تحریر:محمد انیس الرحمٰن خان
گذشتہ دنوں ریاست کرناٹک کے فصیل بند شہر بیجاپور کے ایک پسماندہ محلہ افضل پور ٹکے کی اکھڑ کھابڑاور پتھریلی سڑک پر ایک کمر جھوکی ضعیفہ پر میری نظریں جمع گئیں، تقریباً ستر سالہ بزرگ خاتون اپنے پیروں کو نکیلے پتھروں سے محفوظ رکھنے کے لئے پھٹی اور بے رنگی چپلیں پہن کر جھکی کمر پرہری گھانسوں کا ایک گٹھراُٹھائے لاٹھی کو اپنی ضعیفی کا سہارا بناکر کچھ قدم آگے بڑھاتی اور پھر چلچلاتی دھوپ میں تھک کر کسی درخت کے سائے میں بیٹھ جاتی، کچھ دیر بعد پھر آگے کا سفر طے کرنے کے لئے اپنی جیون ساتھی لاٹھی کو حرکت دے کر اس کے سہارے اُٹھ کھڑی ہوتی۔
مذکورہ منظر دیکھ کر اپنے آپ کو روک نہ سکا، ساتھیوں سے کچھ وقت نکالااور ضعیفہ کے قریب جاکربات کرنی چاہی، مگر ہم دونوں کے درمیان زبان حائل ہوگئی، میں نے ضعیفہ سے ہندوستانی (اردو، ہندی)زبان میں سوال کیا،تو وہ حیرت سے میری طرف دیکھتی رہی اور جب اس نے اپنی مادری زبان کنڑ میں مجھ سے گفتگو شروع کی، تو میری حالت قابل دید تھی۔ تذبذب کے عالم میں ہم دونوں ایک دوسرے کو اشارے کی زبان سے سمجھنے سمجھانے میں الجھے رہے، پاس ہی کھڑا ایک نوجوان ہم لوگوں کی حالتِ زارسے لطف اندوز ہورہا تھا وہ مسکراتا ہوا ہمارے قریب آیا اور بولا سر! کیا میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں؟ مجھے لگا جیسے میری دلی مراد بر آئی ہو،میں نے تشکرانہ انداز میں مسکراتے ہوئے اس کی جانب دیکھ کر اجازت دے دی۔
اپنے نوجوان مترجم کے ذریعہ ہماری گفتگو ضعیفہ سے ہونے لگی، اس نے ہنستے ہوئے بتایا کہ میرا نام مہادیوی ہے میں آپ کی طرح تعلیم یافتہ نہیں ہوں، بچپن سے ہی کھیتوں میں کام کیاکرتی ہوں، اپنی جوانی میں ہی ایک مرتبہ اپنے شوہر کے ساتھ کھیت میں کام کررہی تھی کہ میری کسی غلطی کی وجہ سے میرے شوہر اتنے خفا ہوئے کہ انہوں نے کدال (زراعت کا ایک ا وزار) اُٹھاکر میری کمر پر دے مارا، تب سے میری کمر جھک گئی ہے، میری ایک بیٹی ہے جو شادی کے بعد اپنے سسرال میں رہتی ہے، میں ایک چھوٹے سے گھر میں تنہا رہتی ہوں اور محنت سے رزق تلاش کرتی ہوں، مجھے رحم کی بھیک نہیں بلکہ اپنی محنت کی روٹی پسند آتی ہے، اہلِ صبح اُٹھ کر کھیت میں کام کرتی ہوں اور رات کا کھانا بناکر کھاتی اور اپنے رب کا شکریہ ادا کر کے سو جاتی ہوں۔ہمارے شوہر کے انتقال کے بعد سے یہی ہماری زندگی کا معمول بن گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہمیں کسی طرح کی کوئی سرکاری اسکیم سے فائدہ ابھی تک نہیں ہوا ہے۔
فصیل بند شہربیجاپور کے افضل پور میں واقع "درس گاہ کوچنگ اینڈ اوپین اسکولینگ "میں یوپی ایس سی کے امتحان کی تیاری میں مصروف محمد شمشیر علی نے بتایا کہ مہادیوی جی روزانہ اہلِ صبح اپنے گھر سے تقریباً دو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے کھیتوں سے ہری گھانسوں کو نکال کر جہاں ایک طرف فصل کو طاقت دیتی ہیں، وہیں دوسری طر ف ان گھانسوں کو فروخت کر کے مشکل سے اپنے پیٹ کی آگ بجھاپاتی ہیں۔یہ اگر چاہتی تو بھیک بھی مانگ کر روزانہ سو دوسو حاصل کر سکتی تھیں، مگر ان کی خودداری انھیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے روکتی ہے۔ یہ روزانہ دس سے بیس روپئے میں گھانسوں کو فروخت کر کے اس مہنگائی کے زمانے میں اپنی ضروریات پوری کرلیتی ہیں۔
تعلیمی، معاشی اور معاشرتی میدان میں لوگوں کی بہتری کے لئے کام کرنے والے پیر طریقت سید محمد شائق اقبال چشتی اس تعلق سے کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں محترمہ مہادیوی جیسے خوددارلوگ ملک کے سرمایا ہیں، ان کے جذبے کی نہ صرف تعریف کی جانی چاہئے بلکہ متعلقہ سرکاری محکموں کے ذمہ داران و افسران اور عوامی نمائندگان کو فوری طور پر اس جانب اپنی توجہ مبذول کر کے ان کی معاشی مددکرنی چاہئے، اس کے لئے ہماری حکومتوں کی جانب سے مہیاکرائی جانے والی کم ازکم دو طرح کی اسکیموں کا فائدہ مذکورہ خاتون کو دیا جاسکتا ہے، ان میں سے ایک بیوہ پینشین اور دوسری ضعیفی کا پینشین ہے۔ کیونکہ اس طرح کی سرکاری اسکیموں کا مقصد ایسے ہی لوگوں کا تعاون کرنا ہے۔
ہمارے ملک میں مہادیوی جیسے ہزاروں گمنام اور بے زبان لوگ ہیں جو اپنی پریشانیاں دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے کے بجائے خود ہی حل کرنے کی کوشش میں دن رات لگے ہوئے ہیں ایسے میں سرکاری فلاح و بہبود کے محکموں کی ذمہ داریاں اور اس عہدے پر فائز افسران و کارکنان کے فرائض مزید بڑھ جاتے ہیں۔
