بارشوں کے امکان کی خوش خبری دینے کے باوجود تاحال بارشیں نہیں ہوئیں ۔ اس وجہ سے خشک سالی میں اضافہ ہورہاہے ۔ ایسی صورتحال کے اندر جہاں پانی کی شدید کمی محسوس کی جارہی ہے وہاں آگ کی واردتیں بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہاہے ۔ بلکہ کئی علاقوں سے اطلاع ہے کہ آگ بڑھکنے سے سخت مالی نقصان اٹھانا پڑا ۔ ہندوارہ کے علاقے سے یہ افسوسناک خبر آئی کہ آگ کی واردات میں 9 مکان اور کچھ دوسری تعمیرات خاکستر ہوکر رہ گئی ۔ آگ بجھانے کے عملے اور کئی گاڑیوں کے جائے واردات پر پہنچنے کے باوجود آگ کو اس وقت تک قابو کرنا ممکن نہ ہوا جب تک لاکھوں روپے کی مالیت کا نقصان ہوچکا تھا ۔ اس حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ آگ ایک مکان سے ظاہر ہوئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس کی تعمیرات کو اپنی لپیٹ میں لیا ۔ لوگوں نے آگ کے شعلے نمودار ہوتے ہی پولیس اور دوسرے متعلقہ محکموں کو آگاہ کیا ۔ لیکن اس وقت تک دوسری نزدیکی عمارتیں آگ کی لپیٹ میں آچکی تھی ۔ آگ کی اس واردات میں نو مکان اور گائو خانے پوری طرح سے جل کر راکھ ہوگئے ۔گاندربل میں اندرونی علاقے میں آگ کی ایک واردات میں مبینہ طور سخت مالی نقصان ہوا ہے ۔ یہاں آتشزدگی کی ایک واردات میں ایک مکان اور اس میں موجود تمام ساز وسامان جل کر راکھ ہوگیا ۔ جنوبی کشمیر سے اطلاع ہے کہ وہاں جنگلات میں آگ لگنے سے ایک وسیع پورشن خاکستر ہوگیا ہے ۔ بڑھتی خشک سالی میں ایسی وارداتوں کے پیش آنے کے خدشات کے پیش نظر لوگوں کو احتیاط سے کام لینے کا مشورہ دیا گیا ہے ۔ تاکہ کم سے کم جانی اور مالی نقصان ہوجائے ۔
جموں کشمیر میں موسم نے سخت رخ اختیار کیا ہوا ہے ۔ کئی ہفتوں سے بارشوں کا کہیں نام و نشان نہیں ہے ۔ ندی نالے خشک ہوچکے ہیں اور دریائو میں بھی پانی کی سطح کافی کم ہوچکی ہے ۔ یہی صورتحال رہی تو دریائوں کے سوکھ جانے کا خدشہ ہے ۔ پچھلی نصف صدی کے دوران یہ اپنی نوعیت کی سخت ترین خشک سالی بتائی جاتی ہے ۔ ایک طرف پینے کے پانی کی کمی ہورہی ہے ۔ پانی کے وسائل سوکھ رہے ہیں اور ندی نالوں میں بھی پانی نہیں پایا جاتا ہے ۔ اس وجہ سے لوگوں میں سخت تشویش پائی جارہی ہے ۔ کئی علاقوں سے کہا جاتا ہے کہ شالی کی فصلوں کے لئے پانی میسر نہیں ہے اور باغات کو بھی اس وجہ سے نقصان پہنچ رہاہے ۔ بالائی علاقوں میں چوپائیوں کے لئے پینے کا پانی موجود نہیں ہے ۔ ایسی چراگاہوں کو جانے والے گوجر بکروال طبقے سے تعلق رکھنے والے چرواہوں کا کہنا ہے کہ گھاس کی شدید کمی محسوس کی جارہی ہے ۔ اس وجہ سے بیشتر خانہ بدوش قبیلوں نے میدانی علاقوں میں ٹھہرنا پسند کیا ہے اور میوہ باغات میں عارضی سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ اس دوران محکمہ موسمیات کی طرف سے کئی بار بارشوں کے امکان کا اظہار کیا گیا لیکن یہ پیش گوئیاں صحیح ثابت نہیں ہوئیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ خشک سالی مں غیر معمولی شدت پائی جارہی ہے ۔ خشک سالی اس حد تک بڑھ جائے تو آگ کی وارداتوں میں اضافہ یقینی ہے ۔ اس وجہ سے جنگلات کے علاوہ رہائشی علاقوں میں بھی آگ لگ جانے کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔ آگ کی وارداتوں میں اضافہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک سنگین مسئلہ ہے ۔ خاص طور سے جنگلات میں ایسے واقعات کا پیش آنا تشویش کا باعث ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ محکمہ جنگلات کے اہلکار آگ کو قابو میں کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں ۔ لیکن ان کے پاس ایسے وسائل نہیں ہیں جن سے اس طرح کے حادثات پر قابو پانا آسان ہو ۔ اس کے لئے جدید آلات میسر کرنا ضروری ہے ۔ ادھر صورتحال یہ ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے جنگلوں میں موجود برف پہلے ہی ختم ہوگئی ہے ۔ چھوٹے چھوٹے گلیشئر پگھل کر نابود ہوچکے ہیں ۔ ایسی صورتحال کے اندر یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ آگ سے جنگلات کو بڑا نقصان نہیں ہوگا ۔ بلکہ اندیشہ ہے کہ جنگلات کا بڑے پیمانے پر صفایا ہوگا ۔ جنگلات کو پہلے ہی بہت نقصان پہنچا ہے ۔ پرانے درختوں کے جل جانے کی وجہ سے بڑے بڑے درخت سوکھ گئے ہیں اور نئے درخت اگانا کسی طور ممکن نہیں ۔ ایک تو اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔ نمائش کے لئے شجرکاری کی مہم تو چلائی جاتی ہے ۔ اس پر کافی روپے خرچ کئے جاتے ہیں ۔ ایسی رقوم کا بہت سا حصہ اہلکاروں کی جیبوں میں جاتا ہے ۔ کچھ سو درخت لگائے بھی جائیں تو بعد میں ان کی دیکھ ریکھ نہیں کی جاتی ۔ اس وجہ سے جنگلات کا حجم بتدریج گھٹتا جارہاہے ۔ اب خشک سالی اور آگ کی آئے دن کی وارداتوں سے بڑے پیمانے پر جنگلات کا نقصان ہورہاہے ۔ اس وجہ سے موسم میں مزید خنک پیدا ہونے کا خدشہ ہے ۔ اسی طرح بستیوں میں آگ لگ جانے پر تشویش کا اظہار کیا جارہاہے ۔ اس طرح کے دو طرفہ نقصان سے پوری قوم خوف و ہراس کی شکار ہے ۔ فضا میں آلودگی بڑھ رہی ہے ۔ جس وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ انسانوں جانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے ۔ لوگ بڑی تعداد میں جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں ۔ اس طرح کی صورتحال پر غور وخوض کی ضرورت ہے ۔
