تحریر:سید عاشق حسین نوشہری
اسلام نے دو چیزیں کلی طور حرام کی ہیں ۔ ایک بے جا قتل وغارت دوسرا حرام کمائی ۔ تمام نیکیوں کی بنیاد حلال کمائی کو بنایا گیا ہے ۔ حرام کی کمائی کا ایک لقمہ بھی جسم میں داخل ہوجائے تو کسی بھی عبادت کی کوئی وقعت نہیں ہے ۔ لباس میں ایک دھاگا بھی حرام کا ہو تو نماز قبول نہیں ۔ حرام کی کمائی والے کے لئے روزہ داری کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ حرام کے مال پر کوئی زکوات نہیں ۔ حرام کی ایک پائی بھی مال میں شامل ہوتو حج پر خراچ کی جانے والی ساری کمائی خاک میں مل جانے کا خدشہ ہے ۔ یہی حالت دوسری عبادات کی ہے ۔ اسی طرح بے جا خون بہانے پر سخت وعید کی گئی ہے ۔ پہلی بار اسلام نے خون ناحق بہانے پر سزا مقرر کی ۔ اس حوالے سے اعلان کیا گیا کہ ایسا ایک قتل ساری انسانیت کا قتل ہے ۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے افعال پر اللہ کس قدر ناراض ہوتا ہوگا ۔ بلکہ ایسا خشم گین اللہ کبھی نہیں ہوتا جتنا بے جا قتل کرنے پر ہوتا ہے ۔ قتل اور حرام ایسے دو فعل ہیں جن کی سختی سے مخالفت کی گئی ہے ۔ بدقسمتی سے آج یہی دو چیزیں عام ہیں ۔ بلکہ مسلمانوں کی پہچان بن گئی ہیں ۔ ایک طرف بے دردی خون بہایا جاتا ہے ۔ دوسری طرف حرام کی کمائی کا رجحان عام ہے ۔ قتل وغارت بھی جاری ہے اور رشوت ستانی کا چلن بھی عام ہے ۔ ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جب کسی نی کسی سرکاری ملازم کو رشوت لیتے نہ پکڑا جاتا ہے ۔ یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ لوگ ماتم میں مصروف ہیں اور ملازم رشوت لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ جب سے انسداد رشوت ستانی کے محکموں نے اپنے کام میں سرعت لائی ہر روز یہ خبریں سامنے آتی ہیں کہ سرکاری ملازم کو رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ۔ اس اطلاع سے سب حیران ہوکر رہ جاتے ہیں ۔ رشوت کی اس قدر لت پڑ گئی ہے کہ لوگ کسی بھی قانون ، پولیس یا دوسرے اداروں سے ڈرتے نہیں اور پکڑے جانے کے خطرے کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ اس کی ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ ایسے ملازموں کو کسی نہ کسی مرحلے پر چھوٹ جانے کا یقین ہوتا ہے ۔ کسی ملازم کو اس بات کا خدشہ ہو کہ رشوت لیتے ہوئے پکڑے جانے کی صورت میں اس کی نوکری چلی جاسکتی ہے ۔ تو کوئی ملازم رشوت لینے کی جرات نہیں کرسکتا ہے ۔ اس کے باوجود دہم دیکھتے ہیں کہ آج ایک ملازم کو گرفتار کیا گیا تو کل دوسرا اسی جال میں پھنس جاتا ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسے ملازموں کو پکڑے جانے یا سزا ملنے کا کوئی خدشہ نہیں ہوتا ۔ پچھلے ایک مہینے کے دوران کئی ایک ملازموں کو رشوت لیتے ہوئے پکڑا گیا ۔ ایسی باتوں کا بڑے پیمانے پر چرچا ہوا ۔ اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے ۔
قتل اور رشوت بڑی ہی ہیبت ناک چیزیں ہیں ۔ ان میں ملوث ہونا بڑی شرمندگی کی بات ہے ۔ سارے مذاہب ان باتوں کے خلاف ہے ۔ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔ ان حرکتوں کو روکنے کے لئے کئی ادارے موجود ہیں ۔ پولیس اور فوج ان کے خلاف کمر بستہ ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ دونوں عمل بڑے پیمانے پر جاری ہیں ۔ پچھلے ایک مہینے سے یہاں ایسی حرکات بڑے پیمانے پر ہورہی ہیں ۔ اسلام کا واضح حکم ہے کہ ان حرکات سے باز آجائو ۔ ان کاموں سے دور رہو ۔ ان سے نہ صرف دنیا کے برباد ہونے کا خدشہ ہے بلکہ آخرت میں سخت عذاب کی دھمکی دی گئی ہے ۔ واضح ارشاد ہے کہ تمام گناہ معاف ہوسکتے ہیں ۔ لیکن بے گناہ کا قتل اور لوگوں کا حق اللہ معاف نہیں کرے گا ۔ ایسے گناہ سرزد ہونے کی صورت میں مقتول کے ورثا اور غضب شدہ مال کے حقدار معافی دلاسکتے ہیں ۔ یہ مشکل ترین کام ہے ۔ بلکہ نانمکن معلوم ہوتا ہے ۔ آج تک کسی کو یہ سنتے نہیں دیکھا گیا کہ میں اپنے باپ کے قاتلوں کو معاف کیا ۔ ایسی کوئی مثال ہمارے یہاں نظر نہیں آتی کہ کسی نے اپنے بیٹے یا بیٹی کے قاتلوں کو کہا ہوکہ جائو میں نے تمہیں معاف کیا ۔ کسی کا بیٹا حادثے میں مارا جائے تو ساری زندگی اس کو افسوس رہتا ہے ۔ کسی کی بیٹی سسرال میں قدرتی موت بھی مرجائے تو اس کے ساس سسر کے خلاف دل میں شبہہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ ہسپتال میں کوئی رشتہ دار مرجائے تو ڈاکٹروں کو قصوروار قرار دیا جاتا ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی کا عزیز ٹارگٹ بناکر مارا جائے ۔ کسی کا کام انجام دینے کے لئے اس سے ہزار دو ہزار روپے لئے جائیں تو ساری عمر وہ معاف نہیں کرتا ۔ پھر اللہ کے یہاں عدل وانصاف قائم ہوجائے تو ایسے موقعے پر کسی کی طرف سے معاف ہونے کا امکان نہیں ۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم ایسے موقعے پر ایمان رکھتے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ ایک نہ ایک دن ایسی عدالت میں کھڑا ہونا پڑے گا ۔ پھر بھی ہم اس کے لئے تیاری نہیں کررہے ۔ بلکہ الٹا اس روز کو بگاڑنے کا سامان پیدا کررہے ہیں ۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ خون کی ندیا بہاکر الٹا اسے دین کا کام قرار دیتے ہیں ۔ رشوت کے مال سے اپنی بینک بیلنس بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن یہ احساس نہیں کہ اگلی دنیا میں یہی چیز ہمارے لئے اللہ کے غضب کی باعث بن سکتی ہے ۔ ہم بڑی تیزی سے رشوت بٹوررہے ہیں ۔ اس کے لئے ہاتھ پائو ں ماررہے ہیں ۔ اس کے باوجود اسلام کے غازی اور سپاہی بنے ہوئے ہیں ۔ اس سے بہتر ہے کہ اسلام کا نام نہ لیں ۔ ایسے کرکے ہم نہ صرف اپنی آخرت برباد کررہے ہیں بلکہ اسلام کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہیں ۔ جنہیں ہم اللہ کا باغی قرار دے رہے ہیں وہ رشوت نہیں لیتے ۔ لیکن اللہ کے پیارے اور اسلام کے محافظ لوٹ کھسوٹ میں لگے ہیں ۔
