
عورت! کہنے کو ایک عام و چھوٹا سا لفظ ہے۔جسے کوئی سمجھے تو کہانی ورنا بے معنی۔ عورت بزاتِ خود ایک گہرا راز ہے جسے کوئی سمجھ نہیں سکتا کیونکہ یہ کسی پر بھی خود کو پوری طرح عیاں نہیں کرتی۔مگر عورت جتنا مضبوط بھی کوئی نہیں۔ہمارے معاشرے میں کوئی بھی کام چاہیے وہ گھریلو ہو یا سماجی، عورت اسے بخوبی سرانجام دیتی ہے۔دل سے چاہے نرم و نازک ہی سہی،لیکن اللہ کی بنائی ہوئی مضبوط تخلیق ہے۔عورت ہر صورت میں قوموں کی تہذیب و شائستگی کی زندہ علامت رہی ہے۔اس کی ہزاروں صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر اس کو ایک سچے اور ایماندار دوست کی شکل میں دیکھتے ہیں تو اس کے وجود میں ساری سچائی ایمانداری اور خلوص ملتا ہے۔گویا عورت کائنات سنوارنے کی اہل ہے۔وہ معاشرے کی نصف آبادی کا حصہ ہے۔
اس کے باوجودعورت ازل سے ہی معاشرے میں اپنی شناخت کروانے کی جدو جہد کرتی آئی ہے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ماضی بعید سے وہ اپنی پہچان کے لئے جدوجہد کرتی رہی ہے جس کے لیے مرد نے عورت کا بھر پور استحصال کیا۔مرد کی اجارہ داری سماج میں قائم اور دائیم ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ دور جدید کی عورت مرد کا مقابلہ بڑھ چڑھ کر رہی ہے چاہیے۔تعلیمی میدان ہو کھیل کا میدان یا مقابلے کا امتحان ہو۔ اس کے باوجودوہ مسلسل استحصال کی شکار ہے۔دورجدید کی عورت دو محازوں پر (سماجی اور خانگی) فرائض ادا کرتے کرتے ذہنی استحصال کا شکار ہوئی ہے۔ایک مشہور قول ہے کہ’مرد تعلیم یافتہ ہے تو معاشرے کا ایک فرد تعلیم یافتہ ہے اس کے برکس اگر ایک عورت تعلیم یافتہ ہے تو پورا خاندان تعلیم یافتہ ہے‘۔
اس سے عورت کا معاشرے میں مقام ظاہر ہوتا ہے۔عورت پر ڈھائے جانے والے مظالم کسی خاص طبقے،مذہب یا قوم میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں موجود ہیں۔آج بھی وہ مقام جو عورت کو حاصل ہونا چاہیے وہ نہیں ہے۔ آج بھی خواتین کو مردوں سے کم تر سمجھا جاتا ہے۔انہیں بہت کم اہمیت دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کا حوصلہ ٹوٹتا چلا جاتا ہے۔دنیا کی کوئی بھی قوم تب تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کی مستورات مردوں کے ساتھ ساتھ شانہ بشانہ کھڑی نہ ہو۔عورت میں وہ طاقت وہ صلاحیت ہے کہ کوئی بھی دشواری ہو وہ اس کا سامنا ڈٹ کر کر سکتی ہے۔ بے خوف آزاد ہو کر جی سکتی ہے۔ بس ضرورت ہے تو صرف احساس کی۔اس کی اہمیت کو سمجھنے کی۔اس کو وہ مقام اور عزت دینے کی جس کی وہ اصل حقدار ہے۔
ہر ایک مذہب میں خواتین کو اعلیٰ درجہ دیا جاتا ہے جو کہ ہونا بھی چاہیے۔یہ حقیقت ہے کہ خواتین کے ساتھ شہزادیوں کی طرح سلوک کرنا چاہیے اگر یہ شہزادیاں ہیں تبھی دنیا ممکن ہے ورنہ خواتین کے بغیر یہ دنیا نامکمل ہے۔موجودہ دور میں جہاں ایک طرف حکومت کی جانب سے خواتین کو ریزرویشن دیکر انہیں آگے بڑھنے کا موقع دیا جاتا ہے وہیں خواتین بھی اس کا فائدہ اٹھا کر اپنی قابلیت کودنیا کے سامنے لارہی ہیں۔ اس وقت خواتین سیاست کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کا بھی ایک حصہ بن چکی ہے۔کئی ایک خواتین اس وقت ڈی ڈی سی،بی ڈی سی،سرپنچ،اراکین اسمبلی اور پارلیمنٹ کی کرسیاں سنبھالی ہوئی ہیں اور کئی ایک انتظامیہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔یہاں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین مرد کے ساتھ کندے سے کندا ملا کر چل رہیں ہیں۔
اس سلسلے میں ضلع ریاسی کی ڈی ڈی سی وائس چیئر پرسن ایڈوکیٹ سجرہ قادر نے خواتین کی ترقی کے تعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے ڈی ڈی سی الیکشن لڑا تھا وہ گلابگڑھ حلقہ سے بھاری تعداد میں ووٹ لیکر کامیاب ہوگئیں اور اس کے بعد وہ ڈی ڈی سی وائس چیرئرپرسن بھی بنی۔ جہاں اب وہ پورے ضلع کے لوگوں کی خدمت کر رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو کبھی بھی کمزرو نہیں سمجھنا چاہیے کیوں کہ ایک مرد کو مظبوط بنانے کے پیچھے ایک خواتین کا ہی ہاتھ ہے۔ایڈوکیٹ سجرہ نے خواتین پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے حقوق کی لڑائی کیلئے آگے بڑھیں اور خود کو کامیابی کی سمت لیکر چلیں۔پنچایت نہوچ کی سرپنچ گلشن بانو نے کہا کہ ایک خاتون بھی اپنی سماج کی خدمت کر سکتی ہے اگر اس کو موقع دیا جائے۔انہوں نے مزید نے کہا کہ جب سے وہ سرپنچ بنی ہیں انہیں معلوم ہوا کہ خواتین بھی کس طرح سے سماج کی خدمت کر سکتی ہیں بس شرط یہ ہے کہ انہیں موقع دیا جائے۔
جموں یونیورسٹی کی ایک طالبہ سونالی بالی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک خاتون کو تعلیم یافتہ بنانا پورے سماج کو تعلیم دینے کے برابر ہے۔انہوں نے کہا خواتین ہی پورے سماج کو بھلائی کی اور لے جا سکتی ہیں۔ اگر خواتین کو آگے نہ پڑھنے دیا جائے تو یہ سماج سینکڑوں سال تک ترقی نہیں کر سکتا ہے۔آمنہ مٹو جومسابقتی امتحانات کے لئے پڑھائی کر رہی ہیں،نے کہا کہ موجودہ دور میں بھی سماج کے کچھ طبقے ایسے ہیں جو خواتین کو تعلیم حاصل کرنے یا آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں جس وجہ سے کئی ایک خواتین ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتی ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ اس وقت خودکشی کے معاملات بڑھتے جارہے ہیں جس سے واضح ہے کہ کہیں نا کہیں خواتین ذہنی شکار ہونے کے بعد اس طرح کے قدم اٹھاتی ہیں۔انہوں نے کہاکہ خواتین کو آگے بڑھنے کی اجازت دی جانی چاہئے تاکہ سماج ترقی کی اور بڑھ سکے۔جموں ضلع کے بھٹنڈی کی ایک خاتون مہرالنساء نے کہا کہ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کے ہاں ایک بچہ بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ گھر کو بھی سنبھال رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ میں وہ ایک اسکول میں درس بھی دے رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پہلے وقت میں خواتین باپ،بیٹے،بھائی یا خاوند پر انحصار رہتی تھیں جس سے خواتین کو کافی مشکلات سے گزرنا پڑتا تھا۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو ہر میدان میں آگے بڑھنا چاہیے تاکہ وہ بھی آزادی کی زندگی بسر کرے اور کسی پر انحصار نہ رہے۔
خواتین کو اگر موقع دیا جائے تو وہ کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں ہو سکتی بالکہ مرد کے شانہ بشانہ چل سکتی ہیں جس کی کئی ایک مثالیں وطن عزیز میں دیکھنے کو ملتی ہیں جہاں کئی خواتین بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ضرورت صرف اپنے ذہن کو بدلنے کی ہے۔ اس سوچ کو جڑ سے ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ عورت کمزور ہے۔دراصل کمزور عورت نہیں بلکہ معاشرے کی سوچ ہے اور اب اسی سوچ کو بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ (چرخہ فیچرس)
