
اچھائی کے ساتھ ساتھ ہمیشہ برائی بھی انسان کی زندگی کا حصہ ہوتی ہے۔انسان کا جہاں معاشرے میں اچھی چیزوں سے واسطہ پڑتا ہے، وہیں پر کچھ بری چیزیں بری باتیں بھی اس کا گھیراؤ کیئے ہوئے ہوتی ہیں، اور کچھ لوگ اپنی خداداد صلاحیتوں کے ذریعے سے اچھائیوں کو سامنے لاتے ہیں اور اس پر انکا ضمیر بھی ان کو مجبور کرتا ہے، لیکن شاذ و نادر جب انسان کا ضمیر سو جاتا ہے تو اس کو جگانے اور کسی برائی کے متعلق مطلع کرنے کے لئے اس پر سرکار کی شکل میں دوسرے افراد ہوتے ہیں جو ان کو مختلف جرائم کا مرتکب ہونے سے بچاتے ہیں۔اگر وہ پھر بھی نہ رکیں تو سزا دے کر ان کو روکا جاتا ہے تاکہ معاشرے میں برائیاں عام ہو کر ہر کسی کو اس کی لت نہ لگ جائے جس کی وجہ سے معاشرہ تباہ ہو اور پورے ملک کی امیج پر اس کا اثر پڑے،،سماجی برائیاں تو ویسے بہت ساری ہیں جن کا احاطہ کرنا ناممکن ہے،لیکن تمام برائیوں کی جڑ نشہ اور شراب نوشی ہیں۔
ہمارے ملک ہندوستان میں نشہ مکت بھارت ابھیان جس کی شروعات 15 اگست 2020 کو بھارت سرکار کی طرف سے کی گئی تھی،جس کو ملک بھر میں اور خصوصاً ملک کے 272 اضلاع میں جہاں نشہ اور شراب نوشی عروج پر تھی، ایک مہم کے طور پرچلائی گئی تھی تاکہ ہندوستان کو نشہ مکت دیش بنایا جاسکے اور نوجوان خود کو اور سماج کو تباہ نہ کریں،بلکہ ایک صحت مند معاشرہ کی تعمیر میں اہم کردار ادا کریں۔اب اتنے اہم اقدام اٹھانے کے باوجود بھی کچھ علاقوں میں میں خصوصا جموں کشمیر میں شراب کے اڈے یعنی شراب خانے اور اس کے اسٹورس کی حوصلہ افزائی کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس طرح سرعام نشے کے لئے نشے کے اڈوں کو کھولنے کی اجازت دینا اور پھر ایک صحت مند معاشرے کی توقع رکھنا سمجھ سے بالا تر ہے،۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کے آ بیل مجھے مار، جہاں سرکاروں کو عوام کا خیر خواہ اور سماجی برائیوں کو روکنے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اگر وہی عوام کو کھلے عام اجازت دیں گے تو پھر کیسے جرائم رکیں گے؟ اگر شراب نوشی عام ہو گی تو زناکاری عام ہو گی، چوریاں ہونگی، ظلم و تشدد ہوگا،گھریلو جھگڑے ہوں گے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی برائی کو جڑ سے نہیں بلکہ اوپر سے دیکھتے ہیں اگر اوپر سے تھوڑا کاٹ بھی دیں گے تو وہ جڑوں کے بل بوتے پر پھر سے زندگی اختیار کر لے گی۔ یہی مثال شراب نوشی کی ہے۔ اگر ایک انسان شراب نوشی کرتا ہے، شراب پی کر غلط کام کرتا ہے تو اس کو سزا دینے سے بہتر ہے کہ شراب نوشی پر ہی پابندی لگائی جائے تاکہ آئندہ وہ فٹ رہے اور ایسی کوئی حرکت نہ کرے۔جموں وکشمیر میں شراب کی ہر جگہ دستیابی کی اجازت یقیناً جموں کشمیر کے صحت مند معاشرے کیلئے ایک بڑی رکاوٹ ہے،ایسی صورت میں نوجوان ملک کی ترقی کی خاطر نہیں بلکہ اپنی خواہش پوری ہونے کی خاطر لڑیں گے چاہے اس کے لئے انہیں ملک سے غداری ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔جب ایک عادی انسان کی عادت پوری نہ ہو پھر وہ باغی بن جاتا ہے اور تمام روکنے والوں کا دشمن بن جاتا ہے۔ مذاہب کی نظر میں دیکھا جائے تو کوئی بھی مذہب اس کے حق میں نہیں ہے،ہر کوئی اس کی مذمت کرتا ہے۔
جموں کشمیر میں نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے، اگر سرکار ان کو صحیح رہنمائی کرکے استعمال کریے تو یہ ملک کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔اسی ضمن میں ایک مقامی سماجی کارکن مولوی مشتاق، جن کی عمر تینتیس سال ہے، کہتے ہیں کہ شراب نوشی معاشرے میں پھیلی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ ایک شرابی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی ماں کی عزت کیا ہے؟ اس کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے تو وہ کیسے ملک کے ساتھ وفاداری کر سکتا ہے؟ ہمارے نوجوانوں کو اس وقت شراب کی نہیں نوکریوں کی اور روزگار کی طلب ہے کیونکہ نوجوان ایک قیمتی اثاثہ ہیں اگر ان کو غلط اور ان کی غلط رہنمائی کی جائے گی تو یقیناً معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اپنے حکمرانوں سے بڑی امیدیں ہیں لیکن جب سرکار کی طرف سے ایسی پالیسیاں لائی جائیں گی تو یقینا ہم نا امید ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ انتظامیہ اور مقننہ کواس پر روک لگانی چاہئے تاکہ صحت مند معاشرہ وجود میں آسکے۔وہیں ایک نوجوان مقامی سماجی کارکن سرفراز احمد کا کہنا ہے کہ اس سے ہمارے نوجوانوں پر اور طلبہ پربہت بڑا اثر پڑے گا؟ وہ کہتے ہیں کہ سرکارغلط پالیسی چلارہی ہے۔ ایک طرف نشہ مکت بھارت کرتی ہے تو دوسری طرف اسٹورس پرآسانی سے شراب دستیاب کرائی جارہی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا جموں کشمیر کوئی تجربہ گاہ ہے؟سرکار کو چاہیے کہ وہ ان نوجوانوں کی صلاحیتوں کا صحیح طور پر استعمال کرے اورانہیں شراب نہیں روزگار دے۔
وہیں ایک طالب علم محمد عرفان کا کہنا ہے کہ یہ ایک زہر کا انجکشن ہے جو نوجوانوں کو لگایا جارہا ہے اور پھر ان کے زندہ رہنے کی توقع کی جا رہی ہے۔وہ نوجوان کہتا ہے کہ ہمیں یہ سب نہیں چاہئے بلکہ بہتر روزگار چاہیئے۔اگر سرکارن چیزوں کو بند کر نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع میسر کرے تو یقینا نوجوان ملک و قوم کی خدمت کے لیے پیش پیش رہیں گے۔نوجوان خون ایک ایسی چیز ہے جس کو جہاں کا رخ دکھاؤ گے وہیں بہے گا۔اس وقت نوجوان ویسے بھی سماجی برائیوں کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر ہیں اگر مزید آگ پر پٹرول چھڑکا جائے گا تو بہترنتیجہ کی امید نہیں کرنی چاہئے۔(چرخہ فیچرس)
