تحریر:ہاشم قریشی
افسوس دیانت دار ،انسانیت کے پیرو کار ایک نیک دل پولیس آفیسر DG Lohia اپنے ہی گھر کے ملازم کے ہاتھوں بے رحمی سے قتل ہوگئے۔جب وہ JIC میں SSP تھے اور میں قیدی۔تو ہماری جان پہچان ہوئی تھی جو دوستی میں بدل گئ۔رشوت کے بہت خلاف تھے۔بے گناہ کو جیل میں رکھنے اور سزا دینے کے بہت خلاف تھے۔محکمے میں رشوت خور آفسیروں کے خلاف بھی تھے اور منہ پر بےعزتی کرتے تھے۔انسانی تقدس کا احترام کرتے تھے۔ اپنے ماتحتوں سے محبت سے پیش آتے تھے۔
میری صاف گوئی اور میری زندگی کی درد ناک داستان سے بہت متاثر تھے۔بہت احترام کرتے تھے۔JIC میں جب تک رہے تو جب بھی مجھے کسی بے گناہ کی بے گناہی کا علم ہوتا تھا تو میں ان کو بتادیتا تھا۔انھوں نے میری ایک سال کی قید کے دوران کم از کم150/200 کے قریب لوگ رہا کردئے۔ ایک ان سے بڑے کشمیری آفیسر کو میں نے جب ایک بے گناہ 16 سالہ یتیم قیدی کے بارے میں کہا تو اس نے انکار کیا۔مگر جب ہمنت کمار لویا کو اس یتیم کو رہا کرنے کا کہا تو انسپکٹر امین قریشی( یہ پونچھ کے تھے) سے تحقیقات کرانے کے بعد اس یتیم کو ایک ہفتے میں رہا کردیا۔(آج بھی یہ آدمی میرے گھر میں ہمارے گھر کا قابل اعتبار ہیلپر ہے )
ہمنت لویا ان بے شمار لوکل پولیس آفسروں سے بہترین انسان اور لوگوں کا ہمدرد تھا جو فرعونیت کا مجسمہ بنے ہوئے ہیں۔میری زندگی میں ہندوستان و پاکستان میں ہزاروں پولیس آفسروں سے واسطہ پڑا ہے مگر میں نے لویا جیسے پولیس آفسر بہت کم دیکھے ہیں۔ ( میں نے ssp رینک کے ایک افسر کو پاکستان کے شاہی قلعہ میں رسیوں سے بندھے ہونے کے باوجود منہ پر تھوک دیا تھا جب اس نے میری قوم کو گالی دی تھی۔بعد میں وہ ” آزاد کشمیر کا IG بھی بنا تھا )
میری دعا ہے کہ لویا صاحب کو ابدی سکون ملے اور ان کے اہل خانہ کو صبر و سکون ملے۔نہ جانے اس دنیا میں نیک انسانوں کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے!
