تحریر: قاضی سلیم الرشید
پچھلے کچھ عرصہ سے وادی کی مشہور جھیل آنچار بھی شہرہ آفاق ڈل جھیل اور ایشیا کی سب سے بڑے جھیل ولر کی طرح حکومت کی بے رخی اور لوگوں کے غیر قانونی اورجبری قبضہ کا شکار ہورہی ہے۔ سرینگر کے شمال مشرق میں صورہ میڈیکل انسٹیچیوٹ کے عقب میں واقع کشمیر کی یہ مشہور جھیل اب سکڑ کر صرف چند مربع کلومیٹر تک ہی محدود ہوکے رہ گئی ہے۔ گزشتہ صدی اسی کی دہائی میں یہ خوبصورت جھیل کچھ عرب ملکوں خصوصا” سعودی عرب کی نگاہوں میں آگئی تھی اور نسبتا” اس چھوٹی مگر خوبصورت جھیل کو ایڈاپٹ( Adopt)کرنے کرنےکی منصوبہ بندی ہورہی تھی۔ حتی’ کہ مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی سربراہی حکومت کے دوران سعودی حکومت نے اس جھیل کو عالمی سطح کا ٹورسٹ سپاٹ بنانے کے لۓ بھر پور مالی معاونت کی پیشکش بھی کی تھی۔ جسے اسوقت کی مرکزی سرکار نے سیاسی وجوہات کی بنا پر نامنظور کیا تھا۔ بعد میں ریاستی سرکار نے از خود اس جھیل کو سیاحتی طور بڑھاوا دینے کے لۓایک بڑا جامع پروجیکٹ تیار کیا۔ ریاست کے ایک نامور صنعت کار مرحوم غلام محمد خان المعروف کل خان کو یہ پروجیکٹ الاٹ بھی کیا گیا تھا۔ مرحوم خان صاحب نے اپنی رہائش گاہ واقع صورہ کے قریب ابتدائی طور چند ہٹیں بھی تعمیر کیں تھیں۔ لیکن نہ جانے آچانک کیا ہوا کہ پروجیکٹ پر کام روک دیا گیا اور کچھ عرصہ کے بعد ا سے منسوخ ہی کیا گیا۔ بہرحال آج یہی عالمی شہرت یافتہ جھیل آخری سانسیں لیتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ اس وسیع و عریض جھیل کی زمین پر حد نظر تک صرف رہائشی مکانات ہی نظر آرہےہیں۔ جھیل کے چپے چپے پر نئی نئی کالونیاں وجود میں آگئ ہیں۔ سرینگر کے پرانے شہر کے ساتھ ایک نیا ہی شہر وجود میں لایا گیا ہے۔ آنچار جھیل کو دو تین کلو میٹروں کے رقبہ تک ہی محدود کرکے رکھا گیا ہے۔ یوں تو حکومت نے اس کے ارد گرد کے ایک وسیع علاقے کو گرین بلٹ قرار دے کر ہر قسم کی نجی تعمیر پر روک لگائی ہے لیکن زمینی سطح پر ہزاروں غیر قانونی تعمیرات کھڑا کۓ گۓ ہیں اور ہر روز ان میں اضافہ ہی ہوتاجارہا ہے۔ گرین بیلٹ کی جگہ اسے ہاوسنگ بیلٹ کہا جاۓ تو بےجا نہ ہوگا۔ ستم ظریفی یہ کہ وقت کی اس مشہور آبی پناہ گاہ کو جبری قبضہ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔چند خود غرض اور ناعاقبت اندیش لوگوں نے اس کی نیلامی شروع کرلی ہے۔ ان خود غرض لوگوں نے دور دراز علاقوں سے آۓ ہوۓ لوگوں سے پیسہ وصول کرکے اس کے ارد گرد کی زمین کو بیچا ہے۔۔ چند مقامی خود غرض عناصر اور متعلقہ محکمہ جات کے کارندوں کے ساتھ ملی بھگت کرکے غیرقانونی طور قبضہ جما کر بڑے بڑے تعمیرات کھڑا کۓ گۓ ہیں۔ ہزاروں کنال زمین پر بڑے بڑے مکانات تعمیر کرکے اس خوبصورت جھیل کا حلیہ ہی بگاڑ کے رکھ دیا گیا ہے۔ جھیل کا وجود ہی کہیں دکھائی نہی دیتا ہے۔ احمد نگر کے عقب میں اور پاندچھ کے ساتھ لگنی والی جھیل کی ایک وسیع اراضی پر ناجائز قبضہ کرکے اس کو ایک بڑی کالونی میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔اور گوجر نگر نام رکھا گیا ہے۔ان ناجائز تعمیر شدہ مکانات کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کی گئیں ہیں۔بجلی، پانی سڑک وغیرہ پورے طور دستیاب بنائ گئی ہیں۔ اب تو سکول اور ہسپتال کی سہولیات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔ یہاں کے مقیم باشندوں کو ایسی سہولیات کہاں دستیاب ہیں جو ان راجوری پونچھ وغیرہ دور دراز علاقوں سے آۓ ہوۓ قابض لوگوں کو میسر رکھی گئی ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک خاص منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔ وقت آنے پر گاندربل کی اسمبلی کانسچونسی کو بھی شیڈول ٹرایب ST کے زمرے میں لایا جاسکتا ہے۔ حکومت اور اس کے ادارے اس سارےمنصوبہ کےمعاون لگ رہے ہیں۔ایک طرف جموں کے جنگلاتی زمین کو ناجائز قبضہ سے چھڑانے کی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری جانب کشمیر کے آبی ذخائر کی نیلامی کی جارہی ہے۔ گورنر انتظامیہ نے حال ہی میں کچھ مخصوص سکولوں کو سرکاری زمین اور کاہچرائ رقبہ سے بے دخل کرنے کا کام شدومد سے ہاتھ میں لیا ہے اور متعلقہ محکمہ جات اسے ناجائز قبضہ جتلاکر فی الفور ہٹانے پر بضد ہیں۔ وہیں ریاست کے اس مشہور جھیل اور آبی پناہ گاہ پر غیر قانونی اور جبری قبضہ کرنے والوں کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ یہ دوغلا پن کیوں؟ پھر تو عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ اس سابقہ ریاست کی عزت کے ساتھ جان بوجھ کر کھلواڑ کیا گیا اور اب اس کی سر زمین کو سر عام نیلام کیا جارہا ہے۔ آنے والے کل میں یہاں کے انسانوں کی نیلامی کو کون روک سکتا ہے؟
بے بسی بھی ایک عذاب ھے یا رب —- لیکن کب تک ؟
