جہاں زیب بٹ
اس حقیقت کے باوجود کہ حالیہ اسمبلی الیکشن میں این سی جموں میں ناکام رہی یو ٹی چیف منسٹر عمر عبداللہ جموں کی جانب جھکاؤ کا تاثر دینے میں کو ئی کسر باقی نہیں چھو ڑ رہے ہیں ۔انھوں نے نومبر میں اپنا سر مائی دفتر جموں منتقل کیا جسے دربار مو کی واپسی کے بارے میں منتخب حکومت کے مصمم ارادوں کا اظہار مانا جارہا ہے۔اس سلسلے میں جہاں عمر عبداللہ حکومت بار بار اعلانات کررہی ہے وہیں حال ہی میں چیف منسٹر نے جموں میں بااثر شہریوں کی مٹینگ طلب کی جس میں ڈوگرہ آبادی کو کھل کر اپنی بات کہنے کا موقعہ دیا گیا۔ایک مقامی مسلم گروہ نے شکایت کی کہ ان کو مٹینگ میں بلانے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی ۔اس کا مطلب یہ ہے عوامی حکومت کی توجہ ترجیحی طور پر ڈوگرہ آبادی پر مرکوز ہے اور ان کی بات سننا اور ان کو اعتماد میں رکھنا سرکار کی اہم پالیسی ہے تاکہ وہ احساس محرومی کا شکار نہ ہوں۔
شہریوں کی مٹینگ میں عمر عبداللہ نے جموں کی کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے میں خاصی اہمیت کا حامل دربار مو بحال کر نے کا وعدہ دہرایا اس کے بعد ایک پریس بریفنگ میں انھوں نے بی جے پی پر تابڑ توڑ حملے کئے کہ اس نے ان کے بقول جموں کے ساتھ ذیادتی کی ۔عمر صاحب نے الزام لگایا کہ بی جے پی ڈوگروں اور جموں کی خیر خواہ ہو نے کا دعویٰ تو کرتی ہے مگر سچائی یہ ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے جموں کو جو کچھ تحفتاً دیا تھا بی جے پی نے ایک ایک کر کے ان سے سب کچھ چھین لیا جس میں جغرافیائی نقشہ تبدیل کرنا ،سٹیٹ سبجکٹ قانون ہٹانا اور دربار مو کی روایت ختم کرنا شامل ہے ۔چنانچہ جموں سے ہمدردی اور پیار جتلاتے ہو ئے عمر عبداللہ نے دعویٰ کیا کہ وہ باجپا کی غلطیوں کو سدھاریں گے اور وہ سب کچھ جموں کو واپس دینے کی کوشش کریں گے جو ان سے چھین لیا گیا جس میں دربار مو کی بحالی بھی شامل ہے۔
عمر عبداللہ کی جموں نواز پالیسی قابل فہم ہے ۔شیخ محمد عبداللہ کا زمانہ تھا تو این سی ایک ریاست گیر تنظیم تھی جموں ،کشمیر اور لداخ یعنی تینوں خطوں میں اس کا طوطی بولتا تھا اور کسی کی ہمت اور طاقت نہیں تھی کہ وہ اس کا مقابلہ کرتا لیکن دھیرے دھیرے سیاستدانوں نے علاقائی جذبات ابھارنے کا کھیل شروع کیا اور جموں میں این سی کی ساکھ کو زک پہنچا ۔نوے کے بعد حالات یکسر بدل گئے اور علاقائی اور مذہبی خطوط پر تقسیم کا زہر بو یا گیا جس کا نتیجہ سا منے ہے کہ حالیہ اسمبلی الیکشن میں منڈیٹ کے اعتبار سے جموں اور وادی ایک ہی صفحے پر نہ آسکے۔این سی کا ایک بڑی تنظیم کے طور پر احیاء نو تو ہوا مگر جموں نے منہ پھیرلیا ۔ اس کی وجوہات
چا ہے جو بھی ہو ں مگر این سی کی سیاسی خیر وخوبی اور حسن وجمال کے لیے جموں کا دل جیتنا از حد ضروری ہے اور اس معاملے میں عمر عبداللہ سنجیدہ بھی ہیں اور سرگرم عمل بھی۔
عمر عبداللہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ ان کی سرکار کے خلاف جموں میں ناراضگی کا کو ئی مواد پیدا نہ ہو جس سے علاقائی خلیج کی آگ کو آکسیجن ملنے کا اندیشہ ہے ۔وہ اس ڈھنگ سے حکومت چلانے کی کوشش میں جٹ گئے ہیں کہ گورننس کے حوالے سے علاقائی مساوات اور توازن میں کوئی ہیرا پھیری نہ ہو بلکہ جموں کی ناز برداری کا خاص خیال رکھ رکھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ عمر عبداللہ وادی کےبجا ئے جموں کی جانب جھکاؤ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔کابینہ میں زبردست نمائندگی سے لیکر دربار موکی بحالی کے لیےکمر کسنے تک ان کا ہر قدم جموں نوازی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔یہ پالیسی این سی اور علاقائی یکجھتی کے لئے کتنی سود مند ثابت ہوگی۔آنیوالا وقت ہی بتا دے گا۔
