تحریر: شاہ نواز علی شیر
مسلم کانفرنس نے جولائی 1946میں ”قرارداد آزاد کشمیر“ تک منظور کر لی اور نیشنل کانفرنس نے ”کشمیر چھوڑ دو“ کے طور پر ریاست کی آئینی جمہوری حکومت کے لئے توانائیاں صرف کرنا شروع کیں۔جب کہ ادھر برطانوی راج نے بھی برصغیر کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کر کے تقسیم کی تاریخ کا بھی تعین کر دیا۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں قانون آزادی ہند کے تحت یہ شق بھی شامل کی گئی کہ اپنی اپنی ریاستوں کے مستقبل کا فیصلہ والیان ریاست خود کریں گئے۔انھیں اس بات کا بھی پابند کر دیا گیا کہ اگر وہ چاہیں تو بھارت یا پاکستان میں سے کیسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو آزاد ی و خود مختار ی کا اعلان بھی کر سکتے ہیں۔انہی شقوں کی بنیاد پر ریاست حیدر آباد نے خود مختاری اور ریاست جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان کیا۔پاکستان نے ان دونوں فیصلوں کو تسلیم کر لیا۔جو قانون آزادی ہند کے تناظر میں درست تھے۔ان حالات میں ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ بھی ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ نے کرنا تھا۔ ریاست کا مہاراجہ ہری سنگھ بھی اصل النسل تھا جو ریاست کو آزاد و خود مختار دیکھنا چاہتا تھا۔جب کہ وزیر اعظم رام چند کاک بھی ریاست کی خود مختاری کے لئے بے تاب تھا۔لیکن ان حالات میں ریاست کی خوش قسمتی کو پاکستان اور ان کے بغل بچے قبائلیوں نے بد قسمتی میں بدل کر رکھ دیا۔ریاست کے حق آزادی پر شب خون مار اگیا۔پاکستان نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے لالچ و غاصبیت میں کشمیر کو غلام بنانے اور تقسیم کرنے میں پہل کی۔اس بات میں رتی بھر فرق نہیں ہے کہ کشمیر پر قبضہ کی پاکستان نے ہی بنیاد رکھی اور یہی مسئلہ کشمیر کا موجد و بانی ٹھہرا۔پاکستان نے 22اکتوبر 1947کو قبائلیوں کے خونخوار ی یلغاری لشکر ریاست جموں و کشمیر میں داخل کیے۔پاکستان کی تقسیم کشمیر میں پہل نے بھارت کو کشمیر پر قبضہ کرنے کا سنہری موقع فراہم کیا۔قارئین!اس کالم میں حوالہ جات اور تمام حقائق میجر (ر) امیر افضل خان کے چشم کشا مضامین،جی ایم میر کی کتاب کشور کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ،انقلاب کشمیر،گم گشتہ قوم،کشمیریز فائٹ فر فریڈم،فریڈم ایٹ مڈ نائٹ،پاکستان کی سیاسی تاریخ،میموریز آف جناح،مسئلہ کشمیر ار تقسیم ہند،کشمیر ان دی کراس فائر،کشمیر اور جونا گڑھ کی کہانی،ٹونیشنز اینڈ کشمیر جیسی مستند و شہرہ آفاق کتب اور روز نامہ جنگ کے چند مضامین سے لے گئے ہیں۔تاکہ قارئین! بطور دلائل و حق،سچ کے ساتھ مسئلہ کشمیر کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں۔
ْٓقارئین! 22اکتوبر 1947کو وزیر (قبائل)،مسعود،سلیمان خیل،دوڑ،بھٹنی،توری آف،آفریدی،ادم خیل،مہمند،مینگل،کوچی،زوران،شنواری،پاوندہ،یوسف زئی،سالارزئی،خلجی اور کنڈی جیسے سرحدی قبائل ریاست جموں وکشمیر میں داخل ہوئے۔ان قبائل کے راہنماوں میں پیر مانکی شریف،پیر صاحب لانڈر،پیر صاحب زکوڑی شریف،کپتان میر بادشاہ مسعود، نذرملا، بادشاہ گل مہمند،پیر وانا شریف وغیرہ شامل تھے۔قارئین! آخر کشمیر میں ان قبائل کو کیوں شامل کیا گیا۔اس جواز کو تلاش کرنے کے لئے جی ایم میر کی کتاب کشور کشمیر میں پاکستان کے صف اول کے لیڈر سردار شوکت حیات خان جو کہ مسلم لیگ کے مرکزی صدر اور کئی حکومتی عہدوں پر رہ چکے رہے ان کا ایک بے سروپاموقف پیش خدمت ہے۔:”ہندوستان نے سیکورٹی کونسل کی قرار داد قبول کی،جس میں کشمیر کا فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعے ہونا تھا۔وہ اس ریفرنڈم کو حیلوں بہانوں سے ٹالتا رہا۔اقوام متحدہ میں حلیفہ یقین دہانی کے باوجود رائے شماری کرنے کے فیصلے پر عملدارآمد کرنے سے منکر ہو گیا۔ہم نے مہاراجہ اور ہندوستان کی بد نیتی کو بھانپتے ہوئے کشمیر میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔“ قارئین!سچ تو یہ ہے کہ قبائلی لشکر کشمیر میں 22اکتوبر کو داخل ہو گئے تھے۔بھارت نے مہاراجہ کشمیر کی درخواست پر اپنی افواج ہوائی جہازوں کے ذریعے 27اکتوبر کو سرینگر میں اتار یں۔ یکم جنوری 1947کو مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں پیش ہوا اور 13اگست 1948کو وہ قرارداد منظور ہوئی۔ جس میں کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینے کے لئے رائے شماری کرانے کا وعدہ کیا گیا۔جسے بھارت اور پاکستان دونوں حکومتوں نے منظور کر لیا۔ان حقائق کی روشنی میں سردار حیات خان کا بیان کیسی تبصرے کا محتاج نہیں۔کشمیر میں قبائلی لشکر کے منصوبہ کے بارے میں ”فریڈم ایٹ مڈ نائٹ“ میں بڑی وضاحت کے ساتھ مرقوم کیا گیا ہے کہ ”جب برطانیہ نے تقسیم ہند کا فیصلہ کر لیا تو افغانستان کے شاہ ظاہر شاہ نے حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ افغانستان کے جو علاقے انگریزوں نے ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ میں شامل کیے تھے وہ واپس کئے جائیں۔انگریزوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔تو ظاہر شاہ نے ایک بار پھر لکھا کہ افغانستان اور ہندوستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کی جو سرحد مقرر کی گئی تھی وہ ہم سے پوچھ کر نہیں بنائی گئی اس لئے ہم اسے تسلیم نہیں کرتے ہیں۔اسکا بھی جواب انگریزوں نے نہ دیا۔اسکے بعد ظاہر شاہ نے خاموشی سے قبائلی علاقوں میں لشکر بھرتی کرنے کا منصوبے شروع کئے۔اسکا منصوبہ یہ تھا کہ پشاور سمیت سرحد کے مختلف شہروں پر قبضہ کر لیا جائے۔جب پاکستان کے ارباب اختیار کو اس منصوبہ کی اٹ سٹ معلوم ہوئی تو انہیں سخت تشویش لاحق ہو ئی۔باہمی مشورہ کے بعد یہ طے پایا گیا کہ ان قبائلی لشکروں کو سری نگر کا راستہ دیکھا دیا جائے۔اس مقصد کے لئے علماء کی خدمات حاصل کیں گئیں تاکہ علماء پٹھانوں کو جہاد کی ترغیب دیں“۔”ان پٹھانوں کو بھڑکا کر سری نگر پہنچایا جا سکتا تھا۔افغانستان کے حکمران پٹھانوں کو اشتعال دے رہے تھے کہ وہ پشاور کو لوٹ لیں۔اگر ان پٹھانوں کو سری نگر پہچا دیا جائے تو انکی نظریں پشاور سے ہٹ جائیں گئیں۔اور لوٹ مار کرنے کے بجائے وہ اپنی پیاس سری نگر کے بازروں میں بجھائیں گئے۔وہ یقینا ایسا ہنگامہ برپا کریں گئے کہ مہاراجہ گھبرا جائے گا اور پاکستان سے فوجی مداخلت کی درخواست کرے گا۔اس بہانے سے پاکستان فورا سری نگر میں اپنی فوج بٹھا دے گا۔مہاراجہ مجبور ہو کر پاکستان کے ساتھ کشمیر کا انضمام کر یگا۔ تین دن بعد پشاور کی ایک خستہ حال عمارت میں پٹھانوں کے نمائندوں کی ملاقات اس شخص سے ہوئی جسے پٹھانوں کو اشتعال دے کر سری نگر پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔اس کا نام میجر خورشیدانور تھا۔اس نے اسلام کا واسطہ دے کر پٹھانوں کو سمجھایا کہ اگر کشمیر میں فورا کوئی کاروائی نہ کی گی تو وہاں کا ہندو مہاراجہ اپنی ریاست کو ہندوستان سے ملا دے گا۔جسکی وجہ سے لاکھوں مسلمان ہندوؤں کی مکار حکومت کے پنجے میں آجائیں گئے۔جہاد کی یہ دعوت پٹھانوں کے علاقوں میں برقی لہر کی طرح دوڑ گئی۔جلد ہی چپکے چپکے ہتھیار تقسیم ہونے لگے۔“
میجر(ر) امیر افضل خا ن ”چشم کشا سلسلہ مضامین“کی قسط نمبر 10میں ایک انکشاف کرتے ہیں جو کہ روز نامہ نوائے وقت کی 21ستمبر 2003کی اشاعت میں شامل ہے۔وہ لکھتے ہیں ”خورشید انور بھی لیاقت علی کا خاص آدمی تھا جس نے سرینگر کیطرف پیش قدمی کا ڈرامہ کیا اور بھارت یا نہرو کی ضرورت پوری کی کہ سردیوں سے پہلے بھارتی فوج مہاراجہ کی امداد کے لئے پہنچ گئی۔“وہ مزید اپنی کتاب ”جہاد کشمیر 1974-48“ کے دسویں باب میں لکھتے ہیں کہ ”ہمارے ملک میں نہرو کی اس ضرورت کو کس نے پروان چڑھایا؟قائد اعظم کو تو بے خبر رکھا گیاتھا۔“بائیس اکتوبر کو پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے قائد اعظم کو اطلاع دی کہ ”پانچ ہزار قبائلی لشکر مظفر آباد کے راستے وادی میں داخل ہو گئے ہیں“۔اس پر قائد اعظم کا ردعمل کے طور پر جواب تھا کہ ”مہاراجہ سے ہمارا جو معائدہ ہوا ہے اس کا کیا بنے گا؟“یہ قدم قائد اعظم کو اندھیرے میں رکھ کر اٹھایا گیا تھا جس پر قائد اعظم کو شدید رنج تھا۔قارئین! اولین کے کشمیر کے مستقبل سے وابستہ محرکات کے بعد قائد اعظم بھی کشمیر کو خود مختار دیکھنا چاہتے تھے۔وہ اپنے پرائیویٹ سیکرٹری و فرزند کشمیر،کے ایچ خورشید کو بھی خود مختار کشمیر کے لئے جدو جہد کرنے کا مشورہ دے چکے تھے۔مہاراجہ کشمیر اور ان کے درمیان ایک معائد ہ بھی ہو چکا تھا۔جس پر آئندہ کسی کالم میں روشنی ڈالی جائے گئی۔مسلم لیگ کے سابق صدر سردار شوکت حیات خان نے اپریل 1995میں روز نامہ جنگ لندن کے ایک انٹریو میں قبائلی یلغار پر خاصی روشنی ڈالی۔سردار شوکت حیات خان کی کتاب The Nation that Lost its Soul)) کے چند اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔”مجھے کشمیر آپریشن کا نگران مقرر کیا گیا تھا۔میں نے بریگیڈئیر شیر خان اور بریگیڈئیر اکبر خان کی شمولیت کامطالبہ کیا ہر دو کا تعلق 13/2فرنٹئیر فورس (پفرز) سے تھا۔ہم نے یہ درخواست کی کہ ہمیں وہ دیسی ساخت کی بندوقیں جو قلعہ لاہور میں پڑی ہیں دے دی جائیں۔علاوہ اس کے ہم نے سابقہ آئی این کے جنرل کیانی،کرنل دارا اور تاج خانزادہ کو بھی اس مہم میں شامل کر لیا۔ایسے وقت غلام محمد وزیر خزانہ پاکستان کے اپنے ایک رشتہ دار میجر خورشید انور کو جو ریلوے بٹالین کا ایک ریزرو افسر تھا اور جس نے شمال مغربی سرحدی صوبے میں ریفرنڈم کے دوران مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے کمانڈر کی حثیت سے آنکھ مچولی کھیلی تھی،کی سفارش کی کہ اسے بھی ہائی کمانڈ میں شامل کیا جائے۔اس کی قابلیت صرف اتنی تھی کہ وہ اور غلام محمد دونوں ککے زئی تھے۔میں نے اس سفارش کو ٹھکرا دیا کہ میں اس غیر فوجی شخص کو فوج کی کمانڈ نہیں دے سکتا تھا۔لیکن غلام محمد اورلیاقت حیات علی خان نے اصرار کیا کہ نیشنل گارڈ کو خوش کرنے کے لئے اس کی شمولیت منظور کی جائے۔بارہ مولا میں قبائیلیوں نے خورشید انور کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔خزانے سے بر آمد شدہ تین لاکھ روپے کی رقم کو قبائلی مجاہدین اپنی مالکیت سمجھنے لگے۔اسی دوران انہوں نے مقامیوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔بارہ مولا کانونٹ کی راہباوں کے لاکٹ اور بندے اتار لے گئے۔ان قبایلیوں نے بازار میں لوٹ مار شروع کر دی۔اس طرح قیمتی وقت ضائع ہو گیا۔۔۔۔ہم نے کشمیر اپنی حماقتوں اور اناڑی پن سے کھویا۔“سابق چیف جسٹس خواجہ محمد یوسف صراف اپنی ”شہرہ آفاق تصنیف“،”کشمیر یز فائٹ فار فریڈم“ میں رقمطراز ہیں کہ ”قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد وقت ضائع کئے بغیر بارہ مولا کے عوام پر ٹوٹ پڑیں اور چند گھنٹوں کے اندر کئی عمارتوں نذر آتش ہو گئیں۔پختہ اینٹوں کے مکانات میں زبردستی داخل ہو کر مکینوں کو موت کا خوف دلا کر لوٹ لیاگیا۔دریائے جہلم کے بائیں کنارے بیسیوں مکانات جلا کر خاک کر دیئے گئے۔“۔”سینٹ جوزف ہسپتال کی مدرسپیرئیر تین راہباوں (Nuns)اور ایک برطانوی جوڑے کو جو وہاں ٹھہرا ہوا تھا قتل کر دیا گیا۔میرے پڑوس میں رہنے والے تین ہندو،شمبھو ناتھ،وید لال،ارجن ناتھ،جو تینوں سکول ماسٹر تھے قتل کر دیا گیا۔جہاں تک لوٹ مار اور آتشزدگی کا تعلق ہے۔ہندوں اور مسلمانوں میں کوئی تمیز نہیں برتی گئی۔“۔”مثال کے طور پر چار بیٹیوں کے باپ غنی نامی ایک غریب جولاہے کی لوئی (کمبل) ایک قبائیلی بالجبر چھیننے لگا تو غنی نے پوچھا کہ ”کیاتم لوگ اسی مقصد کے لیئے کشمیر آئے ہو؟“ یہ سنتے ہی غنی کو موقع پر ہی گولی ماری گئی۔ مقامی سینماہال کو عملا ایک قبحہ خانے میں تبدیل کر دیا گیا۔ایک آسودہ حال مسلمان گھرانے کی تمام خواتین حفظ ماتقدم کے طور پرشہر سے باہر چلی گئی تھیں۔بدقسمتی سے ان کی ایک بہو کسی وجہ سے گھر میں رہ گئی تھی۔کسی قبائلی کی اسپر نظر پر گئی۔اور اسے کیمپ میں چلنے کا حکم دیا۔لڑکی نے حاضر دماغی کا ثبوت دیتے ہوئے اندر جا کر نئے کپڑے پہنے اور زیورات ساتھ لانے کی اجازت چاہی جو اسے دے دی گی۔لڑکی ایک بڑے کمرے میں داخل ہو ئی جس میں گھوڑے کے لئے چارہ رکھا ہوا تھا۔لڑکی نے چارہ کو آگ لگائی اور خود اس میں چھلانگ لگا دی۔جس سے نہ صرف وہ لڑکی اور اسکا محلے کے دو سو مکانات جل کر خاکستر ہو گئے“۔”رسول نامی ایک شہری نے جو تیل نکالنے کی مشین کا مالک تھا۔200قبائلیوں کو رات کے کھانے پر مدعو کیا۔کھانا کھا چکنے کے بعد ”مہمانوں“ نے عورتوں کا تقاضہ کیا۔خوش قسمتی سے تمام عورتوں کو پہلے ہی سے باہر بھیجا جا چکا تھا۔گھر میں ایک عمر رسیدہ دادی اماں تھیں۔قبائلی نہایت بد دلی کے ساتھ وہاں سے رخصت ہو گئے۔گھروں کو لوٹتے وقت صرف نقدی اور زیورات پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ سماوار اور پتیل کے برتن بھی اسی خیال میں لوٹتے رہے کہ یہ سونے کے بنے ہیں۔بعض قبائلیوں کو ایسے فرن پہنے ہوئے بھی دیکھا گیا جو خواتین کا مخصوص لباس تھا۔“فریڈم فائٹ میں اس یلغار کے بارے میں مزید یہ لکھا گیا ہے کہ ”ہندوستانی فوج کو شروع میں جو کامیابی ملی اس میں فوج کی چالاکی اور بہادری کے علاوہ ان چودہ ننوں کا دخل بھی تھا جو ”فرانسکن مشینریز آف میری“کی تبلیغی تنظیم سے تعلق رکھتی تھیں۔ان میں ہر نسل کی رہبائیں تھیں۔فرانس،سپین،سکاٹ لینڈ اور پرتگال سے انکا تعلق تھا۔سری نگر سے صرف تیس میل کے فاصلے پر بارہ مولا میں انکا ہسپتال تھا۔پٹھان مجاہدوں کو جس وقت سری نگر کے ہوائی اڈے پر اور کشمیر کی راجدانی کی اہم سڑکوں پر ہونا چاہے تھا،اس وقت وہ بارہ مولا میں الجھے ہوئے تھے۔گرجا گھر کے چھوٹے ہسپتال کے تمام مریضیوں کو انہوں نے قتل کر دیا۔انہوں نے راہباوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔گرجا گھر کی ہر ایک قیمتی چیز کو لوٹ لیا۔جس میں دروازے پر لگی ہوئی پتیل کی دستیاں بھی شامل تھیں۔ان کے اس گناہ کی سزایہ ملی کہ پاکستان کی نئی مملکت سے کشمیر کو ملحق کرنے کا محمد علی جناح کا خواب دفن ہو گیا۔“
قانون آزادی ہند کے تحت ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں یہ طے تھا کہ ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں والیان ریاست فیصلہ کریں گئے۔انہیں یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ چاہیں تو دونوں نو آزادمملکتوں بھارت یا پاکستان میں سے کیسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیں۔یا چاہیں تو اپنی خود مختاری کا اعلان کر یں۔مہاراجہ کشمیر اور ریاست جموں و کشمیر کی دونوں سیاسی جماعتیں نیشنل کانگریس اور مسلم کانفرنس آزادی کی طالب گار تھیں (ان دونوں کے مطالبات گذشتہ سطور میں بیان کئے جا چکے ہیں)۔ان دونوں جماعتوں نے ریاست کی آزادی کی جدوجہد کی لیکن عین فیصلے کے وقت یہ ناداں گر گے سجدے میں جب وقت قیام آیا۔چند لحموں کی سزا اب کشمیری صدیوں کی گھڑی میں بھگت رہے ہیں۔شیخ عبداللہ بھارت اور مسلم کانفرنس پاکستان کی گود میں کود کر بیٹھ گئیں۔جہاں تک مہاراجہ کا تعلق ہے وہ ہمارے سامنے ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ محب االوطن تھا۔وہ ہر صورت میں ریاست کو آزاد و خو د مختار ریاست کے طور پر دیکھنے کا خوہاں تھا۔وہ بھارت سے الحاق کے سخت مخالف تھا۔اس نے بھارتی حکومت اور سیاسی طاقتوں کا جرت مندی کے ساتھ مقابلہ کیا۔اور کیسی صورت میں بھی الحاق پر رضا مند نہ ہوا۔قارین! نہرو نے ریاست میں آ کر ہری سنگھ کو الحاق ہند کے لے آمادہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن نے خبردار کیا کہ اگر نہرو نے سری نگر جانے کی ضد نہ چھوڑی تو ہری سنگھ انہیں گرفتار کر لے گا۔اور کل جب مجھ سے انھیں ہندوستان کے وزیر اعظم کا چارج لینا ہو گا تو وہ سری نگر کی جیل میں پڑے ہوں گئے۔مہاراجہ نے نہرو کو تھپڑ وں کے ساتھ گرفتار کر دیا۔کشمیر پر قبائلی لشکر کی ظالمانہ و درد ناک لشکر کی یلغار اور جموں کشمیر کو اپنے ہاتھوں سے قبائلیوں کے ہاتھوں چھینتا دیکھ کر اور جان کے خوف وڈر کی وجہ سے مہاراجہ ہری سنگھ 25,26اکتوبر کی درمیانی رات کو دارلحکومت سری نگر سے بھاگ کر جموں چلا گیا۔جہاں سے اس نے 26اکتوبر کو بھارتی نمائندے وی پی مینن کے ہاتھ لارڈ ماونٹ بیٹن وائسراے ہند کو ایک مفصل خط ارسال کیا۔جس کا متن پیش خدمت ہے۔”میں ابھی تک ریاست کو ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ شامل کرنے یا سے آزاد رکھنے کے بارے فیصلہ نہیں کر سکا تھا کہ اچانک سرحد کے قبائلیوں نے میری ریاست میں داخل ہو کر قتل عام شروع کر دیا جس سے میری فوجیں منتشر ہو گئیں۔اس لئے میں اپنی ریاست کو بیرونی حملہ آوروں سے بچانے کے لئے آپ سے مدد مانگ رہا ہوں۔اور ساتھ الحاق کے کاغذات ارسال کر رہا ہوں۔وی پی مینن یہ خط لے کر دہلی گیا۔لارڈ ماونٹ بیٹن،پنڈت لعل نہرو،سردار ولبھ بھائی پیٹل، اور شیخ عبداللہ نے اس الحاق کے معاملے میں غور کیا۔اور باہمی اتفاق رائے سے 27اکتوبر کو دورباہ وی پی مینن کے ہاتھ بھجیا جس میں لکھا تھا کہ ”میری حکومت نے آپ کی ریاست کا الحاق ہمدوستان سے منظور کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔تاہم میری حکومت چاہتی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں نظم و نسق کی بحالی اور ریاست سے حملہ آوروں کو نکال لینے کے بعد الحاق کا فیصلہ عوام کی مرضی پر چھوڑا جائے گا۔“قارئین! کارڈ ماونٹ بیٹن نے اس خط کے ساتھ ہی فوجیں سری نگر کی طرف روانہ کر دیں۔27 اکتوبرپاکستانی حکومت کی آشیر آباد،سازش،مداخلت اور مزموم چالاک اور قبائیلوں کے کشمیر پر حملہ میں پہل کے بعد 27اکتوبر کو بھارتی فوجوں نے اپنے ناپاک قدم سری نگر کے ہوائی اڈے پر رکھے۔لیکن تاریخ اور حق و سچ کے تمام حقائق نے آج سب پر یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستانی حکومت،سیاستدانوں نے قبائلیوں کو لالچ دے کر اور جہاد کے نام پر اشتعال دے کر جموں کشمیر میں فسادات کو ہوا دی۔عوام کا قتل عام کیا۔عالمی حالات و واقعات تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں ریاست کا منظر بھی اب بدلنا چاہیئے۔ان بدلتے ہوئے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری ریاست جموں و کشمیر میں بحالی وحدت و مکمل آزادی کے لئیے اپنے فکر و عمل کو درست سمت اور درست قومی بیانہ پر لایا جائے تبی اس مسلہ کو دنیا حقیقت کی نظر سے دیکھے گی۔ توڑ دے یا رب اس دست جفا کش کو۔جس نے روح آزادی جموں کشمیر کو پامال کیا(ختم شد)
