از:فاروق بانڈے
سوشل میڈیا کا بہت زیادہ استعمال کم عمر نوجوانوں کیلئے کیسا ہے؟ سٹڈی رپورٹ کے نتائج جان کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ لندن میں شائع ایک تازہ ترین سٹڈی میں انکشاف کیاگیا ہے کہ سوشل میڈیا کا بہت زیادہ استعمال کم عمر نوجوانوں کیلئے نقصان دہ ہے۔نوجوانوں اور بچوں میں شراب نوشی، منشیات کے استعمال، سگریٹ نوشی اور جوئے کو بھی سوشل میڈیا کی وجہ سے فروغ ملتا ہے۔ گلاسگو اور اسٹیریٹھ کلائیڈیو یونیورسٹی اور پبلک ہیلتھ اسکاٹ لینڈ کی ایک ٹیم نے10سے19 سال کے نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے اثرات کا جائزہ لیا ہے اس سٹڈی میں 1997سے2022کے دوران کی گئی73سٹڈیز کے ڈیٹا کا بھی معائنہ کیا گیا۔ اس سٹڈی سے ظاہر ہوا کہ شراب کے استعمال کے48فیصد، منشیات کے استعمال کے28فیصد اور سگریٹ نوشی کے 85فیصد واقعات کا تعلق روزانہ سوشل میڈیا کے استعمال سے ہوتا ہے۔ ریسرچرز نے دعویٰ کیا ہے کہ روزانہ سوشل میڈیا پر2گھنٹے گزارنے والے کم عمر نوجوانون پر اس کے اثرات زیادہ شدید ہوتے ہیں۔ ریسرچرز کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کا مسلسل استعمال جنسی رویئے پر بھی منفی انداز میں اثر انداز ہوتا ہے جو لوگ روزانہ سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں ان کے سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور جوا ء کھیلنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ سٹڈی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوجوانی میں قدم رکھنے والوں کو اس خطرے سے بچانے کیلئے تعلیمی، سرکاری، صحت اور تعلیمی شعبے کو احتیاطی تدابیر تجویز کرنی چاہئیں۔ اسی تناظر میں ہم نے سرینگر میں قائم ذہنی صحت ہسپتال (انسٹچیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز، IMHANS) میں تعینات ماہر نفسیات ڈاکٹر صباء یونس سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ہر نئی چیز اپنے فوائداور نقصان کے ساتھ آتی ہے۔ سوشل میڈیا کے فوائد بھی ہیں لیکن اس کے اپنے نقصانات ہیں۔ سوشل میڈیا کسی فرد کی جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے۔ اثر انداز کرنے والوں کے طرز زندگی کو دیکھ کر ایک فرد میں غیر مناسب اور غیر حقیقی توقعات پیدا کرتا ہے جو چڑچڑاپن، افسردگی، اضطراب کا باعث بن سکتا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر تشدد دیکھنے سے PTSD ہو سکتا ہے۔(پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) ایک دماغی صحت کی حالت ہے جو ایک خوفناک واقعہ سے پیدا ہوتی ہے – یا تو اس کا تجربہ کرنا یا اس کا مشاہدہ کرنا۔ علامات میں فلیش بیکس، ڈراؤنے خواب اور شدید اضطراب کے ساتھ ساتھ واقعہ کے بارے میں بے قابو خیالات شامل ہو سکتے ہیں۔)ان کا کہنا ہے کہ ا نسانی تعلقات، اور آمنے سامنے بات چیت تناؤ کو کم کرنے اور موڈ کو بہتر بنانے کے لیے جانا جاتا ہے۔ لیکن آج سوشل میڈیا کے تعلقات کو ذاتی تعلقات پر ترجیح دی جاتی ہے جس وجہ سے غیر ضروری توقعات بڑھ جاتی ہیں اور اس سے کسی فرد میں ذہنی اظطراب بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے جس وجہ سے کئی طرح کی ذہنی بیماریاں پنپ سکتی ہیں۔سوشل میڈیا پر ہم وہ بھی دیکھتے ہیں جو حقیقت سے بعید ہے مگر اس میڈیا پر بار بار ایسی چیزیں دیکھنے کی وجہ سے ہم ان پر شک تو کرتے ہیں مگر بلکل خارج بھی نہیں کرپاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ کیا یا کوئی فوٹو یا ویڈیو ڈالا تو اس پر کئی طرح کے لوگ کئی کمینٹ کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسے کمنٹ شائستگی کی تمام حدوں کو پار کرکے بیہودگی کی انتہا کرتے ہیں۔ اس قسم کے پوسٹ یا کمنٹس کی وجہ سے کچے اذہان پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ کسی کو بغیر جانے پسند یا نا پسندکرتے ہیں۔سوشل میڈیا کی لت اور سوشل میڈیا سے محروم ہونے کا خوف کسی شخص کو ہر چند منٹ میں بغیر کسی اطلاع کے اپنا فون چیک کرنے یا پیغامات کا زبردستی جواب دینے پر مجبور کر سکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صباء کا کہنا تھا کہ
آن لائن سماجی تعلقات صحت مند ہوسکتے ہیں لیکن ساتھ ہی کم عمر نوجوانوں پر اس کا منفی اثر بھی پڑ سکتا ہے۔ اس میڈیا پر سنسر شپ نہیں ہے،یہ نوجوان کیا دیکھتے ہیں اس پر کوئی پابندی نہیں ہے نہ اس پر ہے کہ کہ وہ کس کے ساتھ بات چیت کر تے ہیں اور وہ کس قسم کے لوگ ہیں۔ لہذا، یہ صدمے، تشویش، ڈپریشن، اور خوف اور قانونی نقصانات سمیت منفی نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو آج تکلیف دہ افواہیں، جھوٹ اور بدسلوکی پھیلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اپنے شکار پر دیرپا جذباتی نشانات چھوڑ سکتا ہے۔”ہم سبھی سوشل میڈیا سے متاثر ہو سکتے ہیں، لیکن کم عمرنوجوان، لڑکے اور لڑکیاں، سوشل میڈیا کے منفی اثرات کا زیادہ شکار ہیں ، وہ غنڈہ گردی کا سب سے زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔ سائبر غنڈہ گردی بے چینی ڈپریشن سماجی تنہائی کا باعث بن سکتی ہے“
سوشل میڈیا پلیٹ فارم آجکل پیسہ کمانے کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ پیسے کمانے کی دوڈ نے ان پلیٹ فارموں کو اس قدر پراگندہ کیا ہے کہ کچے ذہن ان کی چکاچوند اور غیر اخلاقی طرز عمل سے متاثر ہوکر اپنے لئے نئی مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ ایسے اور دیگر مواد سے سوشل میڈیا کے عادی بن جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے عادی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ حقیقی زندگی اور خاندانی تعلقاات سے محروم رہتے ہیں، اور ایک ایسے طرز زندگی کی طرف بڑھتے ہیں جو تنہائی، اختلافات اور تنازعات کی طرف جاتا ہے۔ آن لائن مواد کی مسلسل نمائش خود اعتمادی اور جسمانی امیج کو متاثر کرتا ہے۔ غیر حقیقی مواد سے کچے ذہین لاشعوری طور پر اپنے آپ کا موازنہ کرنا شروع کر سکتے ہیں، اور ویسا ہی بننا پسند کر سکتے ہیں جیسا کہ وہ دیکھتے ہیں۔ ایسے حالات ان میں بے چینی اور محرومی کا احساس پیدا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں موجود فلٹرز حقیقت کو مسخ کرتے ہیں، جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے مثبت پہلو بھی ہیں۔ ہم سب نے دیکھا کہ کووڈ کے دوران عام لوگوں تک معلومات پہچانے کا کام کس خوش اصلوبی سے اس میڈیا کے ذریعے کیا گیا۔ اس دوران طلباء نے بھی استعفادہ کیا۔ گھر سے باہر نکل نہ سکتے تھے مگر پیغام رسائی کا کام بہت ہی تیز اور فائدہ مند ثابت ہوا۔”سوشل میڈیا نے کووڈ کے وقت دماغی صحت کو بچانے کا کام کیا۔ اگر ہم اس کے مثبت پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، تو یہ ہمیں پیاروں سے جڑنے اور بیداری بڑھانے میں بھی ہماری مدد کرتا ہے اور یہ معلومات کا ایک قیمتی ذریعہ ہو سکتا ہے۔ ہم دماغی بیماریوں سے متعلق کسی بھی علمی مواد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس دماغی صحت اور اسے بڑھانے کے طریقہ کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔“ ڈاکٹر نے کہا۔ کیا ہم کسی نئی ایجاد، سوشل میڈیا کو روک سکتے ہیں؟ ”نہیں ہم کسی بھی نئی سائنسی ایجاد کو روک نہیں سکتے ہیں۔ جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے ، یہ موسم کی طرح ہے۔ یہ ہر جگہ ہے۔ ہر وقت ہے، ہم اسے روک نہیں سکتے۔ ہم اس سے بچ نہیں سکتے لیکن ہمیں محفوظ طریقے سے اس کا استعمال کرنے کی مہارت کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔“ ڈاکٹر صباء نے کہا۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو سوشل میڈیا کے اچھے اور برے بارے میں آگاہ کریں۔ ہم سب اس بات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ اس سے کیسے نمٹا جائے، لیکن جو چیز سکھانے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ دوسروں کو شرمندہ نہ کریں ہمیں بچوں کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک شخص کی مختلف خصوصیات ہیں اور ان میں سے کوئی بھی پہلو نارمل اور غیر معمولی کی وضاحت نہیں کرتا۔ جذباتی ردعمل، سماجی نوعیت، اور تعلیمی قابلیت میں انفرادی فرق کو بھی سکھایا جانا چاہیے۔ سوشل میڈیا کا محدود استعمال کرنے کی ترغیب کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر اثر انداز کرنے والوں کی ان دیکھی پیروی کرنے سے دور رکھنے اور پرتشدد ویڈیوز اور بالغ مواد دیکھنے سے منع کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے اسکولوں وکالجوں میں سپورٹ گروپس بنائے جائیں جہاں مختلف موضوعات پر کھل کر بات کی جاسکے۔ یہاں پر نہ صرف والدین اور اساتذہ کا رول بنتا ہے بلکہ سماجی،مذہبی مبلغین، سرکار و غیر سرکاری تنظیموں اور سوشل میڈیا کمپنیوں کا بھی اہم رول بنتا ہے۔ آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ کسی طرح کی بھی نئی ایجادکو روکا نہیں جاسکتا ہے۔ اگرنئی سائنسی پیشرفت نہ ہوگی تو ترقی منجمند ہوگی جو کسی بھی طریقے سے انسانی بقاء کے لئے سود مند نہیں۔
