تحریر:ش،م ،احمد
آج کی تاریخ میںاہل ِکشمیر کو کیا چاہیے ؟۔۔۔ زخم یا مرہم؟ فتنہ یا امن؟درد یا شفا ؟سکون یابے چینی؟دوستی کا ہاتھ یا دشمنی کا خنجر؟اتحاد کی برکتیں یا خلفشار کی سزا ئیں؟ افہام وتفہیم کاماحول یامن مانی کی اکڑ؟ یہ موجودہ دور کے اہم سوالات بھی ہیں اور کشمیریوں کی اجتماعی چاہتیں بھی۔ان سے روز کسی نہ کسی صورت ہمارا پالاپڑتا ہے۔ آپ یہ سوالات کسی عام کشمیری سے پوچھئے ‘تو وہ بآواز بلند جواب دے گا: حضور! بہت ہوگیا ‘اب ہمیں امن وسکون سے جینے دیجئے ‘ہمیں منافرتوں کے الاؤ نہیں محبتوں کے چراغاں چاہیں ‘ہمیں دُکھی نہیں سکھی کشمیر لوٹادیجئے۔ یہاں کے تمام ہوش مند‘ باضمیر‘ حال و مستقبل کی فکر میں ڈوبے دانش ور‘ معلم ومبلغ‘سیاست دان ‘امن وآشتی کے خواہاں اور ہر اعتدال نواز شخص سے ان سوالات کا یہی ایک مشترکہ جواب ملے گا۔ لیکن فرض کریں ہماری صفوں میں کوئی ایسا کندہ ٔ ناتراش عالم ‘پیش امام یا خطیب ہو جو سوچ سےعاری ہو‘ کج فہمی ‘ بے بصیرتی اور بے خبری میں گھرا ہو،اس کی رگوں میں پختہ خیالی کا خون دوڑ رہاہو نہ وہ عصر رواں کے اولین تقاضے سمجھ پارہاہو ‘اور مٹی کا مادھو ثابت ہونے کےسبب وہ ان سوالات کا اُلٹا جواب دینے لگے تو ہم اُس کے لئےبجز انا للہ اور کیاکہیں۔
میرے نزدیک ان سوالات کے جوابات ہی طے کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں کسی دانش ور‘عالم اور خطیب کے دل کے تہَ خانےمیں اور دماغ کے ایوانِ بالا میں کس سوچ کی پرورش ہورہی ہے ‘ کیا کیا خیالات اس کی شخصیت کے پرتوں میں پروان چڑھ رہے ہیں ، کون سی زبان اس کے قیل وقال پر حاوی ہورہی ہے ۔آج کل ہمیں جس بھی عالم ا ورخطیب سے قال اللہ قال رسول اللہ ﷺ سننےکا موقع ملتا ہے تو ہمیں اس کے مبلغ ِ علم کاہی پتہ نہیں چلتا بلکہ ہم پریہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ اُس کا رُخ بناؤ کی منزل کی طرف ہے یا وہ بگاڑ کی کھائیوں میں لڑھکنے پر بضد ہے ۔ اُس کی دو چار باتوں سے ہی ہم یہ اخذ کر پاتےہیں کہ اپنا سمت ِ سفر متعین کر نے کے لئے اُسے مثبت سوچ کی حلال غذاچاہیے یا منفی رجحانات و خیالات کاباسی دانہ پانی۔
ابتدائیہ میں درج میرے ناچیز سوالات کا انطباق کشمیر کے دو سرکردہ مذہبی رہنماؤں مولوی عبدالرشید داودی صاحب ( سربراہ تحریک صوت الاولیا )اور مولوی مشتاق احمد ویری صاحب ( مبلغ جمعیتہ اہلحدیث جموں کشمیر) سے منسوب حالیہ متنازعہ کہلانے
و الی گفتگوؤں پر کیجئے تو کلیجہ منہ کوآئے گا۔ پتہ نہیں یہ صاحبانِ عقل وبصیرت کیونکر بھول گئے کہ واقعہ کربلا تاریخ کا ایک حساس ترین موضوع ہے۔ اُمت کا سواد اعظم (سنی اور شیعہ مسلمان) بصد جان امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اہل بیت ِ اطہار علیہم السلام کی تقدس مآبی اور ان کی لازوال و لامثال قربانیوں کا دل کی عمیق گہرائیوں سے احترام کرتاہے ۔ اس بدیہی حقیقت کو پس پشت ڈال کر کسی واعظ ِ قوم کا ایسے موضوع پر غیر محتاط طرزکلام اختیار کرنا تو دور کی بات‘زبان کی تھوڑی سی پھسلن بھی عام مسلمانوں کو مشتعل کر نے کے لئےکافی ثابت ہوتی ہے‘ کجا کہ وعظ خوانی کی مجلس میں کوئی خطیب واہیات کا ہفت خوان لے کر بیٹھے۔ا س سے تو عوامی غم وغصے کے تنور سے سیلاب نوحِ ؑ جیسی ناگہانی آفت نازل ہونا ‘ گروہی مخاصمت اور طبقاتی کشمکش کی جنگ چھڑ جانا‘ انتشار کا غلغلہ ہونا ایک فطری ردعمل قرار پاتا ہے۔
شاید ہی کوئی مانے گا کہ منبرومحراب سے سامعین کے جذبات کو گرمانے والے یہ دو معزز مبلغین پیشگی طور نہیںجانتے تھے کہ واقعۂ کربلا پر اُن کی مبینہ متنازعہ گفتگو سے لوگوں پر کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے‘ وہ بھی ایک ایسی فضا میں جب مدت ِ دراز سے مذہبی حلقوں کے یہاں مسلکی اور گروہی اختلافات وتنازعات کے سیاہ بادل منڈلاتے ہوں ‘ بلکہ جہاں بعض مولوی صاحبان روزانہ کی بنیادوں پر فروعی اختلافات کے پٹارے کھولے ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کی ٹوہ میں لگے رہتےہوں۔اور جہاں مہربان ناقدین بھی الگ سے تاک میں بیٹھے ہوں کہ کہیں فریق مخالف کے واعظ صاحب کے پیر ڈگمگائیں‘ اس کی زبان احتیاط کی پگڈنڈی پر کہیںلڑکھڑائے تو اس کی بات کا بتنگڑا بنایا جائے تاکہ ہمیں اپنا حساب چکانے کا آسان موقع مل جائے۔ یہ سب جانتے ہوئےکیا کوئی عقل سلیم رکھنے والا واعظ و پیش امام اپنے اوپر ناقدانہ نظر رکھنے والوںکو موقع دے گا کہ آؤ میں کچھ اُلٹا پلٹ بولتا ہوں اور تم مجھ پر مل کر پل پڑو۔ نہیں قطعی نہیں ‘ بلکہ اپنے کرم فرماؤں کی محاسبانہ موجودگی میں ہر واعظ اور مولوی صاحب پہلے سو بار تولے گا پھر ایک بار بولے گا۔ وہ اپنی ہر بات کا ہمہ وقت احتساب کر کے سامعین کو محتاط لب ولہجہ میں وعظ ونصیحت کرے گا ‘ اور کسی صورت بھی ناقدین کے ہاتھ اپنی بات کی کھال اُتارنے کا بہانہ دےگا ۔ ان حقائق کی موجودگی میں یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ا ن دو اہم مذہبی مبلغین کو اپنے پیچھے لگی سوشل میڈیا کے تجسس وتعاقب کی تیسری آنکھ کا علم بھی نہ ہو۔ آج کی دنیا میں موبائیل کی دنیا ہے ، منبر ومحراب پروعظ وتبلیغ کر نے والا عالم ہو ‘کسی بڑے یا چھوٹےایوان میں بولنے والا حاکم ہو ‘ پنڈال پر تقریر جھاڑنے والا سیاست دان ہو‘ اس کی تمام حرکات وسکنات کا آنکھوں دیکھا حال اور ہر ہر جملہ ایک چلتی پھرتی فلم کی صورت میں موبائیل کے ذریعے پلک جھپکنے سے قبل ہی دنیا جہاں تک پہنچتی ہے ۔
بہرحال کوئی مستند عالم واقعۂ کربلا جیسے ایمان افروز موضوع سے متعلق اپنی محققانہ ‘ عالمانہ‘ اتحاد پرورانہ گفتگو نا چاہیے تو اس کے لئے یہ کوئی شجر ممنوعہ نہیں‘ تاہم اُ سے یہ بات پلے باندھنی ہوگی
کہ یہ کام انتہائی پیچیدہ ہے‘ اس میں ایک ایک سانس پر احترام حسین ؓ ا کاخاص پہرہ بٹھاناہے ‘ تہ در تہ تاریخ کے اوراق میں لپٹی
اس خون آشام سرگزشت کو سامعین یا قارئین کے سامنے بیان کرتے ہوئےاُسے محض ایک طبقے کی خوشی اور ہم نوائی کاخیال ہی نہیں رکھنا بلکہ تمام مسلمانوں کے قلبی جذبات کے احترام کو بھی مقدم رکھنا ہے‘ تب جا کر اپنی زبان کھولنی یا قلم چلانا ہے۔ اسے معلوم ہوناچاہیے کہ موضوع کے حوالے سے اس کے تبصرے کی طرف عوام الناس کی توجہ لازماً مرکوز ہونی ہے اور خواص کی نگاہ ِ التفات بھی ۔ تمام احتیاط وپرہیزات کے بعد اگر اس کی گفتگو حق بیانی کی شاہکار ہو تو فبہا لیکن اگریہ خدانخواستہ اعتدال وتوازن سے ماورا ہو ئی تو موجودہ زمانے کی اصطلاح میں یہ ’’ہیٹ اسپیچ ‘‘ اشتعال انگیز ‘ شر پسندانہ فعل اور قانون کی زبان میں نقص ِ امن کے زمرے میں شمار کی جائے گی ۔ اس کے بُرے نتائج بھگتنے کے لئے پھر واعظ ِقوم یا مصنف وقلم کارکو تیار رہنا ہی رہنا ہوگا۔ عاشورہ محرم کے مصائب وآلام کے حوالے سے کوئی بھی بے احتیاط گفتگو مسلک ومشرب کی تقسیم سے بالاتر ہر کسی مسلمان کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے ۔ نیز ا س سےعوام میں بد مزگی پیدا ہونا ‘ شکوک و شبہات کی آگ لگنا اور منافرتوں کی کڑواہٹیں نمودار ہونا ایک فطری بات ہے ۔
یہاں پر واضح رہے کہ راقم الحروف کو ان ہر دو مبلغین ِکرام کی متنازع فیہ گفتگو کے بارے میں سوشل میڈیا کے علاوہ کسی اور مستند ذریعے سے معلومات بہم نہ پہنچ سکیں۔ البتہ سوشل میڈیا پر ان دونوں اصحاب کی گفتگوؤںپر معترضین بو جوہ سیخ پا نظر آئے۔ آخرکیوں نہ ہوں‘ بقول ناقدین کےانہوں نے اپنی گفتگوؤں میں کچھ ایسی لن ترانیاں کیں کہ جن سے امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گہری عقیدت ومحبت رکھنے والے تمام کشمیری مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ۔ بنابریںگھمبیر صورت حال کا فوری نوٹس لیتے ہوئے جنوبی کشمیر کی پولیس نے دونوںمولوی صاحبان کے خلاف نقص ِامن کے الزام میں مقدمہ دائر کردیا ہے ۔ پولیس تفتیش کے بعد آگےیہ کام مجاز عدالت کا ہوگا کہ اپنی جرع وتعدیل سے واضح کرےکہ ملزمین پر جومقد مہ قائم کیا گیا ہے وہ اُن کی سبقت ِلسانی کا شاخسانہ ہے یا معاملہ کچھ اور ہے۔
میری اپنی سمجھ سے یہ بالاتر ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کشمیر جہاں ایک معمولی دیا سلائی سے بھی امن ِعامہ کو گزند پہنچنے کا احتمال ہمیشہ لگا رہتا ہے‘ جہاں خون خرابے کی فضا کو تین دہائیوں بعدسیکورٹی فورسز ‘ پولیس
کے دم قدم پر اور سب سے بڑھ کر عوامی سوچ میں بنیادی بدلاؤ آنےکے نتیجے میں حالات پرقدرے قابو پایاگیا کہ برادر کشی کی خونین لہر بہ مشکل تمام تھم گئی۔مابعد ۵؍ اگست ۲۰۱۹ بشمول میرواعظ عمر فاروق صاحب کے اکثر مذہبی علما اور مقررین وخطبا زیادہ تر عام لوگوں کی اخلاقی تربیت کرنے ‘ انہیں اپنی سماجی اصلاح کی جانب توجہ دلانے‘ تمام مکتبہ ہائے فکر اور مسالک کے مابین روایتی بھائی چارے اور محبت کی روایات کا احیا نو کر نے میں حتی الوسع کوشاں ہیں۔ اس عموم سے ہٹ کر کچھ مٹھی بھر مذہبی مقررین عوام الناس کو غیر ضروری سوالوں ‘ بے جا مناظروں ‘ لایعنی بحث ومباحثوں میں اُلجھانے ، مسلکی بنیادوں پر لوگوں کومنتشر ومتفرق کرنے ‘ عوام کے درمیان ایک دوسرے کے تئیں دلوں میں نفرتیں پالنے اور تفرقہ اندازیو ں کی آگ بھڑکانے کی نامشکور حرکات کیوںکرتے رہتے ہیں اور وہ بھی مذہب کے نام پر ؟؟؟ یہ ایک معمہ ہے سمجھنے اور سمجھانے کا!!!
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اکثر علما اور پیش امام امن اور اخوت کی جگا تے جارہے ہیں مگر کہیں کہیں غیر ذمہ دار مقررین کا ایک بے فیض مگر محدود گروپ ضرور موجود ہے جومنبر ومحراب کے عصری تقاضوں کو نظر انداز کرکے لوگوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے فتنہ پردازیوں کو ہوادے کر ورغلا رہاہے ۔ یہ گروپ اپنے سامعین ومعتقدین کو اتحاد اور بھائی چارے کی جانب کبھی نہیں بلاتا ‘ اُنہیں اسلامی اُخوت کے رنگ میں بھولے سے بھی نہیںرنگتا‘ نہ ’’اپنے عقیدے کو چھوڑیئے مت‘ دوسرے کے عقیدے کو چھیڑیئے مت‘‘ کے اصولی موقف سے ان کا کوئی دور کا واسطہ ہے ۔ حالانکہ کوئی بھی عقلِ سلیم والا مولوی یا خطیب ہو تووہ فہم وشعور کی گہرائیوں سے جانتا اور مانتا ہوگا کہ موجودہ آزمائشی حالات میںاُس کے تمام بیانات کا لب و لباب کشمیری عوام کو دین ایمان اور امن وآشتی کی رغبت دلانا ‘ اصلاحِ احوال کی دعوت دینا ‘ شیر وشکر ہو کر لوگوں کو کندھے سے کندھا ملا کر آگےبڑھنے کے یک نکاتی ایجنڈےپر عوام کوجمع کرنا ہے ۔ ان بے فکرے خطیبوں اور پیش اماموں کے لئے یہ ایک جگ ظاہر حقیقت ہونی چاہیے کہ کشمیری عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنی تاریخ کے ایک انتہائی پیچیدہ اورکرب انگیز زمانے سے گزرے ۔ نوے کی اندھ کاری کو کھ سے جنمی یہ عہدِ ظلمت غم والم کی ایسی بھیانک یادوں سے عبارت ہے جس کو بیان کرنے والےمورخ کی خوردبینی آنکھ نم ‘ قلم لرزاں ‘ روشنائی خشک اور جذبات واحساسات کا خون کھول اُٹھتا ہے ۔ لیکن آج کی تاریخ میں جب ہم کشمیری بہت ساری ماریں ٹھوکریں کھانے ‘ دشت ہائے رنج وغم کی لمبی سیاحی ‘تلخیٔ ایام کے زوردار طمانچےکھانے کے بعد اب تاریخ کے ایک نئے موڑ پر آپہنچے ہیںجہا ں ہمیں اپنےقلب وجگر میں جینے کی تازہ اُمنگوں کی پرورش کرنی ہے ‘ نئ اُمیدوں کے چراغ لئے نئے اُجالوں کی تلاش میں ایک ساتھ آگے بڑھناہے ‘ہر ایک فرد بشر کو پُر امن اور پُر وقار کل کی تعمیر میں میں جہد مسلسل کاحوصلہ دیناہے تاکہ اہل ِ کشمیر سر اُٹھاکر عزت وآبرو کےساتھ گزر بسرکر سکیں ‘ ملک اور ملک سے باہر ہماری شناخت دہشت و وحشت کے استعاروں اور بدامنی کے پرستاروں کے بجائے امن وامان کی پُروائیوں میں سانسیں لینے والوں کی بنے۔ اس عظیم سفر میں ہم میں سے ہر ایک کو اپنا اپنا کنٹری بیوشن دنیا ہوگا‘ چاہے وہ عالم ہو ، اسکالر ہو ‘ پیش امام ہو‘ مبلغ ہو‘ خطیب ہو‘ مصنف ومعلم یا کوئی عام آدمی ہو۔اس کے بغیر ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں اور یہی وقت کی اذان اور رُوحِ کشمیر کی پکارہے۔
