تحریر:فردوس النساء
اخلاقیات کسی بھی قوم کو جانچنے پرکھنے اور آنکنے کا پیمانہ ہیں، زمانہ حال میں جاپان اور فن لینڈ نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ گذشتہ بیس برسوں میں جاپان میں کوئی قتل نہیں ہوا ہے نہ کوئی چوری کی واردات رونما ہوئی ہے۔ فن لینڈ میں شرح خواندگی صد فیصد ہے اس پر طرہ یہ کہ ذریعہ تعلیم مادری أزبان ہے۔ مختلف اقوام کے اخلاقی معیار مختلف ہیں لیکن چند اخلاق عالمی سطح پر یکسان ہیں مثلاً سچائی، دیانتداری، اساتذہ ، بزرگوں اور مبلغوں کا احترام، ملکی خواتین کا حترام اور پاسداری ، ہمسایہ اور ہمسائیگی کا احترام قدروں کی تعلیم دیتے ہیں۔ گذشتہ زمانے میں صرف ایک استاد ہی تعلیم وتربیت کا واحد ذریعہ تھا لیکن آج ٹیکنالوجی نے استادوں کے استاد کے طور رپ دستک دی ہے۔ کووڈ19کے بعد یہ بہت بڑے پیمانے پر ہوا ہے لیکن اس سب کے باوجود اُستاد کے رول کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ البتہ ایک استاد کو اخلاقیات کا عملی نمونہ ہونا چاہئے جو نہ صرف اس کے شاگردوں کو بلکہ پورے سماج کو متاثر کرسکے۔ ایک استاد کو عمل سے خود کو ثابت کرنا پڑے گا کیونکہ بچے استاد کی نقل کرتے ہیں۔ بول چال، پہناوا، اُٹھنا بیٹھنا یہاں تک کہ چلنے کا ڈھنگ بھی بچوں کو متاثر کرتا ہے۔ سگریٹ نوشی کا عادی استاد شاگردوں سے اس بری لت سے دور رہنے اور رکھنے کی توقع کیسے کرسکتا ہے۔
موجودہ مادہ پرست دنیا میں دولت کی جمع خوری کیلئے Rat-Raceچل رہی ہے۔ اُستاد اسی سماج کا حصہ ہونے کے ناطے اس سے اچھوتا نہیں رہ سکتا ہے۔ لالچ کی وجہ سے تنائو پیدا ہوتا ہے جو دھوکہ دہی ، بددیانتی اور اخلاقی گراوٹ پر منتج ہوتا ہے ۔ اس پر قابو پانے والا استاد حقیقی معنوں میں نمونہ ہے ۔ اس تنائو پر قابو پانے کیلئے ہمیں بڑی عظیم شخصیات اور عظیم اساتذہ کی تقلید کرنا ہوگی۔ عالمی سطح پر پیغمبر آخرالزمان ضلع اور ملکی سطح پر سرسید احمد خان، ڈاکٹر رادھا کرشن راجندر پرشاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، ابوالکلام آزاد اور عبدالکلام کے نقش قدم پر چل کر حقیقی رول ماڈل بنا جاسکتا ہے جو واقعی بچوں کو متاثر کرسکتا ہے۔
طلبا کو تعمیری تعلیم وتربیت میں منہمک کرکے انہیں Frustrationسے نکالا جاسکتا ہے اور دور رکھا جاسکتا ہے جو منشیات کی لعنت پر قابو پانے کا ایک موثر طریقہ ہے۔ ذہنی تنائو کی وجہ سے نونہال منشیات کی طرف راغط ہوجاتے ہیں۔ بیروزگاری ،بیکاری اور معدوم مستقبل نئی پود کو منشیات کی اندھیری وادی میں دھکیل رہے ہیں ۔ اساتذہ کو انہیں حوصلہ دینا ہوگا اور ناامیدی کے دلدل سے نکالنے کی سعی مسلسل کرنی ہوگی۔ علاوہ ازیں منشیات کا دھندہ کرنے والوں پر بھی نظر رکھنی ہوگی، انہیں کیفر کردار تک پہنچانے میں ایڈمنسٹریشن کی مدد کرنی ہوگی بلکہ انتظامیہ پر ایسا کرنے کے لئے دبائو بنائے رکھنا ہوگا۔
دعا ہے کہ ہمیں ایسا کرنے کی توفیق عطا ہو تاکہ ہم سماج اور نئی پود کو اس برائی سے بچا سکیں۔