
برصغیر میں فلم کی تاریخ چند عظیم اداکاراؤں کے تذکروں سے گونجتی رہی ہے۔ ان اداکاراؤں کی بازگشت کبھی کم نہیں ہو سکے گی ۔ نرگس ان ہی اداکاراؤں میں اپنی فنی عظمت کا نشان ہے، جسے صنعت فلمسازی کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔ ) نرگس بہت حسین اداکارہ نہیں تھی ۔ نہ اس کی شخصیت میں کوئی کشش تھی ۔ پرکشش
اداکاراؤں میں اس کا شمار کبھی کیا بھی نہیں گیا۔ اس کا الہر پن ، سادگی کے تیکھے نقوش کی جادوگری، اس کے سروقہ میں بج کرفن کی باریکیوں کو سمیٹ کر اسے اداکاری کی لازوال عظمت کی طرف لے آئیں۔
نرگس کا بھولا پن اس کے اظہار فن کی خوبیوں میں بے مثال بن کر شامل رہا۔ اس کی شہرت کے خزانے میں راج کپور سے اس کے رومانس کی داستانیں ایک دور میں پوری شدت سے زبان زد عام رہیں ۔
نرگس، راج کپور کا رومان برصغیر کی صنعت فلمسازی کا ایک طوفان انگیز اسکینڈل بنارہا۔ اس کی بازگشت آن بھی کم نہیں ہوسکی ہے۔ فلم کی تاریخ سے وابستہ رہے گا جس نے نرگس کا سب کچھ چھین لیا اور دیا کچھ بھی نہیں لیکن فن اس کے وجود میں پروان چڑھا اور جب اظہار کی راہ نے
شدت اختیار کی تو وہ اپنی تاریخ کی تعظیم اداکاراؤں کی صف میں آکھڑی ہوئی ..نرگس کی داستان کے پیچ و خم بچپن ہی سے حالات کی نیرنگیوں کا شکار ہوتے رہے ۔ اس نے روشنیوں اور تاریکیوں کے راستے دیکھے ۔ وہ بار بار قربانیوں کی بھینٹ چڑھتی رہی اور ان ہی راستوں پر چلتے ہوئے اس نے اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔
جدن بائی اپنے دور کی شعلہ صفت فنکارہ تھی۔ یکم جون 1929ء میں اس نے کلکتہ میں ایک بچی کو جنم دیا جو کئی بھائیوں کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ اس لڑکی کا نام فاطمہ رکھا گیا۔ بچپن کا لاڈ پیار اور فن کی دولت اسے ورثے میں ملی۔ ابھی نرگس بہت چھوٹی تھی کہ جدن بائی اسے فلم سازوں کے اصرار پر فلموں میں لے آئی۔ یہ وہ دور تھاجب بیش ترفلموں میں چائلڈا شٹارفلم کی کہانی کی ضرورت مجھے جاتے تھے ۔ یوں نرگس کی فنی تربیت کا آغاز ہوا۔ اس کی ماں نے حصول فن کے تمام اسرار و رموز سے آراستہ کیا اور صرف پندرہ سال کی عمر میں وہ محبوب پروڈکشن میں بننے والی فلم ” تقدیر کی ہیروئین بن کر جلوہ گر ہوئی ۔ اس فلم میں اس دور کا مقبول ترین اداکار موتی لال اس کا ہیرؤ تھا۔ نرگس نے موتی لال جیسے منجھے ہوئے اداکار کے سامنے اپنی بھر پور موجودگی کا احساس دلایا۔ تقدیر کی کامیابی نے نرگس پر فلموں کے دروازے کھول دیے۔ فلم مینا بازار اور چھوٹی بھابھی میں شیام ‘ آدھی رات میں اشوک کمار ، لاہور میں کرن دیوان : داروغہ جی میں بیراج : انجمن میں واسطی ، رومال میں رحمان ، آگ میں راج کپور، اور میلہ میں دلیپ کمار کی ہیروئین بنی ۔ اس نے اپنی آمد سے فلم کے مقبول ترین اداکاروں کے مدمقابل اداکاری کے اعلیٰ جو ہر دکھا کر فلم بینوں کے دلوں کی دھڑکنوں میں جگہ بنالی فلم ‘انگارے میں ناصر خاں شیشہ میں سجن ، برہا کی رات میں دیو آنند اس کا ہیرو بنا۔ لیکن دلیپ کمار کے ساتھ اس کے جذباتی اور رومانی جوڑے کو فلم بینوں نے اپنے دل میں جگہ دی۔ فلم انداز ، انوکھا پیار”، "بابل” "جوگن” دیدار اور ہل چل” نرگس اور دلیپ کمار کے ملن کی بے مثال شاہ کار بن گئیں۔ ان کی جذبات انگیز اداکاری نے فلم بینوں کو بے حد متاثر کیا۔ جن دنوں نرگس اپنی کامیابیوں کی جانب گامزن تھی ، راج کپور فلم میں اپنا مقام بنانے کی جدو جہد کر رہا تھا۔ اسی کاشش میں اس نے ” آگ بنائی۔ اس فلم میں اس نے ہیر وئینوں کا میلہلگایا۔ کامنی کوشل، نگار سلطانہ اور نرگس ایک ہیرو کی تین ہیروئنیں تھیں ۔ اس کامیابی نے اسے اپنا فلمساز ادارہ بنانے کے قابل کر دیا۔ یوں آر کے فلمز کی بنیاد پڑی۔ اس ادارہ نے برسات” جیسی نغمہ بار فلم پیش کر کے فلمی صنعت میں ایک تہلکہ مچادیا۔ نرگس، راج کپور کی رومانی جوڑی فلم بینوں کے لئے لطف وسرور کا پیغام بن گئی ۔ برسات‘ نے برصغیر بھر میں بے پناہ کامیابی حاصل کی اور یوں چالاک اور ذہین راج کپور، نرگس کو دلیپ کمار سے توڑ لانے میں کامیاب ہو گیا۔ نرگس، راج کپور جان پہچان اور پیار کے دوران راج کپور کی اپنی دوسری فلم آوارہ ” جب منظر عام پر آئی تو اس فلم نے راج کپور اور نرگس پر فلمبند کئے جانے والے رومانی مناظر اور فلم اپنے موضوع گانوں اور اعلیٰ ہدایت کاری سے مزین ہونے کے ناتے ریکارڈ کامیابیوں سے ہمکنار ہوئی فلم امر انہونی "آشیانہ ” بے وفا اور راج کپور کی آہ نے اس رومانی جوڑی سے فلمی صنعت کی دوسری رومانی جوڑیوں کو گہنا دیا۔ راج کپور کی ذہانت اور چالا کی نے نرگس کے گرد اپنا جال پھیلا دیا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھاکہ نرگس اس کے علاوہ کسی دوسرے ہیرو کے ساتھ کام کرے۔ نرگس پوری طرح اس کے چنگل میں پھنس چکی تھی ۔ نرگس کو اس نے اپنی کامیابیوں کے لئے زینہ بنایا تھا جبکہ وہ اپنے خاندان میں کرشنا سے نہ صرف شادی کر چکا تھا بلکہ وہ تین بیٹوں کا باپ بھی بن چکا تھا۔ نرگس اس کی محبت میں گرفتار ہی نہیں تھی ، وہ اسے پاگلوں کی طرح چاہ رہی تھی ۔ ان ہی دنوں اس کی ماں نے فلم ” ہلچل‘ کی فلم بندی کے دوران دلیپ کمار کو اس سے سرگوشیاں کرتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا ” اگر تمہیں بے بی پسند ہے تو تم اس سے شادی کیوں نہیں کر لیتے ؟ اور اس پیغام کے بعد راج کپور نے نرگس کو دلیپ کمار کے ساتھ کام کرنے سے منع کر دیا۔ وہ قدم قدم پر اس کے اشاروں پر ناچ رہی تھی۔ اب صرف راج کپور تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ فلمی حلقوں میں اسے راج کپور کی خفیہ بیوی کہا جانے لگا تھا۔ راج کپور کا تجارتی ذہن اپنی کامیابیوں کی راہ ہموار کرتارہا۔ اس نے نرگس کو اپنی ملکیت بنا لیا۔ نرگس کی ماں کے لئے جب یہ سب تماشا نا قابل برداشت ہو گیا تو اس نے نرگس کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ اس پر پابندیاں سخت کردیں، لیکن نرگس ، راج کپور سے ملنے کے لئے کوئی راہ نکال ہی لیتی ۔
اس کی ماں نے فلمسازی کا ایک ادارہ نرگس آرٹ کنسرن قائم کیا تھا۔ وہ نرگس کی عدم دلچسپی کی وجہ سے بند ہو چکا تھا۔ ان ہی دنوں اس کی ماں بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ اب بڑے بھائی اختر حسین نرگس کی نگرانی کا فریضہ انجام دینے لگے۔ نرگس کے بھائی انورحسین اور نزیر حسین بھی ادا کاروں کی صف میں شامل ہو چکے تھے۔ وہ چاہتے تھے نرگس راج کپور کے علاوہ بھی کسی دوسرے ہیرو کے ساتھ کام کرے۔ فلم ”دلہن اور پاپی اس دوران ریلیز ہوئیں اور نا کام ہو گئیں۔ لیکن راج کپور کی شری چارسو بیس نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ نرگس پر راج کپور کا مکمل قبضہ تھا۔اس نے کچھ عرصہ قبل نرگس کو ” آن میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی تھی ۔ محبوب خاں نے نرگس کی جگہ نئی ہیروئین کو لے کر آن کوتاریخ ساز فلم بنادیا۔ بیجو باورا‘ سمیت کئی فلموں نے نرگس کو راج کپور ایما پر علیحدہ ہونا پڑا۔ اختر حسین نے نرگس کو قابو میں لانے کے لئے سب ہی جتن کر دیکھے لیکن نرگس پر راج کپور کا بھوت سوار رہا۔ اسے راج کپور سے جس قدر دور کیا جاتا،وہ اتناہی اس کے قریب آجاتی۔ ایک منصوبے کے تحت اس کی ملاقاتیں دیو آنند سے کرائی گئیں۔ ان دنوں دیو آنند ثریا کی زُلف کا اسیر تھا۔ اس نے اسے نیکی کا کام جانا۔ اسے علم تھا کہ راج کپور نرگس سے شادی نہیں کر سکے گا۔ دیو آنند کوشش رائیگاں گئی۔ اسے ثریا کی ناراضگی بھی مول لینی پڑی اور راج کپور مخالفت بھی اسے سہنی پڑی لیکن راج کو یقین تھا کہ نرگس کہیں نہیں جاسکتی۔ اب اس پر دیو آنند کا کھیل بھی آشکار ہو چکا تھا۔نرگس راج کپور کے خاندان میں شامل ہونے کے لئے کسی کسی بہانے سے اس کے گھر بھی پہنچ جایا کرتی۔ دیوالی کے موقع پر اس نے کپور فیملی کے گھر والوں میں جذب ہو کر جشن منایا۔ راج کو خوش کرنے کے لئے اس نے لکشمی پوجا کرنی شروع کر دی۔ وہ نجومیوں سے پوچھتی پھرتی کہ وہ راج کپورکو اپنا سکے گی یا نہیں۔ گھر میں بھائیوں کی مار پیٹ اور راج کپور کی جھڑ کیاں اور حالات کی مایوسیوں نے اسے بیمار کرنا شروع کردیا۔ راج کپور کے غصے اور برتاؤ سے دل برداشتہ ہو کر اس نے خودکشی کرنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن ساحل سمندر پر اس کے بھائی نے اسےبچالیا۔ وہ کبھی کبھی فلمبندیوں کے دوران بے ہوش ہو کر گر جایا کر تی فیلمی صنعت میں اس کی بیماری کے چرچوں نے فلمسازوں کو اس سے ڈور کر دیا اور یہی وہ بات تھی جو راج کپور چاہتا تھا۔ وہ راج کپور کی محبت میں اندھی ہو کر ذہنی طور پر ہندو ہو چکی تھی ۔ اس کی مانگ میں سیند ورد یکھ کر فلمی حلاقوں میں یقین کیا جانے لگا کہ وہ راج کپور کی بیوی بن چکی ہے۔ لیکن اب راج کپور کو اس کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ وہ اب اس سے یہی کہتا کہ وہ اس کا پیچھا چھوڑ دے۔ راج کپور نے یہاں تک کہا کہ ” میرے علاوہ تمہیں پوچھتا ہی کون ہے؟ نرگس کی آنکھیں کھل گئی تھیں ۔ راج سے اس کے شکوے گلے رائیگاں جار ہے تھے ۔ اب وہ اس کی مطلب پرستی کو پوری طرح سمجھ چکی تھی ۔ چوری چوری نرگس کی راج کپور کے ساتھ آخری فلم ثابت ہوئی۔ کامیابی اس فلم کا مقدر بنی۔ چوری چوری کی فلمبندی کے دوران محبوب نے نرگس سے اظہار ہمدردی اور راج کپور سے اس کی علیحدگی کو دیکھتے ہوئے فلم ‘مدرانڈیا میں مرکزی اور مختلف کردار پیش کر دیا۔ اس فلم میں اس کے بیٹوں کے کرداروں میں سے ایک کردار دلیپ کمار کو دیا گیا، لیکن دلیپ کمارنے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ "نرگس اس کی ہیروئین رہی ہے ، وہ اسے ماں کے طور پر قبول نہیں کر سکتا۔ دلیپ کمار نے محبوب خان کی ناراضگی کی بھی پروا نہیں کی ، جس نے اس کے فلمی کیر یئر کو بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ محبوب خاں نے اس کردار کو ایک نئے اداکار سنیل دت کے حوالے کر دیا ۔ سنیل دت نرگس کا پرستار تھا۔ وہ جب بھی فلم کے سیٹ پر ہوتا نرگس کو احترام کی نگاہ سے دیکھتارہتا۔ ایک دن فلم کے ایک منظر کی فلمبندی کے دوران سیٹ پر آگ لگ گئی ۔ آگ کی شدت نے سیٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ نرگس ان شعلوں میں گھر گئی ۔ کسی میں اتنی جرات نہ تھی کہ وہ اپنی جان پر کھیل کر نرگس کوان شعلوں سے نکال لاتا۔ سنیل دت نے اس موقع پر اپنی جان کی پروا نہیں کی ۔ وہ نرگس کو بچا لانے میں کامیاب ہو گیا۔ سنیل دت کے زخم نرگس کے لئے وفا کا پیغام بن گئے ۔ چند دنوں کی رفاقت محبت بن گئی۔ راج کپور کی بے و فائی سے چوٹ کھائی ہوئی نرگس اپنا شکستہ وجود لئے سنیل دت کی نرملا بن کر اس کی شریک حیات بن گئی۔ یہ سب کچھ اس قدر جلد اور اچانک ہو گیا کہ جب فلمی صنعت میں اس شادی کی خبر عام ہوئی تو دھماکا خیز بن گئی۔ کسی کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
مد رانڈیا ” ریلیز ہوئی ، بزنس اور معیار کے اعتبار سے ایک بے مثل فلم قرار دی گئی۔ اس فلم کی تمام تر کامیابی نرگس کی اداکاری کی مرہون منت تھی ۔ مدرانڈیا یا بین الاقوامی سطح کی فلم تسلیم کی گئی۔ نرگس نے اس فلم میں اپنی اعلی اداکاری کے صلے پر ان گنت ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کئے اور اپنی اداکاری سے ایک تہلکہ مچا دیا ۔ اس نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اب بھی نرگس ہے اور یہ اس کا راج پورے سے ایک عملی انتقام بھی تھا۔ نرگس نے بھارت کا سب سے بڑا سرکاری اعزاز پدم شری بھی حاصل کیا۔ اس نے ‘مدرانڈیا” کے دوران جن فلموں کے معاہدے کئے تھے ، ان فلموں کی تکمیل کے بعد اس نے اپنے گھر یلو فرائض انجام دینے کے لئے فلموں سے علیحدگی اختیار کرلی۔ فلم "پردیسی لاجونتی ، عدالت ” گھر سنسان اور رات دن اس کی آخری فلمیں ثابت ہوئیں۔ یہ فلمیں ۱۹۶۰ء کے اوائل میں نمائش کے لئے پیش ہوئیں۔ اس فلم میں پردیپ کمار اس کا ہیرو تھا۔
نرگس اور سنیل دت کی شادی کو بیس سال گزرے اور جب ان کی اولاد جوان ہوگئی تو اچانک پریس کے حلقوں نے ایک سنسنی خیز خبر کو اچھالا۔ کہا جانے لگا کہ ڈمپل کپاڈیہ نرگس اور راج کی بیٹی ہے۔ راج نے ڈمپل کو نرگس کا روپ دینے کے لئے فلم "بابی بنائی۔ ” بابی میں راج کپور کا بیٹا رشی کپور حالات سے بے خبر ہونے کے سبب ڈمپل کپاڈیہ کے قریب آ گیا تھا اور اس سے شادی کر لینے کی خواہش رکھتا تھا۔ لیکن راج کپور کو ان تعلقات کا علم ہوا تو اس نے ایک منصوبے کے تحت رشی کپور سے ڈمپل کو علیحد ہ کر کے راجیش کھنہ کو ڈمپل کے قریب لا کر دونوں کی شادی کا اہتمام کر دیا۔ اخبارات میں اس اسکینڈل کی اشاعت کے بعد نرگس نے ہاتھ جوڑ کر ان عناصر سے التجا کی کہ وہ اس کی پر سکون ازدواجی خوشیوں کو تباہ نہ کریں۔ نرگس کی یہ التجا کارگر ثابت ہوئی۔ اس کا گھر اجڑنے سے محفوظ رہ گیا۔ کو بھارت میں بے حد احترام حاصل ہوا ۔ نرگس پارلیمنٹ کی رکن بھی منتخب کی گئی۔ وہ
سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی۔وہ سنیل دت نے بھی اداکاری میں بڑا نام پیدا کیا ۔ وہ فلمساز اور ہدایت کار بھی بنا۔
سنیل دت نے نرگس کو بے پناہ پیار دی۔ اس کی ہر خواہش کا احترام کیا۔ نرگس جب کینسر کے موذی مرض میں گرفتار ہوئی تو سنیل دت نے اپنے اوپر آرام حرام کر لئے ۔ نرگس کی زندگی کو بچانے کی خاطر کوئی جتن ایسا نہ تھا جو اس نے نہیں کیا ہوں۔ وہ مایوس ہوکر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رویا کرتا تھا۔ اس نے آخری وقت تک نرگس کی تیمارداری کی۔ بمبئی کے برج کنیڈی اسپتال سے ” اسے اچھے علاج کی آس میں امریکہ لے گیا۔ وہ اس کے بیمار جسم کو لئے لئے پھرتا رہا لیکن موت نے نرگس کو اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ لیا تھا۔ وہ جانبر نہیں ہوسکی اور وہ اس دنیا کے سارے بندھن کو تو ڑ کر قید زندگی سے آزاد ہوگئی ۔ اس نے سنیل دت سے وصیت کی تھی کہ اس کی لاش کو دفن کیا جائے۔ وہ مسلمان پیدا ہوئی تھی اور مسلمان کی حیثیت سے پیوند خاک ہونا چاہتی تھی ۔ سنیل دت نے اس کی وصیت کا احترام کرتے ہوئے اسے اس کے آخری آرام گاہ تک پہنچایا۔ !
