تحریر:معراج زرگر
خواب دیکھنا کسی بھی شخص کا بنیادی حق ہے۔ ایک ایسا حق ہے جس پہ کسی بھی دوسرے شخص کو( چاہے وہ کتنا ہی بڑا حاکم یا عہدیدار ہو) قدغن لگانے کی نہ تو کوئی قدرت ہے نہ کوئی رسائی۔خواب دیکھنا از روئے شریعت بھی جائز ہے اور از روئے غیرِ شریعت بھی مباّح۔خواب دیکھنے پہ نہ کوئی ایف۔ آئی۔ آر۔ کٹ سکتی ہے نہ ہی اس پہ کسی رائج الوقت انسدادِ دہشت گردی قانون کا اِطلاق ہو سکتا ہے۔خواب کوئی بھی شخص دیکھ سکتا ہے، چاہے بینا ہو یا چاہے نا بینا ۔ ہاں۔۔۔۱ ‘‘بے خوابی’’ Insomnia یا Sleeplessness ایک ایسی صورتِ حال ہے، جہاں تک ابھی عام انسان کی رسائی نہیں ہے۔یہ ایک ایسا عالم ہے جس کی جہتوں سے ابھی عام لوگ ناواقف ہی ہیں۔یہ ایک اونچی چیز ہے اور اونچے طبقے کے لوگوں کو ہی میسّر ہے۔
بہر حال ‘‘ذکرِ نیم گرم ’’ خوابوں کا چل رہا ہے۔ واہ۔۔۔! کیا کہنے خوابوں کے۔۔۔۔۔۔۔!! حسین اور خوبصورت خواب۔کہیں عالم ِ سکوت میں نرم بستر کی گرمی سے لپٹ کر اور کہیں ننگے کا ‘‘پرینگس پیٹھ’’۔کہیں کسی سرکاری ہٹ یا گیسٹ ہاؤس کے دلدلی صوفے پہ اور کہیں کسی مسجد کے بوسیدہ حمام کی پتھروں پہ۔کہیں کسی ‘‘خوابوں’’ کی شہزادی کی آغوش میں اور کہیں کسی ‘‘صاحبِ سِجن’’کی صحبت میں زنداں کی کوٹھری میں کسی دریدہ ٹاٹ یا چٹائی پر۔اب ذیادہ تفصیل میں بھی جانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ہم سب تو خوابوں کے متوالے ہیں ۔گہری نیند میں نہ سہی، جاگتی ہوئی آنکھوں ہی سے سہی۔بس خواب دیکھنے ہیں۔ لمبے تڑنگے اور ڈیل ڈول کے حساب سے کچھ ذیادہ ہی ‘‘چشم کُشا’’ خواب۔کئی خواب تو بھیانک اور وحشتناک قسم کے بھی ہوتے ہیں، مگر وہ اب پرانی باتیں ہوگئی ہیں۔ جب سے کچھ دفعات کو دفع کیا گیا ہے, تب سے ماشاء اﷲ اس قسم کے ڈراؤنے خوابوں سے نجات ہی ملی ہے۔البتہ دکھائے جانے والے ‘‘ مسحور کُن خواب ’’ کبھی کبھی بلکہ آج کل کچھ ذیادہ ہی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان بنے ہوئے ہیں۔
خوابوں سے ملتی جُلتی ایک اور شئے ہے جسے ہم ‘‘دورہ’’ کہتے ہیں۔ چونکہ خواب دیکھنا ایک غیر ارادی عمل ہے ۔ اس لئے اپنی اعتبارئیت کے لحاظ سے خواب کا مماثل ہے۔جسم کے کسی عضوء کا انتہائی شدید حالت میں کسی غیر ارادی، غیر یقینی اور اضطراری عمل کے مظاہرے کو ‘‘دورہ پڑنے’’ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔جیسے دل کا دورہ، مرگی کا دورہ وغیرہ وغیرہ۔خواب ہی کی طرح دورہ کسی کو بھی پڑ سکتا ہے۔‘ ‘ دورہ لگنا’’ بھی اِسی جنس سے تعلق رکھتا ہے۔جیسے سیاسی دورہ، ذاتی دورہ، غیر ذاتی دورہ،بیرون ملک دورہ، اندرون ملک دورہ، کلچرل دورہ، ثقافتی دورہ وغیرہ۔ایسا دورہ کسی بھی وقت کسی بھی شخص کو غیر یقینی اور اِضطراری حالت میں لگ سکتا ہے۔مگر ‘‘دورہ لگنے’’ میں ‘‘دورہ پڑنے’’ کی بہ نسبت انسان کے ارادے کا تھوڈا بہت عمل دخل رہتا ہے۔ جس طرح ‘‘دورہ پڑنے ’’ کی صورت میں انسان سے کسی بھی قسم کی حرکت عملاً یا قولاً متّصوّر ہے، بالکل اسی طرح ‘‘دورہ لگنے’’ میں کوئی بھی حرکت عملاً یا قولاً وجود میں آسکتی ہے۔ دونوں ہی صورتیں انتہائی مضر اور خطرناک ہیں۔‘‘دورہ پڑنے ’’ کا تعلق اعضاء سے ہے، جبکہ ‘‘ دورہ لگنا’’ بہ جسد و روح ہے۔دونوں حالات کا عقل و شعور و فہم و ادراک سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ۔دونوں صورتوں میں عقل بالائے طاق اور لبِ بام رہتی ہے۔مگر ‘‘صاحبِ دورہ ’’ کا کیا کہیے، بے خطر کسی بھی ‘‘اُڑن طشتری’’ میں سوار ہو سکتا ہے۔
صرف و نحو کے قاعدے کی رُو سے ‘‘ دورہ’’ اسمِ صفت ہے، اگرچہ ناپسندیدہ اور نا معقول ہے۔مختلف مکاتبِ فکر کے نزدیک ‘‘دوروں’’ کی مختلف تفاسیر اور تاویلیں ہیں، مگر سب اِ س بات پر متّفق ہیں کہ ‘‘دورہ ’’ بذاتہہِ اور بنفسہہِ قدیم اور حادث ہے، اور “عوام’’ میں خاص نہیں ہے جبکہ ‘‘خواص ’’ میں عام ہے۔عوام شاذ و نادر ہی ‘‘دوروں’’ کے متحمّل ہو سکتے ہیں ۔ اور اگر خدا نخواستہ کسی ‘‘عام’’ کو ‘‘دورہ لگا’’ یا ‘‘دورہ پڑا’’ ،تو یہ بدقسمتی کے سواء کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔‘‘خواص’ یا ‘‘خاصانِ خاص’’ کو دورے پڑتے بھی رہتے ہیں اور لگتے بھی رہتے ہیں۔حکماء اور اطباء کا تجزیہ ہے کہ اِس میں میراث اور موروثیت کا بڑا عمل دخل ہے۔اور دونوں صورتوں میں ‘‘صاحبِ مال’’ ہونا ضروری ہے۔ایک جدید سائنسی تحقیقی رپورٹ کے مطابق ایکسپوژر اور New World Order کی تاثیر کی وجہ سے ‘‘ دورہ’’ کسی بھی جانور یا اِنسان کو، چاہے عام ہو یا خاص، کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت ، بلا خلل اور بلا وجہ پڑ بھی سکتا ہے اور لگ بھی سکتا ہے۔
اسی لئے تو مسٹر جانی کا اکلوتا اور ونڈرفُل گدھا آج کل بوجھ ڈھونے اور ڈھینچو ڈھینچو کرنے سے کتراتے ہوئے مسٹر جانی کیلئے دردِ سر بنا ہوا ہے۔کیونکہ مذکورہ گدھے نے اپنے آپ کو خواب میں‘‘ گھوڑے’’ کے روپ میں دیکھا ہے، اور تب سے اِسے ‘‘دورے’’ پڑ رہے ہیں۔ایک تو معمولی گھاس پھوس کے بجائے امرتسری چوکر اور لاہوری گُڑ کی مانگ زور پکڑتی جارہی ہے، اور دوسرا اپنی مادری زبان کے بجائے سریلی اور من بھاتی آواز میں کسی Uncorrupt اور کنوارے گھوڑے کی طرح ہنہنانا اب روز کا معمول بن گیا ہے۔بستی کے باقی جتنے بھی گدھے ہیں وہ اپنے نیچے کو ڈھلکے ہوئے سروں اور بوجھ سے لدے ہوئے جسموں کو لے کر حسرت و یاس میں مسٹر جانی کے لاڈلے کو دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ کُچھ عجب نہیں کہ اُنہیں بھی ‘‘دورے پڑنے’’ شروع ہو جائیں۔
مسٹر جانی کے ونڈرفُل گدھے کی دیکھا دیکھی میں گاؤں کے سمارٹ اور ہینڈسم ‘‘سُلہ جمعدار’’ کو بھی دوپہر کی چکا چوند روشنی میں ایک زبردست ‘‘لیڈری کا دورہ’’ پڑا۔ اپنے کچھ لنگوٹی ‘‘ ٹھولہ ژوروں’’ نے اپنے گروپ لیڈر کو اپنی عقلی بساط اور سیکیورٹی خدشات کے ضمن میں کچھ ضروری اعتراضات اور نصائح سے نوازا، مگر جمعدار جی کے پاس ‘‘Transitioned’’ اور ‘‘Transformed’’ گدھے کے حوالے سے جو دلائل اور منطق تھی، اس کے آگے لنگوٹیوں کی ایک بھی نہ چلی۔طرفین کے دیہات اور خود سُلہ صاحب کے گاؤں میں اِس ‘‘Nightmerish’’ اور ‘‘Epiliptic’’ حادثے کو لیکر سراسیمگی پھیل گئی۔آخر کار گاؤں کے چند معززین نے مشورہ کرکے حکیم صاحب کے گھر کا رُخ کیا، تاکہ اِس اچانک ‘‘خواب آور دورے’’ کا کوئی عِلاج کیا جاسکے۔مگر حکیم صاحب بھی اِس ‘‘دورے’’ کے جھٹکوں کی تاب نہ لاسکے اور بالآخر اپنے نحیف اور ضعیف وجود کو سمیٹ کر اپنی ‘‘حکمت گاہ’’ میں خاموشی سے دُبکے بیٹھے رہے۔ حکیم صاحب کی ‘‘ نیم غنودگی’’ بھانپتے ہوئے معّززین کو بھی ‘‘دماغی دورے’’ محسوس ہونے شروع ہوگئے۔
رِکٹر اسکیل پہ صدی کے عظیم ترین ‘‘دورے’’ کے لئے ضروری اِنتظامات کی تشکیل کیلئے اپنے لنگوٹیوں سے حاصل شدہ معلومات کا جائزہ لینے کے بعد سُلہ صاحب اِس نتیجے پر پہنچے کہ اگر لیڈر بننے میں اُن کی کوئی مدد کرسکتا ہے تو وہ ساتھ والے گاؤں کے سنسنی سنگھ ہیں ۔ کیونکہ تازہ ترین معلومات کے مطابق سنسنی سنگھ ہی وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں متواتر اور مسلسل بِلا کسی ناغے کے سالہاسال تک ‘‘دورے لگے’’ بھی ہیں اور ‘‘دورے پڑے’’ بھی ہیں۔اِن کے دوروں ہی کی وجہ سے وہ بطورِ سنسنی سنگھ مشہور ہوئے ہیں۔ کیونکہ مرغبانی سے شروع کرکے کچھ ہی سالوں میں اُنہوں نے سیاسی اُفق پر ‘‘لیڈرانہ سیاسی سنسناہٹ’’ کی وہ دھول جمائی ہے کی اب اگر امریکی سُنڈھی جو بائیڈن یا روسی کُکڑ ولادمیر پُتِن کا بھی اِس خطہء ارض کی طرف ایک ‘‘ ہنگامی دورہ’’ لگ جائے، تب بھی وہ سنسنی سنگھ کی جمائی ہوئی ‘‘خُمار آلود’’ دھول کو چھٹا نہیں سکتے۔
اگلے روز جب سُلہ صاحب نے سنسنی سنگھ کو میدانِ بے کراں میں کودنے کی خبر سنائی تو تو وہ اُس کے دِل پر ایک بم کی طرح گری۔ قریب تھا کہ اُسے ایک ‘‘دِل کا دورہ’’ پڑتا، مگر خود کو ایک دائمی مرگی مریض کی طرح سنبھالتے ہوئے اُس نے سُلہ صاحب کو ہر طرح کے اِخلاقی، غیر اِخلاقی، سیاسی، غیر سیاسی مدد کی پیشکش کی۔سنسنی سنگھ کی‘‘ نشیلی پیشکش ’’ اور ‘‘خوابیدہ خوابیدہ’’ آنکھوں میں لیڈری کے ‘‘خواب’’ لئے ہوئے سُلہ صاحب سنسنی سنگھ کے میٹنگ روم میں گھنٹوں ‘‘محوِ خواب’’ رہے۔
‘‘اِنقلاب زندہ باد ، انقلاب زندہ باد’’ اور ‘‘اب کی بار۔۔ سُلہ ڈار’’ کی رَٹ لگاتے ہوئے اور ہوا میں ‘‘عالمِ نیم خوابی’’ میں ہاتھ لہراتے ہوئے سُلہ صاحب کو جب لنگوٹی نمبر 1 اور مسقبلِ قریب کے پی۔آر۔ او۔ نے جھنجھوڑتے ہوئے خواب سے جگایا تو اُس نے اپنے آپ کو گاؤں کے ‘‘تاریخی وِڑِہ وارڑ’’ میں پایا۔ جہاں اِس کے اِرد گرد کافی لوگ جمع ہوگئے تھے۔لوگوں کی اچھی خاصی بھیڑ دیکھ کر سُلہ صاحب کو اچانک تقریر کا دورہ پڑا۔لنگوٹیوں نے گوبر سونگھایا، جُوتے چکھائے، مگر سُلہ صاحب کا ‘‘دورہ’’ اِس قدر شدید تھا کہ وہ اپنی زبان پر ذرا بھی قابو نہ رکھ سکے۔سُلہ صاحب کی یہ فقیدُالمثال تقریرجاری رہتی، مگر کسی ‘‘جمہوریت مُخالف شر پسند’’ نے تاریخی وِڑِہ وارڑ کے ایک کونے سے مستقبل کے عظیم رہنماء کے سر پر ایک آدھ سیر کا پتھر دے مارا۔
اِس غیر معمولی اور تاریخی سانحے کو لے کر تین دِن گذر چکے ہیں۔ شہر کے سب سے مہنگے اسپتال کے سپیشل Suit میں ‘‘وِڑہ وارڑ’’ کا عظیم ترین غازی زیرِ علاج ہے۔ آدھ درجن حفاظتی دستہ آٹومیٹک ہتھیاروں سے لیس سیوٹ کے باہر غازیؔ محمد سلطان کے روبہ صحت ہونے کے منتظر ہیں۔کیونکہ ریاست کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ نے ابھی ابھی اُن کی صحت دریافت کی ہے، اور انکے ہاتھ میں دو ٹکٹ تھمادئے ہیں ۔ایک مینڈیٹ کا ٹکٹ اور دوسرا ‘‘آل اِنڈیا دورے ’’ کا ٹکٹ۔
دُور غازیؔ سُلطان صاحب کے گاؤں میں زُونہء ماسی آستانے پہ خیرات بانٹ رہی ہے، کیونکہ پچھلے کئی دنوں سے نہ تو اُس کے ڈربے سے انڈے چوری ہوئے ہیں نہ مُرغیاں۔۔۔۔۔!!