تحریر:طارق شبنم
اُم المومنین حضرت خدیجتہ الکبریٰ ؓوہ پاک باز خاتوں تھی جس نے اپنا سب کچھ تاجدار انبیاء نبی آخر الزمان حضرت محمد مسطفٰیﷺ پر نچھاور کر دیا اور روئے زمین پر سب سے پہلے آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کرکے ایمان کی انمول دولت سے مالا مال ہوئی۔حضرت خدیجہ ؓمکہ کے ایک رئیس خولید کی بیٹی تھی جو ایک قبائیلی لڑائی ’’ حرب نجار‘‘ میںاز جان ہوگئے تھے جس کے بعد خدیجتہ الکبریٰ ؓ ان کی تمام جائیداد کی وارث و مالک بنی۔آپؓ نے تجارت کا پیشہ اختیار کرکے اپنی تجارت کو ملک شام تک پھیلادیا۔
رسول رحمت ﷺکی امانت داری، دیانت داری،فہم فراست اور تجارت میں اعلیٰ تجربہ کا چرچہ عام ہونے کی بنا پر خد یجہ ؓ ،جنہیں اپنے تجارت کے فروغ کے لئے ایک معتبر اور بھروسے مند شخص کی ضرورت تھی نے آپ ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ آپ ﷺان کی تجارت کے لئے شام جا رہے تجارتی قافلے کی سر براہی فر مائیں ۔جسے آپ ﷺ نے قبول فرمایا اور قافلے کے ساتھ ، جس میں خدیجہؓ کے غلام ’’میسر ‘‘ بھی شامل تھے کے ہمراہ شام کے تجارتی سفر پر نکلے۔ میسر کو خدیجہ ؓنے ہدایت دے رکھی تھی کہ واپسی پر مجھے محمد ﷺ کی پل پل کی خبر دے دینا۔واپسی پر میسر نے آپ کے سامنے جو حالات بیان کئے وہ ان کی امیدوں سے کئی بڑھ کر تھے ۔پوری دیانت داری اور محنت شاقہ سے آپﷺ نے اپنا کام انجام دیا تھا ۔ اس تجارت میں امید سے زیادہ منافع بھی حاصل ہوا تھا اور ذرے ذرے کا حساب و کتاب بھی موجود تھا ۔دور جہالت میںجب عرب معاشرہ ا خلاقی پستی کے اندھے غار میں گرا تھا تو حضرت خدیجتہ الکبریٰ ؓپاک دامنی اور پرہیز گاری کے اعلیٰ مقام پر فائیز تھی ۔ جس وجہ سے آپ کو دور جہالت میں طاہرہ کے مبارک لقب سے نوازا گیا تھا ۔قریش کے بڑے بڑے سردار آپ سے نکاح کے متمنی تھے مگر وہ سب کو انکار کرچکی تھی کیوںکہ ایک کے بعد دوسرے شوہر کے انتقال کے بعد آپ دنیا سے دل برداشتہ ہو چکی تھی اور اپنا زیادہ تر وقت خانہ کعبہ میں عبادت میں مشغول رہ کرگزارتی تھی۔آپ نہایت ہی عقل مند ہونے کے ساتھ ساتھ کریم النفسی اور اعلیٰ ظرفی میں اعلیٰ مقام رکھتی تھی ۔ اپنی خدا ترسی کی بنیاد پر آپؓ کا پہلے ہی خیال تھاکہ عرب میں ایک پیغمبر کا ظہور ہونے والا ہے جو ظلم و تاریکی کی سیاہ چادر کو چاک کرکے رکھ دے گا ۔میسر کے بیاں اور شفاف حساب کتاب نے خیال کو اس یقین میں بدل دیا کی محمدؐ ہی وہ شخصیت ہو سکتے ہیںتو خدیجہؓ آپﷺ پر دل وجان سے فدا ہوگئی اور اپنی سہیلی نفیسہ کی معرفت سے آپﷺ کو نکاح کا پیغام بھیجا ۔آپ ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب سے مشورہ کرکے نکاح کے پیغام کو قبول فرمایا ۔چناچہ پانچ سو طلائی درہم مہر کے عوض آپ ﷺ نے خدیجتہ الکبریٰ ؓ کے ساتھ پچیس برس کی عمر میں نکاح فرمایا جب کہ خدیجہ ؓ کی عمر اس وقت چالیس برس تھی ۔ سرور کائینات کے عقد نکاح میں آنے کے بعد خدیجہؓ نے اپنا سارا مال و زر آپ ﷺ کے قدموں میں خوشی خوشی نچھاور کردیا اور اختیار دیا کہ آپ ﷺ جس طرح چاہیں خرچ کر سکتے ہیں ۔غریبوں کے والی نے بی بی خدیجہ کی ساری دولت کو غرباء ،محتاجین ومساکین میں میں تقسیم فرمایا۔
ام المومنین خدیجہ ؓ سرور کائینات کے ہر حکم کی تعمیل خوشی خوشی فرماتی تھی ۔ آپ ﷺ کے نبوت کے بلند مرتبے پر فائز ہونے کے بعد سختیوں اور پریشانیوں کو خوشی خوشی برداشت کرکے آپ ﷺ کا بھر پور ساتھ نبھایا اور ماتھے پر کبھی شکن تک نہیں آئی ۔آپ ؓکو یہ سعادت بھی نصیب ہوئی کہ سرور کائیناتؐؐ کی نبوت پر ایمان لانے والی اولین خاتوں بنی۔ آپﷺ اکثر فرماتے تھے کہ خدیجہؓ نے میرا ساتھ اس وقت دیا اور میری نبوت کی تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے ۔ آپﷺ ارشاد ہے ۔’’جب لوگوں نے میری تکذیب کی اس وقت خدیجہؓ نے میری تصدیق کی ۔ جب لوگ کافر تھے تو وہ اسلام لائیں ۔جب کوئی میرا مدد گار نہیں تھا انھونے میری مدد کی اور میری اولاد ان ہی سے ہوئیں ۔عالم کی خواتین میں اٖفضل ترین مریم اور خدیجہؓ ہیں‘‘ ۔
غار حرا میں جب رسول مقبول ﷺپر جبریل امین ؑ نازل ہوئے اور اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ جبریل ؑ سے ملاقات واللہ کے کلام کے نزول سے مضطرب ہوئے ۔جسم اطہر میں تھر تھراہٹ پیدا ہوئی ۔کانپتے ہوئے غار سے نکلے اور سخت پریشانی کے عالم میں گھر پہنچے ۔چہرہ مبارک کا رنگ زرد،قلب مبارک پر خوف وہراس طاری تھا۔ حضرت خدیجہ ؓ یہ کیفیت دیکھ کر پریشان ہوئی اور دریافت فرمایا۔آپﷺ سے غار حرا کا واقعہ سن کربولیں۔میں دیکھتی ہوں کہ آپ ﷺاپنے عزیز و اقارب پر شفقت فرماتے ہیں ۔صادق ہیں ،مہمان نواز ہیں،بے کسوں اور یتیموں کی دستگیری فرماتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی غمگین نہیں کریں گے۔اچھی طرح سے ڈھارس بندھانے کے بعد آپ ﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورفہ بن نوفل کے پاس لے کر گئی جو تورات کے بڑے عالم تھے اور اپنے تقدس کے اعتبار سے دور دور تک کافی مشہور تھے ۔انھوںنے غار حرا میں پیش آمدہ واقعہ سن کر کہا۔
’’ بشارت خدا وندی آج پوری ہوئی۔بخدا یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ ؑ کے پاس آتا تھا ۔تم خدا کے رسول ﷺ ہو مگر یاد رکھو زندگی کی سخت گھڑی آنے والی ہے ۔ اپنی قوم آپ ﷺ کو گھر اور وطن سے نکال دے گی ۔کاش میں اس وقت زندہ ہوتا اور تمہاری مدد کر پاتا‘‘۔
چناچہ عربوں کو جہالت کی تاریکیوں سے نکالنے کے لئے آپ ﷺ نے جب دعوت حق پیش کردی تو ورفہ کے کہنے کے عین مطابق وہ سیخ پا ہوگئے ۔انہوںنے نہ صرف آپ ﷺ کی تکذیب کی بلکہ آپ ﷺ پر مظالم کے پہاڑ توڑے ۔تمام قبائیل عرب آپ ﷺ کے جان کے دشمن ہوگئے۔
شعیب ابی طالب میں تین سالہ محصوری کے اذیت ناک ایام کا بی بی خدیجہ ؓ نے بڑے ہی استقلال وخندہ پیشانی سے مقابلہ کرکے پیغمبرالاسلام کا حق رفاقت خوب ادا کیا ۔زندگی کے دن مشکل ترین حالات میں گزارے۔فاقہ کشی کرنی پڑی،درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کیا لیکن کبھی لبوں پرحرف شکایت نہیں لائی۔غرض کہ آپؓ نے اسلام کی روشنی پھیلانے میں بڑی مدد فرمائی اور آپؓ کی ذات سے اسلام کو کافی تقویت ملی ۔ام المومنین حضرت عائیشہ ؓ فرماتی ہیں ’’ گو میں نے ام المومنین خدیجہ ؓ کو نہیں دیکھا ہے لیکن مجھے جس قدر رشک ان پر آتا تھا کسی اور پر نہیں آیا‘‘۔سرور دو جہاں ﷺ بھی بی بی خدیجہ ؓ کی صلاحیتوں کا احترام کرتے تھے۔آپ ﷺ نے ان کی حیاتی میں دوسری شادی نہیںکی۔خدیجہ ؓکی رحلت کے بعد بھی آپ ﷺہاں کوئی اچھی چیز آتی تو آپ ﷺ ان کی سہیلیوں کو ضرور بجھواتے تھے ۔
ام المومنین خدیجہؓ اشاعت اسلام میں آخری وقت تک پوری جانفشانی سے کام کرتی رہیں ۔ام ا لمومنین ؓ کا رسولؒ ﷺ کے ساتھ نکاح،اپنی ساری دولت اسلام پر قربان کرنے سے اور ابتدا سے ہی ہر قدم پر شریک رہنے سے آپ ﷺ کو اپنے مشن میں آسانی پیدا ہوئی اور بالا آخر کامیابی و کامرانی میسر آگئی ۔