تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
سرور کائنات حضرت محمد ﷺ نے ایک ایسے دور میں جنم لیا جب پوری دنیا بدترین حالات سے دوچار تھی ۔ انسانوں کے اندر انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی تھی ۔ ایک طبقہ تھا جو انسانوں کی اکثریت کو اپنا غلام سمجھتی تھی اور ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کئے ہوئے تھی کہ درندے بھی اس پر افسوس کرتے تھے ۔ دوسروں کا خون چوسنا اور خود آرام ومسرت کی زندگی گزارنا ان کا حق سمجھا جاتا تھا ۔ یہاں تک کہ دوسروں کا حق مارنا عین ضرورت سمجھا جاتا تھا ۔ اس کو انسان سوز یا قانون دشمن حرکت قرار دینا بھی غلط مانا جاتا تھا ۔ انسانی اخلاق یا انصاف کی بات کرنے کی کسی کو اجازت نہ تھی ۔ معاشرتی سدھار کا ایسے زمانے میں تصور کرنا بھی ممکن نہ تھا ۔ایسے زمانے میں رسول اللہ ﷺ کی ولادت ہوئی ۔
آپ ؐ نے جہالیت کے ایسے دور میں جہاں انسانیت بھی کانپ جاتی تھی اس طرح سے زندگی گزاری جو اپنی مثال آپ تھی ۔کسی خامی اور غلطی سے پاک زندگی گزارنا ایسے معاشرے کے اندر کسی معجزے سے کم نہ تھا ۔ اس کے باوجود کہ یہاں گناہ کرنا آسان اور گناہ سے بچنا مشکل تھا ۔ حضور ؐ نے ایسی زندگی گزاری جس کی مثال آج تک دی جاتی ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ پیغمبر ازل سے ہی نیک اور صالح ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جس کی برائیاں گننا بھی مشکل ہے حضور ؐ نے پوری زندگی بڑی شائستگی سے گزاری ۔ ان کے اخلاق ، ان کی سچائی ، ان کی دیانت اور ان کی معاملہ فہمی قابل فخر رہی ۔ یہاں تک کہ چالیس سال کی عمر میں جب انہیں نبوت ملی اور اپنی قوم کو دعوت دینے کا حکم کیا گیا ۔ تو انہوں نے یہ بات سب کویاد دلائی کہ ان کی زندگی کسی گزری ہے ۔ پوری قوم نے یک زبان ہوکر تصدیق کی کہ انہوں نے کبھی کوئی غلط کام کرتے انہیں نہیں دیکھا ۔ تب جاکر آپ ؐ نے ان کے سامنے نبی ہونے کااعلان کیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے باجود قوم نے ایمان لانے سے انکار کیا ۔ تاہم اللہ کی مرضی سے آپ نے چالیس سال کی زندگی بہت ہی اچھے اخلاق اور تمام خرابیوں سے پاک و صاف ہوکر گزاری ۔ سب سے بگڑے معاشرے میں رہ کر تمام انسانی صفات سے مزین ہوکر دن و رات کاٹے ۔ گھر بسایا ۔ تجارت کی ۔ عزیز و اقارب کے درمیان رہے ۔ عبادت و ریاضت کی ۔ اس کے باوجود کہیں پائوں پھسلا نہ زبان پھسلی ۔ ایک کامل انسان بن کر پوری زندگی گزاری ۔ بدگوئی اور بدگمانی سے پاک وصفات ایسی زندگی کسی کمال سے کم نہ تھی ۔ کسی مثال سے کم نہ تھی ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاق کریمہ کو پوری انسانیت کے لئے تقلید کا نمونہ قرار دیا ۔ یہ واحد ذات تھی جو اس زمانے اور اس دنیا میں تمام انسانی عیوب و کمزوریوں سے پاک تھی ۔ اس کے سوا کوئی دوسرا ایسا انسان موجود نہ تھا جن کی زندگی وک نمونہ خیر قرار دیا جاتا ۔ جس کی زندگی قابل تقلید مانی جاتی ۔ نبی ؐ کا انکار کرنے والوں کے لئے بھی ایسا کوئی دوسرا شخص نظر نہ آتا تھا جس کو انسانیت کی معارج قرار دیا جاتا ۔ جس کے پیچھے پیچھے چلنے پر لوگوں کو مجبور کیا جاتا ۔ اعلان نبوت سے پہلے زندگی کسی سے کم نہ تھی ۔ کسی غلطی کی مرتکب نہ تھی ۔ نبوت ملنے کے بعد ان کا تمام کمزوریوں سے پاک ہونا یقینی ہے ۔ اس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے اپنی پوری زندگی ایک نمونے کے طور گزاری ہے ۔ انہوں نے جس طرح اپنا بچپن بے لاگ گزارا ۔ ان کی جوانی پاک وصاف رہی یہاں تک کہ ان کے دنیا سے اٹھنے کی گھڑی تک ان کی ساری زندگی معیاری زندگی تھی ۔ انہوں نے جو کچھ کہا کردکھایا ۔ جس چیز کی تعلیم دی اس پر عمل کرکے دکھایا ۔ نماز روزوں کے علاوہ دنیا میں عدل وانصاف کا ایک مضبوط نظام قائم کیا ۔ اس وجہ سے انہیں دنیائے انسانیت کا کامیاب ترین رہنما قرار دیا جاسکتا ہے ۔ بلکہ مانا بھی جاتا ہے ۔ وہ جو اپنے صحابہ کے لئے مثال تھا آتی دنیا تک ایسا ہی رہے گا ۔ وہ جوصرف دوسروں کو اچھائی کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ اس پر پہلے خود عمل کرتا تھا ۔ وہ جو دھن دولت سے دور بھاگنے والا تھا دوسروں کے لئے امیری اور سرمایہ بڑھ جانے کی دعائیں مانگتا تھا ۔ اس طرح کی کوئی دوسری مثال پیش نہیں کی جاسکتی ہے ۔ لوگ اس لئے لیڈر اور قوم کے رہنما بن جاتے ہیں تاکہ پاور کا بڑھ چڑھ کر استعمال کریں ۔ لوگ اس لئے لیڈر بن جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پاور کا استعمال کرسکیں ۔ دوسرے سب لوگ اس لئے لیڈر بن جاتے ہیں تاکہ بڑے پیمانے پر استحصال کریں ۔ لیکن نبی ؐ نے خود کبھی ایسا نہیں کیا ۔فاقہ کشی کا عالم یہ تھا کہ دوسروں کے پیٹ پر پتھر باندھنے سے پہلے خود ایک نہیں دو پتھر باندھے ۔ اللہ کے حضور جھکنے کا حکم دینے سے پہلے خود جھک گئے ۔ اللہ کی راہ میں قربانی دینے والوں میں آپ سب سے آگے تھے ۔ اسکے باوجود خود کو دوسروں سے اعلیٰ اور بڑھ کر قرار نہیں دیا ۔ کہا بس اتنی سی بات ہے کہ میرے پاس فرشتہ وحی لے کر آتا ہے ۔ اس وجہ سے مجھے دوسروں پر فوقیت ہے ۔ حکم چلانے والا نہیں ہوں ۔ دوسروں کو جھکانے والا نہیں ہوں ۔ رنگ ، نسل یا ذات کا فرق سب کچھ مٹادیا ۔ پوری زندگی عام لوگوں کی طرح گزاری ۔ بلکہ دعا کرتے تھے کہ میری زندگی امیری کی زندگی نہ ہو۔ بادشاہ بن کر نہیں بلکہ دوسروں کا بھائی اور ساتھی بن کر جیتے رہے ۔ آخری لمحے تک اپنا سر اللہ کی بار گاہ میں جھکاتے رہے ۔ ایک ایسی امت تشکیل دی جہاں گورے کو کالے پر ، عربی کو عجمی پر اور امیر وک غریب پر کوئی فوقیت نہیں ۔ بلکہ جو تقویٰ میں آگے ہے وہی اعلیٰ و ارفع ہے ۔ چاہئے وہ حبشی کالا کلوٹا ہی کیوں نہ ہو ۔ پھر فرمایا کہ عمل کرتے رہو ۔ عمل سے ہی زندگی بنتی ہے جنت بھی اور جہنم بھی ۔ یہی وہ تعلیمات اور عملیات ہیں جن کے نتیجے میں رسول اللہ ﷺ کو دنیا کا کامل ترین اور کامیاب ترین انسان قرار دیا جاتا ہے ۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں ۔ کوئی سوال نہیں ۔ سوال کرنے والے بے مراد ہوکر دنیا سے چلے گئے ۔ زندہ جاوید ہے تو رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ ۔ یہی ان کے کامیاب ترین انسان ہونے کی دلیل ہے ۔
