تحریر:اعجاز مجید
گرمی کے موسم میں ان اشیاء کے کھانے پینے کو انسان بہت ہی پسند کرتا ہے جو بدن کو ٹھنڈک دیتے ہیں۔ انسان کا بدن گرمی میں سرد اور سردی میں گرم چیزوں کی آرزو کرتا ہے۔موسم گرما میں جب گرمی اپنے عروج پر ہوتی ہے تب انسان مختلف تدابیر اختیار کرتا ہے تاکہ وہ جھلستی ہوئی گرمی سے راحت پا سکے۔ چونکہ گھر سے باہر جانا، روزی کی تلاش میں ، مختلف کاموں کے سلسلے میں انسان کی مجبوری ہوتی ہے۔اس لیے وہ اپنے گھر میں ہر وقت پنکھے کے نیچے رہ کر کُولرز وغیرہ کا سہارا لے کے گرمی سے نہیں بچ سکتا ہے۔مزدور طبقہ بہرصورت اپنے گھر سے باہر شدت کی گرمی میں بھی مزدوری کرتے ہیں۔ اپنا خون پسینہ ایک کرکے اپنے اہل و عیال کو کھلاتے پلاتے ہیں۔ کئی اشخاص ٹھنڈا پانی خرید کر پیتے ہیں ۔کچھ کولڈ ڈرنکس کا سہارا لیتے ہیں اور کچھ آئسکریم سے اپنے بدن کو ٹھنڈک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ان سب تدابیر کا اثر دیرپا نہیں ہوتا ہے تاہم وقتی راحت مل ہی جاتی ہے۔
گرمی کے موسم میں جگہ جگہ آئسکریم دستیاب ہوتی ہیں۔ آئس کریم کی سینکڑوں اقسام ہیں سستی بھی اور مہنگی ترین آئس کریم بھی قریہ قریہ دستیاب ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ اپنے سائیکل کے پیچھے ایک ڈبہ لے کر گاؤں گاؤں جاکے آئسکریم بیچ دیتے ہیں۔کچھ رکشا لے کر بیچتے ہیں اور کئی جگہوں پر آئس کریم کی مستقل دکانیں ہوتی ہیں۔چھوٹے بچے اکثر اس وقت زیادہ ضد کرتے ہیں جب ان کی نظریں آئسکریم پر پڑتی ہیں۔ بچوں کی ضد اور ان کا رونا ہر صورت ان کے پیاروں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ان کی مانگ کو پورا کریں۔ ماں باپ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی خوشی کے خاطر ہر وہ چیز انہیں دستیاب کرتے ہیں جن سے وہ اپنے چھوٹوں کو ہنستا کھیلتا دیکھ سکیں۔چھوٹے بچے گھر میں کس کو پیارے نہیں ہوتے ہیں۔ ان کی توتلی باتیں ان کا ہنسنا ان کا کھیلنا ہر اداس چہرے پر مسکان لاتا ہے۔
نماز مغرب ادا کرنے کے بعد شاہد اپنے چھوٹے بھائی کی ضد کو پورا کرنے کے لئے اس کے لیے آئسکریم لانے کے لیے دکان پر گیا ۔ شاہد اپنے چھوٹے اور خوبصورت بھائی سے بہت پیار کرتا تھا۔ شاہد خود نہایت حلیم، خوبصورت اور خوب سیرت نوجوان تھا۔ وہ ایک سال کے بعد اپنی گریجویشن مکمل کرنے والا تھا۔ وہ دینی کاموں میں پیش پیش رہتا تھا۔ خدمت خلق کا جذبہ اس کے وجود میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اپنے ماں باپ کو نہایت آرام پہنچاتا تھا کیونکہ اب وہ گھر کے تقریباً سارے کام خود انجام دیتا تھا۔ کسی کی ایک پکار پر بھی وہ اپنی جان کو حاضرِ خدمت رکھتا تھا۔ شاہد چھوٹے بچوں سے بہت پیار کرتا تھا۔اپنے چھوٹے بھائی شعیب سے وہ اس قدر پیار کرتا تھا کہ وہ جہاں کہیں بھی جاتا اسے اکثر وہ اپنے ساتھ لیتا۔ اس دفعہ وہ اس کے بغیر اسی کے لیے آئسکریم لانے کی غرض سے نماز مغرب کے فوراً بعد دکان پر پہنچا۔ راستہ میں اسے چند دوست ملے ۔ان سے سلام دعا کے بعد وہ آئسکریم لے کے گھر کی طرف نکلے ۔ اس نے اپنے گھر کی جانب چند قدم ہی اٹھائے تھے کہ اسکے ہم عمر ساتھی ملے ۔ جنکی عادت تھی کہ وہ شام کے وقت دن بھر کی مختلف کاموں کی تھکان کے بعد آپس میں چند لمحے اکٹھے گزارتے تھے اور نماز عشاء سے قبل ہی اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوتے تھے ۔ آج شاہد کو موقع ہی نہیں ملا کہ وہ انکے ساتھ کچھ لمحے گزار سکے کیونکہ وہ آئسکریم اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے تھے ۔ وہ ان سے رخصت ہی ہورہا تھا کہ انہوں نے گولیوں کی آواز سنی ۔ وہ سب بیک وقت ادھر ادھر بھاگنے لگے ۔ شاہد نے بھی جلدی سے اپنا راستہ لیا۔ لیکن شاہد کو کیا خبر تھی کہ آگے اسکے لیے موت کا پہرہ لگا ہوا تھا۔ وہ دوڑ ہی رہا تھا کہ اسکے بدن پر چند گولیاں لگیں جس سے وہ پھر کہیں بھاگ نہ سکا ۔ دائیں بائیں اسکے چند اور ساتھیوں کو بھی گولیاں لگیں۔ وہ زخمی حالت میں ہی ادھر ادھر بھاگ سکے اور وہ بعد میں بچ گئے۔ شاہد کو نہ جانے کیا سمجھکر کوئی اس کے قریب بھی نہیں گیا۔ شاہد نہتا تھا اسکے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا سوائے آئسکریم کے جو اسکے ہاتھ میں ہی پگھل گئی۔ نہ جانے کیوں گولیاں چلانے والوں کو وہ آئسکریم اتنا بڑا ہتھیار لگا کہ انہوں نے شاہد کے بدن کو گولیوں سے چھلنی کیا۔ دیکھنے والے جب بہت وقت گزرنے کے بعد انکے قریب پہنچے تو دیکھا کہ شاہد کے ہاتھ میں ہتھیار نہیں تھا بلکہ ایک آئسکریم تھی جو اب پگھل بھی چکی تھی مگر اسنے اسے ہاتھ میں مضبوطی سے تھاما تھا ۔ وہ شاید ابھی بھی اپنے بھائی کو دینا چاہتا تھا۔ یوں شاہد نے اسی طرح شہادت دی اور جام شہادت نوش فرما کے ہم سے رخصت ہوئے۔ اگرچہ اس نے بہت زیادہ کوشش کی وہ جلدی گھر پہنچکر اپنے بھائی کو وہ آئسکریم دے۔ اس بار بلکہ آخری بار وہ اپنے چھوٹے بھائی کی خواہش پوری نہیں کر سکا۔ اس طرح اگرچہ شاہد نے چند روپیہ کے عوض یہ آئسکریم اپنے بھائی کے لئے لی تھی مگر یہ آئسکریم نہایت ہی مہنگی ترین ثابت ہوئی۔
