• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
بدھ, مئی ۱۴, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم رائے

سائنس کی تعلیم سے زیادہ سائنسی مزاج ضروری۔۔۔

Online Editor by Online Editor
2023-12-29
in رائے, صحت و سائنس, کالم
A A
سائنس کی تعلیم سے زیادہ سائنسی مزاج  ضروری۔۔۔
FacebookTwitterWhatsappEmail

شاہ تاج خان۔ پونے

ڈاکٹر اقتدار صاحب نے علمی و تحقیقی کام میں نہ صرف یہ کہ حصّہ لیا بلکہ ایک نیا اورقیمتی کام پیش کیا۔انہوں نے اپنی اِس کتاب میں نباتاتی محقیقین کے حق کو بھی اچھی طرح ادا کیا ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید میں مذکور ان پودوں کی اُن خصوصیات کو بھی واضح کیا ہے جن سے قرآن مجید کے ان واقعات کی ،جن کے ضمن میں ان پودوں کا ذکر آیا ہے ،زیادہ بہتر تشریح و توضیح میں مدد ملتی ہے۔بعض پودوں کے تشخص میں انہوں نے کچھ نئی باتیں بتائی ہیں،جن سے بعض مخفی گرہیں کھلتی ہیں اور بعض الجھنیں دور ہوتی ہیں۔خاص طور پر‘ سدر’ اور ‘کافور’ کی وضاحت اور تشخص میں انہوں نے نئی اور مفید باتیں لکھی ہیں۔’’

یہ کلمات مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی نے ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی کی کتاب‘‘نباتاتِ قرآن ۔ایک سائنسی جائزہ’’ کے پیش لفظ میں لکھے ہیں۔تو خود ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی کتاب لکھنے کے تعلق سے کہتے ہیں کہ‘‘میں نے سوچا کہ اگرمختلف دینی اورسائنسی کتابوں کا مطالعہ کر کے ‘منّ’ اور اُن سارے نباتات پر جن کا ذکر قرآنِ حکیم میں فرمایا گیا ہے، خالص سائنسی نقطہ نظر سے تفصیلات کو یکجا کر کے ایک کتابی شکل دے دی جائے تو شاید یہ ایک مفید اور نیا کام ہو۔’’ڈاکٹر فاروقی عالمِ دین نہیں ہیں بلکہ ایک ماہرِ تعلیم اور سائنس داں ہیں۔

آواز دی وائس سےگفتگو میں ڈاکٹر اقتدار فاروقی کہتے ہیں کہ ‘‘میں نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں بھی اِس بات کی وضاحت کی ہے کہ یہ کتاب صرف ایک سائنسی کاوش کا نتیجہ ہے۔جسے کسی بھی زاویے سے تفسیر قرآن کے زمرہ میں نہیں لایا جا سکتا۔اور سچ پوچھئے تو میں اِس کا اہل بھی نہیں ہوں کہ قرآن پاک پرمذہبی نقطہ نظر سے تفسیر لکھ سکوں۔میں نے تو صرف قرآن مجید اور اُس کے انگریزی و اردو تراجم کا مطالعہ کرکے ان اشجار و اثمارکی ایک فہرست مرتب کی ہے، جن کا ذکر مختلف آیات میں آیا ہے۔اور پھر علماء کی مشہور و معروف تفاسیر کی مدد سے ان پودوں کو موجودہ نباتاتی ،کیمیاوی اور طبّی علم کی روشنی میں بیان کیا ہے۔

ہم پہ دروازے کھلیں گے دانش و ادراک کے

ڈاکٹر اقتدارحسین فاروقی جدید دور کے دانشور،محقق،سائنس داں اور ماہرِ نباتات قرار دئیے جاتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے نباتاتی کیمسٹری پر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے۔ڈاکٹر صاحب کی اب تک 36 کتب،طب ،سائنس،نباتات اور علم پر شائع ہو چکی ہیں۔1936 میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی صاحب نے ‘‘منّ و سلویٰ’’ کے عنوان سے اپنا پہلا مضمون لکھ کر قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ڈاکٹر فاروقی کے تعلق سے شارب ردولوی صاحب کہتے ہیں کہ‘‘ڈاکٹر اقتدارحسین فاروقی نے اپنے میدان عمل میں جو کام کئے ہیں اور جن ابعاد پرنباتات اور کیمیائی تحقیق کو فروغ دیا وہ اپنی جگہ اہم ہے لیکن نباتات قرآنی پر جو کام انہوں نے کیا وہ ایساکام ہے جس نے انہیں بڑے سائنس دانوں کی صف میں شامل کردیا۔’’واضح رہے کہ‘‘ نباتاتِ قرآن ۔ایک سائنسی جائزہ’’اب تک تیرہ سے زائد زبانوں میں شائع ہو چکی ہے۔

اتنا ہی نہیں اِس شاہکار کتاب کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ڈاکٹر صاحب سے پہلے کسی نے بھی اِس جانب توجہ نہیں دی تھی۔طب اور نباتات کا اِس رُخ اور پہلو سے کسی بھی طب و کیمیا پر کام کرنے والوں نے مطالعہ نہیں کیا تھا۔چونکہ وہ سائنس داں ہیں اِس لیے چیزوں کو سائنسی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔قرآن،سائنس اور نباتات کے متعلق اُن کی کئی کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں ۔جن میں طب نبوی اور نباتاتِ احادیث،معاشی پودے،سائنس نامہ ،دنیائے اسلام کا عروج و زوال اور سب سے زیادہ مشہور نباتاتِ قرآن۔ ایک سائنسی جائزہ شامل ہیں۔نباتاتِ قرآن۔ایک سائنسی جائزہ کو اردو، انگریزی اور ہندی میں خود ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی نے تحریر کیا ہے۔آواز دی وائس سے گفتگو کے دوران اُن کا کہنا تھا کہ‘‘میری سبھی کتابیں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں موجود ہیں۔

قرآن میں ہو غوط زن اے مرد مسلماں

ڈاکٹر صاحب کو شکایت ہے کہ ہمارے یہاں نہ سائنس کی اہمیت ہے اور نہ سائنٹسٹ کی۔اب تو پھر بھی حالات بہتر ہوئے ہیں ورنہ ایک زمانہ تھا کہ سائنس سے بیزاری تھی۔گفتگو کے دوران اپنے پہلے مضمون‘منّ سلویٰ’ کا ذکر کرتے ہوئے ہنس کر کہتے ہیں کہ‘‘میں نے اِس موضوع پر لکھ تو لیا تھا لیکن میں پریشان تھا کہ کہیں مولوی حضرات خفا نہ ہو جائیں!میں نے قومی آواز لکھنو کے عثمان غنی صاحب کو مضمون دکھایا اور اُن سے کہا کہ اگر مناسب ہو اور کوئی دقت نہ ہو تو اخبار میں شائع کرو۔

بہر حال وہ مضمون اخبار میں شائع ہوا ۔ میں انتظار کرتا رہا کہ کوئی شکایت کا فون آئے گا۔لیکن اتفاق دیکھئے کہ کوئی ردّعمل نہیں آیا ۔’’اُس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کافور پر لکھا اورکہا کہ جو لوگ قرآنی کافور کو کیمفر سمجھتے ہیں، یہ بالکل غلط ہے۔وہ ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ ‘‘میں مضمون لکھ کر پھر عثمان غنی صاحب کے پاس پہنچا اور اُن سے کہا کہ پہلے مضمون پر تو کوئی ہنگامہ نہیں ہوا لیکن اب یہ مضمون لکھا ہے۔حالانکہ میں نے قرآن کی تفسیریں اور متعدد کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد مضمون لکھا تھا۔لیکن مضمون کی نوعیت سے مجھے خدشہ تھا ، کفر کا فتویٰ لگنے کے قوی امکانات تھے۔ اگلے روز مضمون اخبار میں مضمون چھپا۔ایک دن گزر گیا، اﷲ کا شکر ادا کیا۔دوسرے دن صبح صبح میرے اٹینڈینٹ نے کمرے میں آکر بتایا کہ آپ سے کوئی مولانا ملنے آئے ہیں۔اُس وقت تو میری جان نکل گئی۔

مولانانے بتایا کہ مجھ سے علی میاں صاحب ملنا چاہتے ہیں۔میری حالت خراب ہو گئی ،اور لگا کہ اب بچنے کا کوئی سوال نہیں ہے۔’’اُس واقعہ کو تفصیل سے یاد کرتے ہوئے وہ آگے کہتے ہیں کہ میں نے اگلے دن شام کے وقت حاضر ہونے کا وعدہ کیا کیونکہ میں ایک دن میں اپنی ہمت جٹانا چاہتا تھا۔اور جب میں وہاں پہنچا تو علیک سلیک کے بعد انہوں نے مجھے گلے سے لگا لیا ۔وہ اُس لمحہ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘‘میں اُس وقت ساتویں آسمان پر تھا۔’’ڈاکٹر صاحب اُس ملاقات سے ملنے والی طاقت کے تعلق سے کہتے ہیں کہ تب میں نے سوچا کہ‘‘اب بغیر ڈر کے قرآن کے اور پودوں کے بارے میں مجھے لکھنا چاہئے۔اورپھر جب بھی میرا کوئی مضمون چھپتا تھا تو مولانا علی میاں مجھے فون ضرور کرتے تھے۔’’واضح رہے کہ انہیں کی خواہش پر ڈاکٹر صاحب نے اپنے اُن تمام مضامین کو کتابی شکل میں‘‘نباتاتِ قرآن۔ایک سائنسی جائزہ’’میں یکجا کیا۔جس کا پیش لفظ مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی نے تحریر کیا۔

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

سائنس محض ایک سبجیکٹ کی حیثیت سے پڑھ لینا کافی نہیں ہے۔سائنسی مزاج ہونا ضروری ہے۔میرے نزدیک سائنسی مزاج یا سائنسی فکر وہ ذہنی رویہ ہے جو آزادانہ طور پر فہم و ادراک کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے۔’’ڈاکٹر صاحب اپنی فکر کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سائنسی تعلیم سے زیادہ سائنسی مزاج ہونا ضروری ہے ۔سائنسی تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن سائنس ہو اور سائنسی مزاج نہ ہو،سائنسی فکر نہ ہو ،طبیعت نہ ہو تو وہ قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ہمارے یہاں سائنسی مزاج کی کمی ہے۔سائنس کی ڈگریوں سے نوکری تومل جاتی ہے لیکن میرے نزدیک سائنسی مزاج رکھنے والا سماج بالکل دوسرا ہوتا ہے۔ڈاکٹر صاحب ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ‘‘مسلمانوں کا غیر علمی رویہ دراصل سولہویں صدی میں رواج پا چکا تھا جب انہوں نے یورپ کے تاریک دور کے طور طریق کو اپنا کراپنے زوال کے اسباب پیدا کر لیے جبکہ یورپ نے مسلمانوں کے علمی اور فکری طرزِ زندگی کو اپنا کر ترقی کی جانب گامزن ہونے کے مواقع فراہم کر لیے ،جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔’’وہ انتہائی کرب سے کہتے ہیں کہ نہ جانے کب ہم سائنس کی اہمیت کو سمجھیں گے!

awazurdu

سائنس اور اردو ادب

‘‘میرے خیال میں اردو ادب اور سائنسی ادب دونوں بہت مختلف ہیں۔سائنس ایک الگ علم ہے۔جس پر اردو والوں نے بالکل توجہ نہیں دی ہے۔اردو ادب میں سائنس کے مقام کا جہاں تک سوال ہے تو سید حامد نے کہا تھا، جس کا میں بار بار ذکر کرتا ہوں کہ سائنس سے دوری ملتِ اسلام کی سب سے بڑی محرومی ہے۔’’وہ آواز دی وائس سے گفتگو کے دوران مزید کہتے ہیں کہ‘‘اردو والوں کی سائنس سے بے تعلقی شروع سے چلی آرہی ہے۔سائنٹفک لٹریچر تین سو سال۔ چار سو سال پہلے کا عربی میں مل جائے گا، آپ کو انگریزی میں مل جائے گا، فارسی میں بھی مل جائے گالیکن اردو میں نہیں ملے گا۔اردو میں سائنس لٹریچر کی پیدائش تو ابھی پچیس تیس یازیادہ سے زیادہ پچاس سال، بس!اُس سے پہلے معاملہ بالکل سپاٹ ہے، سنّاٹا ہے۔’’وہ اسلم پرویز صاحب کے ماہنامہ سائنس کو ایک کارنامہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ضرور پچھلے تیس برس سے لگاتار شائع ہو رہا ہے۔جس میں سائنس کی اہمیت اور جدیدسائنسی رجحانات کو خوبصورت انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔وہ اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلم پرویز صاحب اور رفقاء کے ذریعہ منعقد کی جانے والی اردو سائنس کانگریس نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے۔ڈاکٹر فاروقی اردو سائنس کانگریس کو بالکل نئی اور انقلابی سوچ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ‘‘اردو میں سائنس لکھنے والوں کو پہلی مرتبہ میں نے ایک جگہ پر اکٹھا دیکھا ۔دیکھ کر خوشی اور حیرت بھی ہوئی کہ اردو میں سائنس لکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور خاص طور پر جنوبی ہندوستان میں کافی کام ہو رہا ہے۔’’

طاقوں میں سجایا جاتا ہوں،آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں

تعویذ بنایا جاتا ہوں، د ھو دھو کے پلایا جاتا ہوں

ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی 1996 میں سبکدوش ہو گئے تھے ۔اپنی ذمّہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد انہوں نے پہلے سے کہیں زیادہ لکھنا شروع کیا ہے۔ڈاکٹر فاروقی نے سائنس اور قرآن کے حوالے سے متعدد آرٹیکل لکھے ہیں اور کتابیں تصنیف کی ہیں ۔وہ 87سال کی عمر میں بھی قوم کو اپنے قلم سے تحریک دینے میں کوشاں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے لکھے مضامین نمایاں طور پراخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں جو دلچسپی سے پڑھے بھی جاتے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ ‘‘ قوم میں سائنسی فکر ،سائنسی شعور پیدا کرنے کے لیے میرا قلم لگاتار چل رہا ہے۔جب تک میرا ذہن میرا ساتھ دے گا میں لکھتا رہوں گا۔ کیونکہ یہ میرا مشن ہے۔’’ امید ہے کہ اُن کی یہ محنت اور کوششیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔

 

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

 علی گڑھ کی ابن سینا اکیڈمی چار دیواری  میں بندایک  میراث  

Next Post

بھارت سنکلپ یاترا عوام کے لئے حوصلہ افزا

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
سوامتو پراپرٹی کارڈ:  دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

سوامتو پراپرٹی کارڈ: دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

حسن سلوک کی جھلک

2024-12-20
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کی سونامی ! مرض کی دوا کیا؟

2024-12-20
Next Post

بھارت سنکلپ یاترا عوام کے لئے حوصلہ افزا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan