صورت عالم اسلام کی ہے۔ مصنف اس حوالے سے گویاہیں:
”عہدِعروج کے مسلمان علم کوخداکے نزدیک بلندیِٗ درجات کاوسیلہ سمجھتے تھے۔ان کے نزدیک علم پیغمبروں کاورثہ اورمسلمان کے لئے سب سے قیمتی سرمایہ تھا۔اس کے ساتھ ساتھ وہ علم کومحدودنہیں سمجھتے تھے اورنہ ان کے ہاں قدیم وجدیدکی تقسیم تھی۔ان کے اندرپاتال سے ثریّاتک ہرچیزکے بارے میں آگاہی پانے کاجزبہ تھا۔وہ دینی علوم کے حصول کے لئے جس طرح دوردرازکے سفرکرتے تھے؛اسی طرح دنیاوی علوم وفنون کے اکتساب کے لئے بھی دوردرازشہروں کارخ کرتے تھے۔ “(ص۶)
ہمارے اسلاف کئی میدانوں کے شہسوارتھے۔مدرسہ ومروجہ علوم میں وہ درجہ احسان پرفائزتھے،چنداہل علموں کاحوالہ دیتے ہوئے صاحبِ کتاب لکھتے ہیں:”امام غزالیؒ دینی عالم اورمفکرہونے کے ساتھ ساتھ ریاضی اورفلکیات کے ماہرتھے۔ابن رشدؒمفکر؛سائنس داں اوربلندپایہ فقیہ تھے۔ابن النفیسؒ بے مثال طبیب تھے؛جنہوں نے دوران خون دریافت کیا؛وہ فقہ شافعی کے بھی بڑے عالم تھے۔ابن الشاطرؒعظیم سائنس داں ہیں جن کی تحقیق سے کوپرنکسؔ نے استفادہ کیا۔وہ جامع مسجددمشق اموی کے ُموقِت تھے۔انہوں نے جامع مسجداموی کے منارے کے لئے دھوپ گھڑی بنائی تھی۔قطب الدین شیرازی ؒ ریاضی داں،فلکی ،طبیب اورصوفی تھے۔“(ص ۶)
ایک نقاد نے کس قدر سچ کہاہے کہ ”ہم کوصرف یہی رونانہیں ہے کہ ہمارے زندوں کویورپ کے زندوں نے مغلوب کرلیاہے، بلکہ یہ رونابھی ہے کہ ہمارے مردوں پربھی یورپ کے مردوں نے فتح پالی ہے“۔ ہر موقع اورہرمحل پرشجاعت، ہمت،غیرت،علم وفن ،غرض کسی کمال کاذکر آتاہے تواسلامی ناموروں کے بجائے یورپ کے ناموروں کانام لیا جاتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جدید تعلیم میں ابتدا سے اخیر تک اس بات کا موقع ہی نہیں ملتا کہ اسلاف کے کارناموں سے واقفیت حاصل کی جائے۔ اس لئے جب فضائل انسانی کاذکرآتاہے توخواہ مخواہ انہی لوگوں کازبان پر آتاہے، جن کے واقعات کی آوازیں کانوں میں گونج رہی ہیں اوریہ وہی یورپ کے نامورہیں۔حالانکہ یورپ میں نشاۃ الثانیہ کی بنیاد مسلمانوں نے ہی ڈالی۔ یونان، ایران،مصر،روماوہند کا سارا فلسفہ،ادب،منطق،طب ،ہندسہ ،تاریخ ،سب کچھ عربی میں ڈھال کراغیار کووہ سرمایہ مہیاکیاگیا کہ وہ آگے بڑھ گئے۔ ابن جوزیؒدو سو کتابوں کے مصنّف تھے، ابن جریر طبری ؒمسلسل ۰۴سال تک روزانہ لگ بھگ ۸۲صفحات کے حساب سے لکھتے رہے۔ محدث حمیرہؒ جب عراق کی گرمیوں میں لکھتے لکھتے تھک جاتے توٹب(Tub) میں بیٹھ کر لکھتے تھے۔ اسلام کامعجزہ کثرت تالیف کہاگیاہے۔ ابن خلدون ؒسے بڑھ کر فلسفہ تاریخ پرکس نے قلم اٹھایا؟ امام غزالیؒ ،ابونصرفارابیؒ،بوعلی سیناؒ،امام رازیؒ،الکندی ؒجیسے فلسفی کہاں دیکھے گئے ہیں؟ رومیؔ ، جامیؔ،فردوسیؔ،سعدیؔ ،حافظؔ،حالیؔ،شبلیؔ،میرؔ،غالبؔ ،اقبالؔ جیسے شعراء اب کہاں؟ امیرخسروؔ نے ۵لاکھ اشعارکہے۔ غرض تقریباً ایک ہزارسال تک مسلمانوں کی ندرت وجدت کی دھوم رہی۔اب تحقیق وتفتیش میں مسلمانوں نے موت کا روپ دھار لیاہے۔ یوں لگتاہے کہ وہ آندھی کی طرح اٹھے، طوفان کی طرح چھاگئے اوراب گردکی طرح بیٹھ گئے ہیں۔
اہل علم کافرض ہے کہ وہ قوم کے محسن بن کرحُسن وقبح کوواضح کریں؛زمانے کی رَومیں بہنے کے بجائے ،ناخدابن کرملت کوکنارہ تک رہنمائی کریں؛ عروج وزوال کے تقاضوں سے خودبھی آگاہ ہوں اورعوام کوبھی مطلع کریں لیکن زوال کے آسیب میں جب یہ ملت گرفتارہوئی توعلماء کارول کیاتھا،تاریخ کے اوراق اس پرنوحہ کناں ہیں:
”۹۸۷۱ء کا سال انقلاب فرانس کا سال تھا؛جس نے اہلِ مغرب کوخوابِ غفلت سے جھنجوڑکرجگایااورحریت،اخوت اورجمہوریت کے الفاظ سے فرانس کے درودیوارآشناہوئے۔اسی سال خلافت عثمانیہ کے تخت نشیں سلطان سلیم ثالث(۹۸۷۱۔۷۰۸۱ء)ہوئے جوبیدارمغزاورروشن خیال تھے۔ انہوں نے عثمانی فوجوں کی کمزوری دیکھ کرفوجی اصلاحات پرتوجہ دی۔’نظام جدید‘کے تحت سلطان نے فوج کی تربیت کے لئے یورپ سے ماہرین منگوائے۔ توپیں ڈھالنے کے کارخانے قائم کئے اورپرانے ہتھیاروں کی جگہ نئی رائفلیں منگوائیں۔مگرعلماء نے فتوٰی دیاکہ یہ کافروں کاہتھیارہے اور مسلمانوں کے لئے اس کااستعمال کرناحرام ہے۔سلطان نے فوج کے لئے نئی وردی مقررکی توعلماء نے فتوٰی دیاکہ یہ نصارٰی کے ساتھ مشابہت ہے اور تشبیہہ کی ممانعت آئی ہے۔“(ص۸)
یہ ہماری حِرماں نصیبی تھی جوایسے ”رہبر“نصیب میں تھے۔کاش انہوں نے سیرتِ پاکﷺکابالاستیعاب مطالعہ کیاہوتاتووہاں پاتے کہ رسالتمآب ﷺنے بعض اوقات یہودیوں سے ہتھیارمستعارلئے تھے۔اورہمارے ہاں ان علماء نے نئے ہتھیاروں کوکافروں کے ہتھیار بتاکر مسلمانوں کے لئے ان کااستعمال ناجائزٹھہرایااورشکست وزوال کودعوت دی۔
ڈاکٹرلون مزیدلکھتے ہیں:
”۸۹۷۱ء میں جب نپولین نے مصرپرحملہ کیاتوحاکمِ مصرمرادبکؔ نے جامع ازہرکے علماء کوجمع کیااوران سے مشورہ مانگاکہ ہمیں کیاکرناچاہیے؟ علمائے ازہرنے بالاتفاق رائے دی کہ جامع ازہرمیں صحیح بخاری کاختم شروع کردیناچاہئے۔اس رائے پرعمل کیاگیامگرابھی صحیح بخاری کاختم اختتام کو نہیں پہنچا تھاکہ اہرام کی لڑائی نے مصری حکومت کاخاتمہ کردیا۔“(ص۳۱)
قرون ِوسطیٰ تک عالم اسلام میں عظیم پیمانے پر علم کی جستجو شروع ہوگئی تھی۔ بغداد، قاہرہ،طلیطلہ وچین کے تمام علوم آٹھویں صدی عیسوی تک عربی میں منتقل ہوچکے تھے۔ مسلمانوں نے ان علوم کاصرف عربی میں ترجمہ ہی نہیں کیا بلکہ انہیں سمجھنے کے بعدقابل فہم بنایااورارتقاء علوم کی منازل طے کیں۔تاریخ انسانی میں مسلمانوں سے قبل کسی قوم کوبنی نوعِ انسانی کے علوم کے تمام جواہرکسی ایک خزانے میں منتقل کرنے کاافتخارحاصل نہ ہوسکاتھا۔مغرب کی سرحدوں پران علوم کے دومراکز قائم کیے گئے تھے۔ ایک قرطبہ،دوسرا سسلی۔ مسلمانوں کے قائم کردہ ان دومراکزسے علوم کے مشامِ جانفرامغرب میں بھی پہنچنے لگی۔ اس دور کامغرب حقیقی تہذیب سے ناآشنا،قومی نظریات سے نابلد،مختلف ریاستوں پرمشتمل تھا اورایک مشترک مذہبی قدرمیں منسلک تھیں۔رومن چرچ ان
سب پرحکمراں تھا۔ عقل وفہم کے تمام شعبے انہی مذہبی اجارہ داروں کی ملکیت تصور کی جاتی تھی۔ علاوہ ازیں بابِ علم پرانہی کاپہرہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغرب عالم اسلام پر رشک کرتاتھا کیونکہ عالم اسلام صنعت وحرفت،حرب وتجارت میں ہی ممتازنہ تھابلکہ فلسفہ، سائنس،طب وقانون غرض ہرمیدان میں لاثانی تھا۔اس کے برعکس علم کے محدودتصورنے دورِزوال میں مسلمانوں کوجس طرح نقصان پہنچایا؛اس کی تصویرکشی مصنف یوں کرتے ہیں:
”الگ الگ مسلکوں اورفرقوں میں منافرت کی خلیج دن بدن بڑھتی گئی۔اب حالت یہ ہے کہ مسلماں اورغیرمسلم سفروحضرمیں ایک دوسرے کے ساتھ شِیروشکرہوکررواداری سے رہ سکتے ہیں؛مگردومسلکوں کے ماننے والے ایک مسجدمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کرنہیں رہ سکتے۔“(ص۰۲)
قدیم نصاب تعلیم سے وابستہ اہل علموں پرتنقیدکرنے کے ساتھ ساتھ مصنف جدیداداروں کی تاریکیوں سے بھی پردہ کشائی کرتے ہیں۔ جدید اداروں کے فارغین کے متعلق رقمطراز ہیں:
”انھیں اپنی روشن خیالی؛حریت فکر؛بودوباش اورزمانہ شناسی پرفخرہے مگرحقیقت یہ ہے کہ ان کی روشن خیالی بھی اپنے اندرتہہ درتہہ تاریکیاں لئے ہوئے ہے۔تمام ترقدامت پسندی کے باوجودقدیم نصاب کے فارغین کے پا س بہت کچھ فخرکرنے کوہے جبکہ نئے تعلیم یافتہ حضرات کادامن یکسرخالی ہے۔“(ص۳۲)
نشاۃ ثانیہ کے لئے صاحب مضمون نے اربابِ حل وعقدپرزوردیاہے کہ وہ قدیم وجدیدنظامِ تعلیم پردوبارہ سنجیدگی سے غورکرکے نصابِ تعلیم کو افادی بنانے کی ہرممکن کوشش کریں۔طرزِتعلیم کی اصلاح سے ہی زوال میں پسی ہوئی موجودہ امت مسلمہ عروج کا باب واکرسکتی ہے؛اپنی اس تجویزکووہ یوں پیش کرتے ہیں:
”مدارس کے ذمہ داروں کوچاہیے کہ وہ نصاب تعلیم اورطرزِتعلیم دونوں میں اصلاح کرنے کی طرف توجہ دیں۔یہی وقت کی آوازہے۔ جدید نصاب تعلیم کوبھی تبدیل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔اس وقت ہمارانصاب تعلیم ہماری پستی کاسب سے بڑاذمہ دارہے۔“(ص۱۳)
مسلمانوں کی صدیوں کی کاوش کاثمر مغرب کوملااورمغرب نے اپنے علوم کی بنیادمسلم علوم پررکھی اوراستفادہ کاسلسلہ ہنوزجاری ہے۔ مغرب نے کلیسا کے دباؤ کے تحت اسلامی روح کوقبول کرنے سے ہمیشہ گریز کیاہے۔ اس نے اسلام سے صرف مادی اثرات قبول کیے۔ یہی مادّی اثرات تھے جوبے روح علم بن کرمغرب کے ہاتھوں میں پہنچے،جسے انہوں نے عیسائی فضامیں پروان چڑھایا۔وہ تناور درخت جس میں اسلامی روح نظرنہیں آتی، مسلمانوں کالگایاہواپوداہے،جوخودعالم اسلام میں نشوونما نہ پاسکااورناموافق حالات میں ٹھٹھرکررہ گیا۔
اس موضوع پرڈاکٹرغلام قادرلون کی شہرہ آفاق ضخیم کتاب”قرونِ وسطٰی کے مسلمانوں کے سائنسی کارنامے“مفصّل بحث کرتی ہے،جوپاک وہندمیں چھپ کرعلمی حلقوں میں پزیرائی پاچکی ہے اورکئی یونیورسٹیوں میں شاملِ نصاب بھی ہے۔شائقین اپنی تشفی کے لئے اس کابھی مطالعہ کریں۔
زیرتبصرہ مضمون کوکتابی صورت ”القلم پبلکیشنز“بارہمولہ نے دی ہے۔کتابچہ حاصل کرنے کے لئے رابطہ کریں:9906653927
٭٭٭