تحریر:پروفیسر مشتاق احمد
مولاناابوالکلام آزاد اپنے عہد کے ایک عظیم دانشور، مفکر، مصلح قوم اور ایک حسّاس ذہن سیاسی مدبّر تھے۔ انہوں نے انسانی معاشرے کے معاملات و مسائل کاگہرا مطالعہ کیا تھا اور بالخصوص ہندوستانی عوام کے شب و روز کو بہت قریب سے دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ وہ عوام کے اندر سوئی ہوئی انسانیت کو جگانا چاہتے تھے او روطن عزیز کو غلامی کے طوق سے نجات دلانا اپنی زندگی کامقصد اولین سمجھتے تھے۔ وہ صرف حصول آزادی کے ہی قائل نہیں تھے بلکہ ان کا واضح تصور زیست او رنظریہ عمل یہ تھا کہ اس دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں ان سب کامذہب صرف انسانیت ہے۔ وہ حب الوطنی کو ایمان کا درجہ دیتے تھے او رفلاح انسانیت کے لئے انسانی ہمدردی کو فرض سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی عملی زندگی میں ان کی نگاہوں میں بھی محترم رہے جن کو ان سے نظریاتی اختلاف رہا۔دراصل مولانا ابوالکلام آزاد کی مکمل زندگی اسلامی شریعت کی آئینہ دار تھی،وہ قرآن و سنت کو پورے عالم انسانیت کے لئے نسخہ فلاح و بہبود کا ذریعہ سمجھتے تھے اور دوسرے مذاہب میں جو انسانی ہمدردی کے اسباق ہیں اس پر عمل کرنابھی انسانی معاشرے کے لئے لازمی تصور کرتے تھے۔
ہم سب ا س حقیقت سے آگاہ ہیں کہ مولانا آزاد کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی تھی او رمکہ کو دنیا کے خطہ امن کا درجہ حاصل ہے۔ مکہ کی پرنور فضا میں نہ صرف ان کی آنکھ کھلی بلکہ دس سال تک ان کی پرورش بھی ہوئی۔ بچپن ہی میں انہوں نے میثاق مدینہ کا مطالعہ کیا تھا اور اس کے اسباق ان کے ذہن پر ثبت ہوگئے تھے۔ دراصل میثاق مدینہ اسلامی معاشرے کا ایک ایسا ضابطہ تحریر تھا جو نہ صرف پہلی اسلامی ریاست کا دستور تھا بلکہ عالمی تہذیب و تمدن کی تاریخ میں اس طرح کا ضابطہ انسانی معاشرہ قبل ازیں تحریر نہیں ہوا تھا اور مولانا آزاد کے ذہن کے گوشے گوشے میں میثاق مدینہ کے چراغ روشن ہوگئے تھے۔
جہاں تک مولانا آزاد ابوالکلام آزاد کے نظریہ تکثیرت کا سوال ہے تو انہوں نے اپنی عملی زندگی، تحریروں اور تقریروں سے یہ ثابت کردکھایا کہ وہ ہندوستان کی مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی شناخت کے امین ہیں، وہ فلاح انسانیت کے لئے مذہبی اور ثقافتی شناخت کے امین ہیں، وہ فلاح انسانیت کے لئے مذہبی اتحاد کو لازمی سمجھتے ہیں۔بالخصوص ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کو ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے بنیادی اینٹ تصور کرتے ہیں۔ دراصل مولانا آزاد کی ہمہ جہت شخصیت کے افہام و تفہیم کامسئلہ ہنوز پیچیدہ بنا ہوا ہے کیونکہ بیشتر آزاد شناسوں نے مولانا آزاد کی شخصیت او رفکر و نظر کی گہرائی و گیرائی تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ان کے متعلق ان کے اکابرین او رہم عصروں کی آرا پر انحصار کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جن کی نظر میں مولانا آزاد کی شخصیت پیکر فرشتہ کی رہی ہے ان لوگوں نے مولانا آزاد کی شان میں محض قصیدے پڑھے ہیں اور جن کے نگاہوں میں مولانا آزاد کی شخصیت نا پسندیدہ رہی وہ مولانا آزاد کی شخصیت اور فکر و نظر کی اہمیت و معنویت کو مجروح کرنے کی روش عام کرتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اب تک مولانا آزاد کے ساتھ انصاف نہیں ہوسکا ہے۔میرے خیال میں مولاناآزاد کی شخصیت اور افکار و نظریات کی جہتوں کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ مولانا آزادہی کی تحریر وں اور تقریرو ں کا غیر جانبدارانہ اور انصاف پسندانہ طور پر چراغ علم و دانش کی روشنی میں تجزیہ کرتے ہوئے کوئی حتمی رائے قائم کی جائے۔ جیسا کہ بیشتر غیر اردو داں مورخوں نے مولانا آزاد کی شخصیت او رفکر ونظر کا تجزیہ ان کی ذہنی روش اور تغیر زمانہ کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی بدلتی سیاسی فضا کی روشنی میں کیا ہے۔ مشہور عالم اسلامیات ہیملٹن الگ ژنڈرگب نے اپنی کتاب موڈرن ٹرینڈان اسلام او رپروفیسر و لفریڈ کینت ویل اسمتھ نے اپنی کتاب ’مارڈن اسلام ان انڈیا: اے سوشل انالیسس‘ اور سید محمود نے اپنی کتاب ”ہندو مسلم کلچرل اکورڈ میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ہندوستان میں انگریزوں نے جس طرح فرقہ واریت کی بنیاد پر اپنی حکومت کو استحکام بخشنے کی کوشش کی او رہندومسلمان کے درمیان نفاق پیدا کیا اس کے اثرکو زائل کرنے میں جن شخصیات نے اہم کردار ادا کیا ہے ان میں مولاناابوالکلام آزاد کااہم کردار رہا۔
پروفیسر محمد مجیب نے اپنی کتاب ’دی انڈین مسلم‘ میں بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر چہ ہندوستانی مسلمانوں میں اتحاد کا واحد عنصر ان کامذہب رہا ہے البتہ ان کی اس مذہبی شناخت کو مستحکم کرنے میں مولانا آزاد نے اہم رول ادا کیا۔ معروف مورخ تارا چند نے اپنی کتاب ’ہسٹری آف دی فریڈم موومنٹ ان انڈیا‘ میں اس حقیقت کا اعتراف کیاہے کہ مولانا آزاد نے ہندوستان میں نظریہ تکثیریت کو فروغ دیا اور ہندوستانی مسلمانوں کے متعلق جو ایک غلط فہمی پھیلائی گئی تھی کہ مسلمانوں کا نظریہ قومیت نظریہ حب الوطنی سے مختلف ہے اس کو دور کرنے کی کوشش کی۔مختصر یہ کہ مولانا آزاد نے اپنے اعمال و کردار کے ذریعہ اپنی اسلامی شناخت کو بھی مستحکم کیا اور غلام ہندوستان کو آزادی دلانے او رقومی اتحاد کے لئے ایک ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا جو ان کے رفقاء اور تحریک آزادی کے سپہ سالار وں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوا۔ بقول مولانا ابوالکلام آزاد ”ہندو مسلم اتحاد ہماری تعمیرات کی وہ پہلی بنیاد ہے جس کے بغیر نہ صرف ہندوستان کی آزادی بلکہ ہندوستان کی وہ تمام باتیں جو کسی ملک کے زندہ رہنے اور ترقی کرنے کے لئے ہوسکتی ہیں محض خواب و خیال ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ اس کے بغیر ہمیں قومی آزادی نہیں مل سکتی بلکہ اس کے بغیر ہم انسان کے ابتدائی اصول بھی اپنے اندر نہیں پیدا کرسکتے۔“
مولانا آزاد کا وہ خطبہ تو پوری دنیا میں چشم کشا کی حیثیت رکھتا ہے کہ جس میں انہو ں نے کہا تھا کہ ”آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بلندیو ں سے اتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہوکر یہ اعلان کردے کہ سوراج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان، ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہوجائے تو میں سوراج سے دست بردار ہوجاؤں گا مگر اس سے دست بردار نہ ہوں گا کیونکہ اگر سوراج کے ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستا ن کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہوگا۔“ مولانا ابوالکلام آزاد مذہب کو کسی طو رپر بھی ذہنی ارتقاء کے لئے مضر تصور نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا نظریہ تھا کہ مذہب انسان کو صالح کردار کا پیکر بناتا ہے او رملک کی تکثیرت انسان کی فکر و نظر کونئی قوت عطا کرتی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک خطبہ ’مسلمان او رمتحدہ قومیت‘ میں اپنے ا س نظریے کی یوں وضاحت کی ہے”میں مسلمان ہوں اور فخر محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں۔ اسلام کی تیرہ سو برسوں کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں۔ تیار نہیں کہ اس کو کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تاریخی، اسلام کے علوم وفنون، اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے او رمیرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں۔ بحیثیت مسلمان میں مذہبی او رکلچرل دائرے میں اپنی ایک خاص ہستی رکھتا ہوں او رمیں برداشت نہیں کرسکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے، اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی، وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے۔ میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں۔ میں ہندوستان کی ایک ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں، میں اس متحدہ قومیت کا ایک ایسا عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے۔ میں اس تکمیل کا ایک ناگزیر عامل ہوں۔ میں اس دعوے سے بھی دستبردار نہیں ہوسکتا۔“
میرے خیال میں مولانا ابوالکلام آزاد کا نظریہ ہندوستانی تکثیرت دراصل ان کی فکر اسلامی کا حاصل ہے کہ مذہب اسلام نے خدائے واحد کو پوری دنیا کا رب قرار دیا ہے۔ مولانا آزاد چونکہ خود کو ہندوستان کی تہذیبی وتمدنی شناخت کا ضامن سمجھتے تھے، اس لئے انہوں نے انسانی معاشرے کو قرآن و سنت کے ازلی و ابدی اسباق او رمذہب سناتن کے اوصاف جمیلہ کو اپنے پیغام کو محور و مرکز بنایا۔ بقول پروفیسر عبدالغنی:
”اصول طور پر مولانا ابوالکلام آزاد اپنے اسلامی نظریہ حیات کے تحت تمام مخلوقات کو اللہ کا کنبہ تسلیم کرتے تھے او رعملی طور پر ہندوستان میں یہاں کے تمام فرقوں او رطبقوں کو متحد کرکے حرّیت، مساوات اور اخوت کی بنیادوں پر ان کی سیاسی، معاشی، تعلیمی اور اخلاقی بہبود کے لئے کوشاں تھے۔“
خلاصہ کلام یہ کہ ان کی فکر ونظر کا محور ومرکز ان کا نظریہ فلاح وبہبود بشر ہے اور وہ ہندوستان جہاں کثیر المذاہب، کثیر اللسان او رکثیر التہذیب و تمدن یعنی وحدت میں کثرت نسخہ حیات کی مانند ہے وہا ں کی تکثیرت کی غیر معمولی تاریخی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں اور ان تاریخی تقاضوں کو وہ نہ صرف پورا کرتے ہیں بلکہ اپنی فکر و نظر کا ایک جزوبنالیتے ہیں۔ اس لئے مولانا آزاد کا نظریہ تکثیرت دراصل ان کا نظریہ حیات بھی ہے، نظریہ حریت بھی ہے اور نظریہ حب الوطنی بھی۔
