تحریر: گلفام بارجی
محرم کا چاند نظر آتے ہی غم حسین علیہ السلام کی یاد دلوں میں تازہ ہوجاتی ہے۔کربلا کے وہ مناظر آنکھوں کے سامنے گشت کرنے لگتے ہیں جن دل دہلا دینے والےمناظر کو اہلِ بیعت اطہار نے عاشوراء کے روز کربلا کے میدان میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔عاشورہ اسلامی تاریخ میں ایک واحد ایسا دن ہے جس دن کی ہمیں کہیں مثال نہیں ملتی۔ نواسہ رسول ﷺ حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل و عیال کے ساتھ ساتھ ان کے اصحاب و انصا پر جو مظالم کربلا میں ڈھائے گئے ان مظالم کو قیامت تک یاد کیا جائے گا۔روایات میں درج ہے کہ دوسری یا تیسری محرم کو جب حسینی قافلہ کربلا پہنچا تو قافلے نے میدان کربلا میں خیمے نصب کرکے وہیں پر قیام کیا امام حسین علیہ السّلام نے قافلے سے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے جو ہماری مقام شہادت ہے۔اس طرح حسینی قافلے نے کربلا میں عارضی قیام کیا اور دوسری طرف یزید کو خبر پہنچی کہ حسین علیہ السّلام کربلا تشریف لا چکے ہیں اور یزید نے سات محرم تک حسین علیہ السّلام کو بیعت کرنے کے لئے کئی طرح کے لالچ دئے لیکن حسین علیہ السّلام کےقول و فعل میں کوئی فرق نہیں آیا اور یزید کی بیعت لینے سے انکار کرتا رہا۔
جب بھی کبھی ضمیر کاسودا ہو
ڈٹ جاؤ تم حسین’ع’کے انکار کی طرح
سات محرم کو جب لشکر یزید نے یہ سوچ کر نواسہ رسول ﷺ پر پانی بند کیاکہ شاید حضرت امام حسین علیہ السلام بچوں کی پیاس برداشت نہیں کریں گے اور وہ بیعت کرنے کے لئے مجبور ہوں گے کیونکہ یزید کو معلوم تھاکہ قافلہ حسین علیہ السلام میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی شامل ہیں اور حسین علیہ السلام ان بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں اس لئے شاید حسین علیہ السلام ان چھوٹے چھوٹے بچوں کی پیاس کو برداشت نہیں کرپائیں گے اور یزید کو یقین تھا کہ اس کا غیر اسلامی مقصد پورا ہوگا۔ لیکن یہ یزید کی بھول تھی کیونکہ حسین علیہ السلام اس شیر خدا، حیدر قرار حضرت علی علیہ السلام کا بیٹا تھا جس علی علیہ السلام نے دین اسلام کے خلاف اٹھنے والی ناپاک آوازوں کو نیشت نابود کیا۔حسین علیہ السلام اس نانا کے پوتے تھے جس نانا کو سجدے کی حالت میں الله تعالٰی کے طرف حکم آیا کہ اے خدا کے رسول ﷺ آپ کے کندھوں پہ حسین علیہ السلام سوار ہے اس لئے سجدے میں رہیے کہیں آپ ﷺ کے سجدے سے سرمبارک اٹھانے سے حسین علیہ السلام زمین پر نہ گرپڑے اور ان کو کہیں چوٹ نہ آئے خدا کے رسول ﷺ نے حکم خدا بجا لایا اور سجدے کو طویل کیا۔
تونے صداقتوں کا نہ سودا کیا حسین’ع’
باطل کے دل میں رہ گئی حسرت خرید کی
اسی حسین علیہ السلام کے جسم اطہر کو لشکر یزید نے عاشوراء کے روز پامال کیا۔شب عاشوراء میں امام حسین علیہ السلام اپنی بہن جناب زینب علیہ السلام کے خیمے میں تشریف لے جاتے ہیں اور بہن سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ بہن زینب کل صبح ہوتے ہی ہمیں ایک ایک کرکے شہید کردیا جائے گا اور آپ کو اس قافلے کا سالار بننا ہے زینب علیہ السلام بھائی حسین علیہ السلام سے مخاطب ہوکر کہتی ہے بھائی حسین مجھے معلوم ہے آپ کی شہادت کے بعد ہم پر مظالم ڈھائے جائیں گے شام غریباں میں ہمارے خیمے جلائے جائیں گے اور ہمیں ایک ہی زنجیر میں جکڑ کر شام لیا جائے گا لیکن بھائی حسین یہ سب میں برداشت کروں گی مجھے اگر غم ہے تو وہ غم ہے سکینہ یتیم ہو جائے گی یہ سن کر حسین علیہ السّلام نے بہن زینب علیہ السّلام کو تسلی دی اور صبح عاشوراء کا انتظار کرنے لگے۔ 10 محرم الحرام یعنی روز عاشوراء کو جب عصر عاشوراء تک حضرت امام حسین علیہ السّلام کے تمام اصحاب وانصار ایک ایک کرکے شہد ہوتے گئے اکبر بھی گیا، قاسم بھی گیا،عباس بھی گیا اور اپنی بہن کے گود کے پالے عون و محمد بھی گیا اور اب وہ وقت آگیا جب حضرت امام حسین علیہ السّلام نے بہن زینب علیہ السّلام سے میدان میں جانے کے لئے رخصت طلب کی تو بہن نے بھائی کو میدان میں جانے کی اجازت تو دےدی لیکن یہاں پر زینب علیہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بھائی نے پرانا پھٹا ہوا جامہ زیب تن کیوں کیا؟اور بھائی سے سوال کیا بھائی حسین آپ تو مدینے کے بادشاہ ہیں پھر آپ کے جسم اطہر پر یہ پرانا پھٹا ہوا جامہ کیوں؟ حسین علیہ السّلام کچھ دیر کے لئے رک گئے اور کہنے لگے زینب لشکر یزید بھی یہ جانتے ہیں کہ حسین مدینہ کے بادشاہ ہیں اس لئے اگر میں نیا پوشاک زیب تن کروں تو وہ میرے جسم اطہر کو یہ سمجھ کر پامال کریں گے کہ حسین مدینے کا باشاہ ہے اس لئے ان کے پاس بے شمار دولت ہوگی لیکن پرانا پھٹا ہوا جامہ دیکھ کر وہ یہ سمجھیں کہ حسین غربت سے دوچار ہےاور میرا لاش اطہر پامال ہونے سے محفوظ رہے اتنا کہنے کے بعد حسین گھوڑے پر سوار ہوئے اور میدان کی طرف چل پڑے۔ زینب علیہ السّلام تب تک بھائی کو دیکھتی رہی جب تک حسین علیہ السّلام میدان میں پہنچے لیکن جب حسین علیہ السّلام زینب علیہ السّلام کی آنکھوں سے اوجھل ہوئے تو کچھ ہی لمحوں بعد زینب علیہ السّلام کو بھائی کی صدا سنائی دی کہ زینب بھائی بھی قربان ہوگیا اب اسیر قافلے کی حفاظت کرنا۔اس طرح عصر عاشوراء تک کربلا کے ریگزار میں حضرت امام حسین علیہ السّلام کے تمام 72 اصحاب و انصار شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد عاشوراء کی شام جس سے شام غریباں یعنی غریبوں کی شام بھی کہتے ہیں اہلبیت اطہار علیہ السّلام کے خیمے جلائے گئے اور تمام بیبیوں کو جن میں امام عالی مقام علیہ السّلام کی کمسن بیٹی حضرت سکینہ علیہ السّلام اور امام عالی مقام علیہ السّلام کا بیمار بیٹا امام زین العابدین علیہ السّلام بھی شامل تھے کو ایک ہی زنجیر میں جکڑ کر شام کے لئے گئے اور وہاں زندان شام میں ان پر طرح طرح کے مصائب جھیلنے پڑے۔ زندان شام سے رہائی پانے کے بعد یہ لٹا ہوا حسینی قافلہ اربعین پر زیارت حسین علیہ السّلام کے لئے پہلے کربلا پہنچا اور وہاں زیارت حسین علیہ السّلام کے بعد اپنے وطن مدینے کے لئے واپس روانہ ہوئے۔ جب یہ لٹا ہوا قافلہ مدینہ پہنچا تو پہلے وہاں کے لوگوں نے حسینی قافلے کو نہیں پہچانا لیکن جب بیمار کربلا زین العابدین علیہ السّلام نے کہا کہ میں حسین کا بیٹا ہوں تو وہاں ماتم بپاہوا۔پھر مدینے کے لوگوں نے بیمار کربلا سے جب دریافت کیا کہ کربلا میں اہلیت اطہار علیہ السّلام کے ساتھ کیا پیش آیا تو امام زین العابدین علیہ السّلام نے کربلا کی ساری داستان بیان کی اور بیمار کربلا امام زین العابدین علیہ السّلام کی بیان کی ہوئی کربلا کی اسی داستان پر کتابیں لکھی گئی اور ایک ایسی تواریخ لکھی گئی جسے آج تک کسی نے نہ بدلا اور نہ قیامت تک کوئی اس تاریخ کو بدلے گا اور دنیا آج تک کربلا کی اس داستان کو دہراتی آئی ہے یاد کرتی آئی ہے اور ماتم کرتی آئی ہے اور قیامت تک ماتم کرتی رہے گی۔
واپس مدینے لوٹ کر پھر نہ آئے حسین’ع’
یارب کسی غریب کا ایسا سفر نہ ہوں