تحریر:شاہ نواز علی شیر
چند برس قبل سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کرتارپور راہداری منصوبے کا افتتاح کیا تو اس وقت تقریب میں پاکستان ، بھارت سمیت دنیا بھر سے سکھوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔ جبکہ راہداری کی افتتاح سے قبل کی دستخطی تقریب میں بھی پاکستانی فوج و سول حکام نے بھارتی اداکاروں کے ساتھ خوب رقص کیا تھا ۔اس وقت بھارت کی جانب سے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ اور سیاسی راہنماء نوجوت سنگھ سدھو،ادارہ کار سنی دیول و دیگر نے شرکت کی ۔جہاں طے پایا کہ پانچ تا دس ہزار یاتری یاترا کر سکیں گے۔طے پایا کہ یاتریوں کے قیام کے لیے
موزیم،لائیبریری،درشن ڈیوڑی،دیوان استھان، کمپلیکس اور یونیورسٹی،پل،بارہ دری وغیرہ کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔جبکہ خصوصی ریلوے چلانے کا بھی عزم کیا گیا تھا ۔کرتار پور راہداری اس وقت بھرپور طور پر اپنا کام کر رہی ہے ۔اس وقت وزیر اعظم پاکستان نے یاتریوں کے لیے پاسپورٹ کی شرط بھی ختم کر دی تھی۔صرف شناختی دستاویزات ہی کو کافی قرار دیا تھا ۔
کرتار پور راہداری اس وقت بھی ریاست جموں کشمیر کے عوام کے لیے بہت سے سوالات چھوڑ گی تھی ۔جس سے حسب روایت بڑی بحث کا آغاز ہوا اور کافی وقت چرچا ہوتی رہی کہ اگر کرتار پور راہداری کھل سکتی ہے تو شاردہ نیلم راہداری کیوں نہیں کھل سکتی ؟ اور سیز فائر لائن پر دو طرفہ عوام کا مستقل طور پر گولہ باری سے قتل عام کیوں بند نہیں ہو سکتا؟یہ سوالات ٹاپ ٹرینڈ تھے ۔
آج ان چند سالوں کے بعد اک بار پھر یہ بحث آزاد جموں و کشمیر میں جاری و ساری ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں کرتار پور راہداری کی طرز پر نیلم شاردہ (یونیورسٹی) مقام سے کوریڈور ،راہداری بارے ایک قرار داد پیش کی گی ہے ۔
جس کی وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر سردار تنویر الیاس خان، پاکستان تحریک انصاف آزاد جموں و کشمیر، حریت کانفرنس، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ، جماعت اسلامی و دیگر جماعتوں نے سخت ردعمل دیتے ہوئے اس قرار داد کو بھارتی ، خاص کر مودی سرکار کے ایجنڈے کی تکمیل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ سیز فائر لائن پر ایسی راہدری شہداء کے خون اور ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل بارے کھلواڑ ہے۔
جبکہ دوسری طرف ترقی و آزادی پسند، جمہوریت، انسان ، ثقافت و تاریخ دوست حلقوں و مبصرین نے اس قرار داد کو بڑی نوید اور خوش آئند اقدام قرار دیتے ہوئے اس راہداری کو وقت کا تقاضا اور عوامی مطالبہ قرار دیا ہے۔جو مطالبہ کر رہے ہیں کہ سیز فائر لائن کے چودہ حلقوں سے راہدری ہونی چاہیں، تجارت کو آر پار شروع کرنا چاہیے، اگر بھارت و پاکستان کے درمیان تجارت ہو سکتی ہے تو سیز فائر لائن کے آر پار کیوں نہیں ہو سکتی ہے؟
قارئین! تہذیبی ثقافتی و تاریخی اثاثوں کے تحفظ،ترقی و نگرانی اور ان سے متعلقہ ریاستی عوام میں دلچسپی پیدا کرنا حکمرانوں ، سیاسی جماعتوں کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے تاکہ محب الوطنی اور یک جہتی کے حصول اور اس کے فروغ میں تہذیبی و ثقافتی اور تاریخی سلاوب کو بوقلمیونیوں اور ثقافتوں کے مکالمے کو فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ ان کی حفاظت و تجدید اور ثقافتی عوامل کا ڈھانچہ تعمیر ہو سکے۔
جبکہ اس بارے آزاد جموں کشمیر کی ریاست و ارباب بااختیار، پاکستانی حکمرانوں حکومتوں،اداروں اور پالیسی سازوں کی مجرمانہ غفلت،بے حسی و عدم دلچسپی اور ابن الوقتی تعصب تنگ نظری توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل جیسے مزموم مفادات و مقاصد کی وجہ سے پاکستانی زیر انتظام آزاد جموں کشمیر کی روایات رسم و رواج،زبانیں،علم و ادب،پرفارمنگ آرٹس،تہواروں میلوں روائیتی علوم دستکاریوں سمیت زبانوں بولیوں،لسانی تنوع کا فروغ مثالی نہیں۔ جس کی وجہ سے سب رفتہ رفتہ متروک ہو چکا۔ سابق وزیر اعظم چودھری مجید کے دور حکومت میں شاردہ کی مرمت وغیرہ کے لئے تقریبا ساٹھ لاکھ روپے کی منظوری دی گی۔ جبکہ اب حالیہ مردم شماری میں یہاں کی مادری زبانوں گوجری اور پہاڑی سمیت باشندگان جموں و کشمیر کی قومیت کا بھی باقاعدہ خاتمہ کر دیا گیا ہے جس سے مزید بحران پیدا ہو چکا ہے۔جبکہ یہ ہماری منقسم ریاست جموں کشمیر کی ایسی کھڑکیاں تھیں جو ترقی،یک جہتی،رواداری،مساوت محبت بھائی چارہ کے فروغ سمیت متعلقہ شعبوں کو سہارا دے کر ان کی تخلیق و پیداراور خوشیوں کے خوبصورت رنگوں کو کئی گنا مضبوط و مربوط مستحکم کر سکتی تھیں۔
اگر نیلم سمیت دیگر مقامات سے کوریڈور بنتے ہیں تو آزاد جموں و کشمیر میں سیاحت کو عروج ملے گا ۔ بین الاقوامی سطح پر بھی پزائرائی ملے گی ۔ دنیا بھر سے شاررہ و دیگر مقامات کی وزٹ و مطالعہ کے لوگ آئیں گے جو یہاں کے حالات دیکھیں گے اور جن تک براہ راست رسائی ہو گی۔
تعجب کی بات ہے کہ وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر ایک طرف تو سیاحت کے دعوے کرتے ہیں دوسری طرف اس قرار داد کی کھل کر مخالفت کر رہے ہیں ۔ مظفرآباد سے گلگت بلتستان کے لیے بس سروس شروع کرتے ہیں لیکن شاردہ نیلم راہدری کو بھارتی ایجنڈا قرار دیتے ہیں ۔
سب سے تعجب کی بات جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ردعمل پر ہے کہ وہ بات بات پر سیز فائر لائن کی طرف مارچ کرتے ہیں ، دھرنے دیتے ہیں لیکن اگر راہداری اوپن ہونے بارے قانون ساز اسمبلی میں ہوئی قرارداد پیش ہوتی ہے تو اس کو مودی کے ایجنڈے سے ملاتے ہیں ۔
آزاد جموں و کشمیر میں اس وقت روائیتی سیاسی جماعتوں سمیت قوم پرست ترقی پسند قیادت کا فقدان ہے ۔ جموں کشمیر تنازعہ پر واضح ، جامع ، دوٹوک قومی و بین الاقوامی اصل ریاستی حقیقی بیانہ بھی نہیں ہے۔ ہر ایک آزادی کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے عوام کو بھی کنفیوز کیا ہوا ہے ۔
آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں پہلی بار ایسی کوئی قرار داد پیش ہوئی ہے جس کی بھرپور حمایت کر کے عوامی ردعمل سے اس کو منظور کروا کر سیز فائر لائن سمیت شادرہ نیلم ، میرپور وغیرہ ، گلگت بلتستان ، لداخ کرگل راہدری کھلنی چاہیے ۔بلکہ دونوں جانب سے ان حکومتوں پر سخت دباؤ ہونا چاہیے تاکہ اس پوائنٹ پر عالمی برادری کو پاکستان بھارت گمراہ نہ کر سکیں ۔ اس بارے باشندگان جموں و کشمیر بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں اس بارے ہم ساتھیوں کے تعاون سے عید کے بعد بڑی کانفرنس کا انعقاد کریں گے۔
