از:جہاں زیب بٹ
جہاں عمر عبداللہ نے یو ٹی میں منعقد ہو نے والے اسمبلی الیکشن پر اپنا موقف کچھ ہی دنوں میں بدل دیا اور اب یہ دلیل دے رہے ہیں کہ اسمبلی کے ذریعے ہی ہم اسمبلی کو مضبوط بناییں گے وہیں پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے اپنا فیصلہ برقرار رکھتے ہویے کہا ہے کہ اسمبلی کا درجہ میو نسپلٹی کمیٹی سے زیادہ نہیں ہے ۔انھو ں نے نشا ندہی کی کہ وہ چیف منسٹر بن جاییں تب بھی یوٹی سیٹ اپ میں پارٹی کا ایجنڈا پورا نہیں کر سکیں گی۔ انھوں نے سابقہ دور حکومت کو یاد کیا جب انہوں نے بارہ ہزار نوجوانوں کے خلاف درج ایف آیی آر واپس لیے۔پرایم منسٹر مودی سے مل کر علاحدگی پسندوں کو بات چیت کے لیے مدعو کیا ،زمینی سطح پر جنگ بندی کرا یی جوان کے بقول آج ممکن نہیں ۔محبوبہ جی نے سچ ہی کہا کہ جب وہ بحثیت چیف منسٹر ایک ایف آئی آر واپس نہیں لے سکے توایسے عہدہ کا کیا فایدہ؟
یہاں دو نکتے لایق بحث ہیں اسمبلی کی بے اختیاری اور پارٹی ایجنڈا کی عمل آوری۔ کشمیر کی اسمبلی جس زمانے میں ریاست کےخصوصی درجہ کے تحت کام کررہی تھی اور جب یک جٹ ہو کر خصوصی پوزیشن مستحکم کر نے کے زبردست امکانات تھے تب کشمیری لیڈر اقتدار کے مزے لوٹنے میں مصروف تھے اور جب اختیارات کو مکمل طور پر چھینا گیا اور کشمیر کی از سر نو تشکیل کا قانون پارلیمنٹ نے پاس کیا تو سیاسی رعایتوں کے حصول کا امکان تاریک ہوگیا۔ جب کشمیر یو ں کے پاس کویی آءینی اختیار نہیں رہا تو این سی ،پی ڈی پی وغیرہ آسمان سے تارے تو ڈ کر لانے کی باتیں کررہے ہیں ۔این سی کو لیجیے اس نے دفعہ 370 کی واپسی کو انتخابی وعدوں میں سر فہرست رکھا اور اسکو گارنٹی زمرے میں رکھا ہے۔ لیکن یہ ایک پر فریب نعرہ ہے ،عوام کو بے وقوف بنا نے کا کھیل ہے۔جس دفعہ 370 کی واپسی کی مدت کا تعین کرنا ممکن نہ ہو اور نہ اس کے لیے موافق حالات اور طاقت دستیاب ہونے کی دور دور تک امید ہو بلکہ ایجنڈے کا ڈھنڈورا پیٹنے والا فاروق عبداللہ تک بول دے کہ اس میں سو سال لگ سکتے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ یہ معاملہ اتنا پیچیدہ ہے کہ اس کو گارنٹی فہرست میں رکھنے والا بھی محض ہوایی قلعے بنارہا ہے ۔اگر کویی کہے یہ قیامت تک کا معا ملہ ہے تو وہ بھی غلط نہیں ہے ۔ اگر کوئی پوچھے کہ جن حضرات نے مذکورہ ایجنڈا پر گپکار الاءنس بنایا اور الیکشن کی آمد سے پہلے ہی اس کا ستیاناس کیا وہ کس منہ سے سو سال تک لڑنے کی باتیں کرتے ہیں تو وہ غلط نہیں ہے۔فرضی اور خیالی ایجنڈے پر عوام کو آج تک بہت گمراہ کیا گیا عمریں ضایع ہویں ۔جیل اور قبرستان بھر گیے مگر حا صل کچھ نہیں ہوا۔لہذایہ سراب ہے جنون ہے اگر کویی لیڈر وہ ایجنڈا پیش کرے جس کی عمر سو سال ہو یا جس نے آب حیات پیا ہو ۔جو لیڈرفوری نوعیت کے عوامی مسایل سے تعرض نہ کرے یا انھیں ثانوی خانے میں رکھے وہ عوام کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا ۔کشمیر کو امن و آشتی ،ڈیولپمنٹ اور مکمل ریاستی درجہ کی بحالی کی ضرورت ہے اور یہ چیزیں فی الحال کافی ہیں اور قابل حصول ۔ مگرالمیہ یہ ہے کہ سیاستدان وہ مسئلے ایجنڈا میں رکھتے ہیں جس سے ان کو کبھی عوامی عدالت میں کھڑا ہو نے کا اندیشہ نہیں کہ ان کی عمر سوسال ،ہزار سال بلکہ وہ تا ابد ہیں ۔روزگار ،بجلی ،سڑک ،پانی،کرپشن،تعلیم ،صحت ،بلا جواز گرفتاریاں روکنا وہ چیزیں ہیں جن کاوہ وعدہ کریں تو کل کو لوگ گریبان پکڑتے ہیں اور وہ پانچ سال میں ہی ننگے ہو جا تے ہیں ۔بد نصیبی یہ ہےکہ ایجنڈا این سی کا ہو یا پی ڈی پی کا یا کسی اور کا یہ حقیر پارٹی مفادات اور سیاسی منافع پر مبنی ہے ۔ جب تک ایک مشترکہ قابل حصول قومی ایجنڈا نہ ہو کشمیری لیڈر عوامی جذبات کے استحصال کنندہ ہی کہلا یے جایں گے۔
این سی اور پی ڈی پی کے الیکشن ایجنڈے سو فیصد سچ ہیں نہ سو فیصد جواب دہی کے متقاضی ۔ سیاسی جماعتیں ٹھوس عوامی مد عو ں پر سیاست کرنے سے گھبراتے ہیں کہ اس کا حساب لگتا ہے ۔مسلہ کشمیر کا حل تو دور کی بات ریاستی درجہ کی بحالی کل پرسوں کی
با ت نہیں ۔لہذا ایجنڈا کے بہانے محبوبہ جی کا فرار درست فیصلہ نہیں ۔مبصرین کے مطابق پی ڈی پی کی پوزیشن اس بار اتنی مستحکم نہیں کہ حکومت ساز فیکٹر بن سکے۔ا س کا مطلب یہ ہے کہ محبوبہ جی کو پانچ سال انتظار کرنا ہی کرنا ہے اس لیے انھوں نے الیکشن سے الگ رہ کر فی الحال کے طور پر عمر عبداللہ کے مقا بلے میں اخلاقی سطح پر کھڑا ہونے کا تبو ت دیا ہے ۔ اس سے ان کی سیاسی صحت و تندرستی پر کیا اثر پڑے گا وہ تو آنے والا وقت ہی بتا دیگا۔