تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
حج کے ان ایام کے دوران حجاج کو بڑی محنت اور جد و جہد کرنا پڑتی ہے ۔ اس سال حکام نے 56 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کے لئے حج کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا ۔ بڑے بوڑھوں کے لئے حج کرنا نہ صرف اپنے لئے مسئلہ تھا بلکہ اس کا انتظام کرنے والوں خاص کر حکومت کے لئے ایک بڑی پرابلم سمجھی جاتی تھی ۔ ان کو حج کے دوران بہت سی سہولیات بہم پہنچانا پڑتی تھیں ۔ اس طرح کے جوکھم میں پڑنے کے بجائے حکم صادر کیا گیا کہ ایسی عمر کے لوگ حج کو نہ آئیں ۔ اس حوالے سے اندازہ ہے کہ مقامی لوگوں کو چھوڑ کر جو لوگ حج کو آئے ہیں وہ تندرست ہیں اور ان کی صحت بھی اچھی ہے ۔ انہیں حج کے دوران زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔ اس سال دس لاکھ سے زیادہ لوگ باہر کے ممالک سے حج کے لئے مکے میں موجود ہیں ۔ اتنے ہی مقامی اور آس پاس کے علاقوں سے بھی تشریف لائے ہیں ۔ ان کے لئے منیٰ اور دوسرے مقامات پر خیم بستیاں سج گئی ہیں ۔ بڑی چہل پہل بتائی جاتی ہے ۔ اتنی بڑی تعداد میں کسی ایک مقام پر لوگوں کا موجود ہونا عالمی ریکارڈ ہے ۔ دنیا کے کونے کونے سے لوگ آئے ہیں ۔ ان میں کالے بھی ہیں اور گورے بھی ۔ اردو بولنے والے بھی اور پنجابی زبان میں بات کرنے والے بھی ۔ عربی بھی اور عجمی بھی ۔ ان پڑھ بھی اور پڑھے لکھے بھی ۔ جانے پچانے بھی اور انجان بھی ۔ مشرقی بھی اور مغربی بھی ۔ شمال سے بھی آئے ہیں اور جنوب کے رہنے والے بھی ۔ دوست بھی اور دشمن بھی ۔ سنی بھی اور شیعہ بھی ۔ حنفی بھی اور حنبلی بھی ۔ دیوبندی مکتبہ فکر کے بھی اور اہلحدیث بھی ۔ اعتقادی بھی اور توحیدی بھی ۔ غرض ہر زبان ، ہر رنگ ، ہر فکر ، ہر سوچ ، ہر قوم اور نسل کے عازمین حج مکہ شریف موجود ہیں ۔ ان کی زبان ، بیان ، اٹھنا بیٹھنا اورتہذیب و تمدن سب کچھ الگ الگ ہے ۔ لیکن سب ایک ہی کلمے کی بنیاد پر اور ایک ہی تلبیہ زبان پر لئے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ سب کی ایک ہی طلب ہے ۔ سب کی ایک ہی تمنا ہے ۔ اے اللہ ہم تیری بارگاہ میں آئے ہیں ۔ تیرے بلانے پر حاضر ہیں ۔ تیرا کوئی شریک نہیں مانتے ۔ تیرے در پر حاضر ہیں ۔ تیرا حمد و ثنا کرتے ہیں ۔ یہ اور اس طرح کی دوسری آوازیں دے کر سب حجاج اپنے حال و قال سے اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا مقصد ایک ہے ۔ ہمارا نعرہ ایک ہے ۔ ہمارا مرکز ایک ہے ۔ ہمارا جھنڈہ ایک ہے ۔ ہماری منزل بھی ایک ہے ۔ حج کے ایام کے دوران دس بیس لاکھ حجاج اس بات کا اعلان کرتے ہیں ۔ اللہ کے گھر میں یہ نعرہ لگاتے ہیں ۔ اللہ کو گواہ بناکر اپنا مقصد بتاتے ہیں ۔ حج کے ایام کے دوران بار بار اس بات کو دہراتے ہیں ۔ کعبے سے لپٹ لپٹ کر وعدہ کرتے ہیں ۔ غلاف کعبہ کو چوم کر اس کی دہائی دیتے ہیں ۔ کعبے کے درودیوار سے چمٹ کر ان باتوں کا اعادہ کرتے ہیں ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ایام حج گزرنے کے بعد ان باتوں کو بھول جاتے ہیں ۔ ایسی باتوں کو یاد نہیں رکھتے ۔ کعبے اور کعبے کے معبود سے کئے گئے وعدے سب بھول جاتے ہیں ۔ احرام باندھ کر امت مسلمہ کے ایک ہونے اور اس کا وفادار ہونے کا اعلان کرتے ہیں ۔ لیکن احرام نکال کر اور حرم شریف کے حدود سے باہر آتے ہی سب کچھ بدل دیتے ہیں ۔ ساری زندگی کا رنگ ہی بدل دیتے ہیں ۔ و رنگ جو اللہ کا پسندیدہ رنگ ہے اس کو چھوڑ چھاڑ کر گھر پہنچ جاتے ہیں ۔ یہاں فتنہ فساد میں لگ جاتے ہیں ۔ امت کو پارہ پارہ کرنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں ۔
اسلامی عبادات میں حج ایک مشکل ترین مرحلہ ہے ۔ اس کے مناسک سخت محنت کے طلبگار ہوتے ہیں ۔ اس سال کرونا کے دو سالوں کے وقفے کے بعد حج میں پورے عالما سلام بلکہ پوری دنیا سے مسافر شریک ہورہے ہیں ۔ کورونا کے پروٹوکال میں بہت نرمی آگئی ہے ۔ بڑے پیمانے پر ڈھیل دی گئی ہے ۔ عالمی وبا کی صورتحال کے دوران حج پر بھی پابندی لگادی گئی تھی ۔ اس وجہ سے بہت سے لوگ حج کی حسرت دل میں لئے اس دنیا سے چلے گئے ۔ ان کے حج کرنے کی آرزو پورا نہ ہوسکی ۔ اس کے برعکس اس سال دس سال سے زیادہ لوگ حج کے قافلے میں شامل ہیں ۔ ان کی مکے اور مدینے میں موجود گی ایک بڑا خوش آئند وقت ہے ۔ ان دوست احباب اور جان پہچان کے لوگ بڑی بے تابی سے ان کا انتظار کرتے ہیں ۔ کچھ چاہتے ہیں کہ یہ مارے لئے دعاء مغفرت کریں ۔ کئی ایک ان سے ملنے والے تحائف کے لئے بے چین نظر آتے ہیں ۔ حج کی اصل غرض و غایت دعوتوں ، تحائف اور رنگ رلیوں کے نظر ہوجاتی ہے ۔ بہت کم حاجی صاحبان ہیں جو مغفرت کی دولت لے کر واپس گھر آجاتے ہیں ۔ انہیں پہلے ہی دن سے اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ گھر کے لئے کیا کچھ ساتھ لائیں ۔ دوستوں کے درمیان کیا کیا بانٹنے کے لئے تھیلوں میں لائیں ۔ عزیز و اقارب میں سے کس کو کیا کچھ دیا جائے ۔ وہ دن اور راتیں جو اللہ کی یاد ، نبی پر درود اور دوست احباب کے لئے دعائو ں میں گزرنی چاہئے وہ گھڑیاں خریداری کی فہرست تیار کرنے میں صرف ہوتی ہیں ۔ وہ راتیں جو تہجد اور دعائوں میں گزرنی چاہئے بیوی بچوں کے لئے تحائف کی پسند اور ناپسند سمجھنے میں گزرجاتی ہیں ۔ آئے اس بات کا تہیہ کریں ک حج کا اصل مقصد ، اس کی غرض و غایت اور اس کے فلسفے کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ یہ کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ۔ بلکہ بڑی آساب بات ہے ۔ اس کے لئے اللہ کی آیات اور نبی ؐ کی رہنمائی موجود ہے ۔ لیکن ہم ہی ہیں جو اس طرف توجہ نہیں دیتے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان احکامات کی پیروی کی جائے ۔
