تحریر:جہاں زیب بٹ
گزشتہ ہفتے جموں و کشمیر بورڑ آف سکول ایجوکیشن اس وقت اخباری شہ سرخیوں میں آگیا جب یہ خبر گرم ہوئی کہ بوس نے چار سو سے زائد نجی سکولوں میں زیرتعلیم دسویں جماعت کے طلاب کے امتحانی فارم لینے سے انکارکردیا ۔اس خبر سے پرائیوٹ سکول مالکان کے حلقے میں بھگدڑمچی یا نہیں وہ ایک الگ مسئلہ ہے البتہ بوس کی کارروائی کی وسیع پیمانے پر مخالفت کی جارہی ہے کیوں کہ اس سے دولاکھ طلاب پریشان ہیں جو نجی سکولوں میں درج ہیں ۔چنانچہ معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے بورڈ حکام نے فوری طور پر مذکورہ خبر کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا اور اس بات کو واضح کیاگیا کہ دسویں جماعت کے ایک بھی طالبعلم کو آنیوالے سالانہ امتحان میں شامل ہونے سے روکا نہیں جائے گا تاہم حکام نے اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ آخر ان چار سو پرائیوٹ سکولوں کا کیا حشر ہونے والا ہے جن کی رجسٹریشن اس بناء روک دی گئی کہ ان کی سکول عمارتیں مکمل یا جزوی طور پر سرکاری زمین پر بنائی گئی ہیں۔
یہ بات قابل ذکرہے کہ دفعہ 370مٹنے کے بعدجب انتظامیہ نے سرکاری اور کاہچرائی زمین پر کھڑی عمارتیں ہٹانے کی مہم چھیڑدی تو اس کے چلتے حکومت نے 2022میں تعلیمی قوانین میں ترمیم لائی اور پرائیوٹ سکولوں کی زمین اور ڈھانچوں کے لیے نئے رہنما خطوط وضح کئے جس کے بعد رجسٹریشن کے لیے محکمہ مال سے NOCکا حصول لازمی قرار دیا گیا ۔اسکی زدچارسو سے زیادہ نجی سکولوں پر پڑی اور یوں اس حلقے میں کھلبلی مچ گئی ۔ ادھر محکمہ تعلیم کے حکام نے ایک حکمنامہ صادر کردیا جس کے تحت سرکاری اور کاہچرائی زمین پرکھڑے پرائیوٹ سکولوں کو فی الفور سکولنگ بند کرنے اور وہاں زیر تعلیم طلاب کو نزدیکی سرکاری سکولوں میں درج ہونے کی ہدایت دی گئی ۔تاہم تنازعہ یہیں ختم نہ ہوسکاکیوں کہ پرائیوٹ سکول مالکان نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا جس نے فوری راحت کے طور پر سرکاری فیصلے پر حکم امتناعی جاری کردیا اور ا س معاملے میں جوں کی توں حالت قائم رکھنے کی ہدایت دی ۔ چنانچہ گزشتہ برس کسی رکاوٹ کے بغیر ان سکولوں نے آٹھویں ، نویں اور دسویں جماعت کے فارم بھردئیے جس سے یہ اخذ کیا گیا کہ انہدامی مہم کوالتوا ء میں رکھنے کی طرح انتظامیہ نے نجی اسکولوں کے تئیں بھی نرم روی کا اصول اپنانے کا من بنالیاہے ۔ لیکن یہ قیاس آرائی غلط ثابت ہوئیںکیوںکہ سرکار نے ریاستی ہائی کورٹ سے ٹیگنگ Taggingکا اجازت نامہ حاصل کردیا ۔اس کے تحت زمین تنازعہ کی زد میں آئے نجی سکولوں کے طلاب کو کسی سرکاری سکولوں کے ساتھ ٹیگ کیا جاسکتا ہے تاکہ وہ بورڑ امتحانات میںشامل ہوسکیں ۔اس برس یہی طریقہ کار اپناکر متاثرہ طلاب کو امتحان میں شامل ہو نے کی اجازت دی جارہی ہے ۔
نجی سکول مالکان ٹیگنگ طریقہ کار پر برہم نظر آتے ہیں کیوں کہ آگے چل کر بو س جب دسویں جماعت کے نتائج ظاہر کریگا تو چار سونجی سکولوں کا نام اورپتہ ہی غائب ہوجائیگا ۔ اس ــ’’ نقصان ‘‘کے وہ متحمل نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ پرائیوٹ سکول ایسوسی ایشن کے صدرجی این وار نے واشگاف طور پر ٹیگنگ طریقہ کار کو پرائیوٹ سکولوں کو بلڈوز کرنے کے مترادف قرار دیاہے اور برملا کہا ہے کہ وہ بوس کاروئی کے خلاف ریاستی ہائی کورٹ میںتوہین عدالت کی درخواست دیں گے ۔الطاف بخاری سمیت کئی سیاسی لیڈروںنے تازہ کاروائی پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے بوس حکا م پر تانا شاہی کا الزام عائید کیا ہے۔ الطاف بخاری سے جی این وار تک ہر کسی نے پرائیوٹ سکول اشوع پر ایل جی منوج سنہا کی مداخلت طلب کی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جہاں بوس حکام نے وضاحت کی ہے کہ دسویں جماعت کے ایک بھی طالبعلم کاکیریر متاثر ہونے نہیں دیاجائے گا وہیں یہ بات دہرائی گئی کہ بوس پرائیوٹ سکولوں کی رجسٹریشن کی عمل کے حوالے سے صاف وشفاف پالیسی پر کاربند ہے ۔ یہ اس بات کاکھلا اشارہ ہے کہ بو س حکام کی جانب سے مذکورہ چار سو سکولوںکو فوری طور پر کوئی بڑی راحت ملنے والی نہیں ہے ۔ اب نظریں ایل جی اور عدالت عالیہ پر مرکوز ہیں ۔ ان دوسطحوںپر مداخلت ہوجائے تو معاملہ سلجھنے کی امید لگائی جاسکتی ہے۔ ویسے بھی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرائیوٹ سکولوں کے معاملے میں دوٹوک اور یکساںپالیسی اپنائے۔ اگر مشنری سکولوںکو لیزپرسرکاری زمین مل سکتی ہے تو یہی طریقہ کار چارسوسکولوںکے معاملے میںاپنانے میںکیا دقت ہے ۔روزی روٹی سمیت اس مسلے کے کئی ایک پہلو ہیں جن پرسنجیدہ بحث ومباحثہ ہوجائے تو حکومت اس نتیجہ پر پہنچے بناء نہیں رہ سکتی کہ سمجھوتہ بہتر اور احسن راستہ ہے ۔
