تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
ایران میں کئی روز سے بڑے پیمانے پر احتجاج جاری ہے ۔ اس احتجاج میں خواتین کا رول نمایاں ہے ۔ احتجاج کی وجہ ایک خاتون کی حراست کے دوران موت بتائی جاتی ہے ۔ پولیس پر الزام ہے کہ مہسا امینی نامی خاتون کو زیرحراست ہلاک کیا گیا ۔ پورے ایران کے علاوہ کئی دوسرے ممالک کے اندر مقیم ایرانیوں نے اس ہلاکت کے خلاف سڑکوں پر آکر احتجاج کیا ۔ احتجاج کے دوران کئی خواتین نے اپنے بال کاٹے اور خاتون کی زیر حراست ہلاکت کی مذمت کی ۔ اس ہلاکت کو لے کر ایرانی پولیس کے خلاف شدید غم وغصے کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ اس دوران ایران کے سب سے بڑے روحانی رہنما خامنہ ای کا ایک بیان سامنے آیا ۔ بیان میں خاتون کی زیر حراست ہلاکت کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا گیا ہے ۔ بلکہ اس ہلاکت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی مذمت کی گئی ۔
ایران میں جب شاہی حکومت کا خاتمہ ہوا اور آیت اللہ خمینی کی قیادت میں مذہبی سرکار وجود میں آئی تو بہت سے حلقوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ۔ یہ ایک عوامی انقلاب تھا جو سخت مذاحمت کے باوجود کامیاب رہا ۔ اس انقلاب کی وجہ سے انقلاب پسندوں کو حوصلہ ملا اور کئی ملکوں میں تبدیلی کا نعرہ بلند کیا ۔ ایران کی نئی مذہبی سرکار نے استحکام حاصل کرنے کے لئے کئی اقدامات کئے ۔ اپنی فوجی طاقت بڑھانے کے ساتھ ساتھ انقلاب مخالف سرگرمیوں پر روک لگادی ۔بلکہ کسی بھی ایسی سرگرمی کو برداشت کرنے سے انکار کیا جس کا مقصد نئی حکومت پر تنقید یا مخالفت ہو ۔ ایسی تنقید چاہے کتنی بھی حقیقت پسندانہ کیوں نہ ہو تاہم اس کی چولیں امریکہ اور اسرائیل سے جوڑ کر اس کا قلع قمع کیا گیا ۔ یہاں تک کہ اس مقصد سے کئی سو لوگوں کو پھانسی دی گئی اور سر عام گولیوں سے بھون ڈالا گیا ۔ اس سے پورے ملک میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوا اور اپوزیشن سرگرمیوں پر مکمل روک لگادی گئی ۔ سفارتی سطح پر ایرانی حکومت کی کوشش رہی کہ امریکہ کی سرگرمیوں کو برداشت کیا جائے ۔ بلکہ کئی موقعوں پر اس کی کھل کر حمایت کی گئی ۔ امریکہ دشمنی کو اندرون ملک ایک ہتھیار کے طور ضرور استعمال کیا گیا ۔ تاہم سفارتی سطح پر ایک معتدل رویہ اختیار کیا گیا ۔ اس طرح کا ابہام پچھلے تین دہائیوں سے برابر نظر آرہاہے ۔ جمہوریت پسند حلقوں اور رہنمائوں کو بری طرح سے پیٹا اور مارا گیا ۔ انہیں نیست نابود کیا گیا اور کہیں بھی حکومت مخالف آواز اٹھنے نہ پائی ۔ اس دوران کئی موقعوں پر کوشش کی گئی کہ اپوزیشن کو موجودہ نظام میں کچھ جگہ مل جائے ۔ لیکن ایسے سرگرم کارکنوں کے خلاف اسی طرح سے ظلم و تشدد سے کام لیا گیا جس طرح شاہ ایران کے دور میں خمینی حمایتی افراد سے کیا جاتا تھا ۔ کئی سڑکیں اور چوک ان کے خون سے نہلائے گئے ۔ سب سے حیرانی اس بات پر ہے کہ شہنشاہ کے اپوزیشن مخالف اقدام کی مزمت کرنے والے آج اس کی پالیسی کو اپنانے والوں کی کھل کر حمایت کرتے ہیں ۔ شاہ کے دور میں جو غلط تھا وہ اچانک درست مانا جانے لگا ۔ حد تو یہ ہے کہ مذہبی پیشوا اس طرح کی حمایت کرنے والوں میں سب سے آگے ہیں ۔ مذہب کی نظر میں سچ پر زمانے کا اثر پڑتا ہے نہ مکانیت اس پر حاوی ہوتی ہے ۔ کل جو سچائی تھی آج بھی وہ ایسی ہے اور قیامت تک سچائی مانی جائے گی ۔ یہی سوچ مذہب کو دوسرے خیالات پر فوقیت دیتی ہے ۔ مذہبی پیشوا سچ کو سچ کہنے سے گھبراتے نہیں ۔ بلکہ اس کے لئے سختی برداشت کرتے ، جیل جاتے اور جان بھی دیتے ہیں ۔ اس کے لئے حالات کا تقاضا یا ملکی مفاد کا خیال نہیں کیا جاتا ہے ۔ سچائی ہر موسم ، ہر زمانے اور ہر ملک میں سچائی ہوتی ہے ۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ زیر حراست خاتون کی ہلاکت کا جواز تلاش کرکے اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ملک دشمن اور کفر کا ایجنٹ ٹھہرایا جائے ۔ بغیر تحقیق کے ایسے بیان پر دستخط کئے جائیں جو حکومت کے ایوانوں سے لکھ کر آئے ہوں ۔ اللہ اور اس کے نبی کا فرمان ہے کہ سب سے بڑا جہاد وقت کے حکمران کے سامنے حق کا کلمہ بلند کرنا ہے ۔ حسین ؑ نے اسی مقصد کو بحال رکھنے کے لئے کربلا میں اپنی جان دی ۔ یہ کتنی متضاد بات ہے کہ ایک طرف حسین حسین کا نعرہ لگایا جائے ۔ حسینی مرثیوں میں شمولیت کی جائے ۔ حسین کے نام پر علم بلند کئے جائیں اور سبیلیں لگائی جائیں ۔ حسین کے لئے خون بہانا ان سے محبت کا اظہار مانا جائے ۔ دوسری طرف ان کے طریقہ کار سے بغاوت کی جائے ۔ حسینی کردار کا تقاضا ہے کہ وقت کے حکمرانوں کو ان کے غلط اقدامات سے روکا جائے ۔ ان کی اسلام دشمنی کے خلاف میدان کربلا میں اترا جائے ۔ ان کے ماورائے عدالت اقدامات کی مخالفت کی جائے ۔ خود میں ایسا کرنے کی طاقت نہ ہو تو اس کے خلاف سر پر کفن باندھنے والوں کو مایوس نہ کیا جائے ۔ اگر آپ میں یہ سکت نہیں کہ حق کی حمایت میں کربلا میں اترآئیں ۔ تو کم از کم ایسا کرنے والوں کے خلاف اپنی زبان نہ کھولیں ۔ اس طرح سے آپ نہ صرف حق کی آواز کو کمزور کرتے ہیں ۔ بلکہ اپنی عاقبت تباہ و برباد کرتے ہیں ۔ اس طرح سے حکومت کا بھلا ہوگا نہ اسلام کی کوئی خدمت ہوگی ۔ بلکہ یہ منافقت کی علامت مانی جائے گی
