سری نگر، 19 اپریل:
یوں تو وسطی کشمیر کا ضلع بڈگام زیادہ تعداد میں اینٹ بٹھے موجود ہونے کے باعث ہی جانا جاتا ہے لیکن گذشتہ کئی برسوں سے اس ضلع کے اطراف و اکناف میں بھی مختلف قسم کے پھلوں خاص طور پر سیب کے باغات لگانے کا رجحان بھی کافی بڑھ رہا ہے۔
ضلع کے مختلف علاقوں میں اینٹ بٹھوں کے بجائے وسیع و عریض اراضی پر پھیلے سیب کے باغات دکھائی دے رہے ہیں اور کاشتکار ہر سال مزید اراضی پر باغات لگا رہے ہیں۔
کاشتکار دھان کی فصل پر بھی سیب کے باغ لگانے کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ یہ کاشتکاری کا انتہائی منفعت بخش شعبہ ثابت ہو رہا ہے جس سے لوگوں کی اقتصادی حالت بہت مستحکم ہو رہی ہے۔
بیشتر باغ مالکان اب روایتی باغبانی کے بجائے ہائی ڈنسٹی والے سیب کے پودے لگا رہے ہیں جن کے لگانے پر متعلقہ محکمہ کافی مالی معاونت فراہم کرتا ہے۔
یہ ہائی ڈنسٹی والے پودے بیرون ممالک جیسے ہالینڈ اور اٹلی سے منگوائے جاتے ہیں۔
ضلع بڈگام کے کرمشور علاقے میں عبدالغنی نامی ایک کاشتکار نے بیس کنال اراضی پر ہائی ڈنسٹی والا سیب باغ لگا یا ہے۔
انہوں نے یو این آئی کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہا کہ گرچہ اس قسم کے میوہ باغ کی دیکھ ریکھ کے لئے محنت بھی زیادہ لگتی ہے اور پیسہ بھی لیکن یہ کافی منفعت بخش بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’میں نے سال 2019 میں پہلے بارہ کنال اراضی پر ہائی ڈنسٹی پودوں کا سیب باغ لگا یا اور پھر اگلے سال مزید آٹھ کنال اراضی پر لگا دیا‘۔موصوف کاشتکار نے کہا کہ ایک کنال زمین پر 160 سے170 درخت لگ جاتے ہیں جو دو برسوں کے بعد ہی فصل دینے لگتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ روایتی سیب کے درخت دس برس بعد فصل دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ محکمہ یہ باغ لگانے میں نوے فیصد سبسڈی فراہم کرتا ہے جس سے کا شتکار کو کافی مدد ملتی ہے۔
عبدالغنی نے کہا کہ متعلقہ محکمہ صرف مالی مدد ہی فراہم نہیں کرتا ہے بلکہ اس کے افسران وقت وقت پر باغوں کا معائینہ بھی کرتے ہیں اور مفید مشورے بھی دیتے ہیں جس سے ماغ مالکان کسی بھی قسم کے نقصان سے بچ جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ درخت خریدنے سے لے کر پائپ لائن بچھانے اور درختوں کے اوپر جال لگانے پر بھی حکومت مدد کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی پاس کے ایک ہی کنال اراضی ہے تو وہ بھی اس پر ہائی ڈنسٹی کا باغ لگا کر اچھی کمائی کر سکتا ہے۔
موصوف کاشتکار نے کہا کہ جس کے پاس اراضی ہے وہ یہ باغ لگا کر دوسروں کو روز گار فراہم کر سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اس شعبے کی طرف توجہ دیں اور حکومت ان کی مدد کرنے کے لئے تیار ہے۔
پارس آباد سے تعلق رکھنے والے اعجاز احمد نامی ایک باغ مالک نے کہا کہ بیس کنال راضی پر میں نے پہلے ہی ایک سیب کا باغ لگا یا ہے لیکن وہ روایتی باغ ہے۔انہوں نے کہا کہ امسال میں نے مزید بیس کنال اراضی پر ہائی ڈنسٹی باغ لگایا۔
ان کا کہنا تھا کہ دھان کی فصل اگنے سے زیادہ سے زیادہ دو وقت کے کھانے کی سبیل ہوتی ہے اور اس پر خرچہ بھی کافی آتا ہے لہذا لوگ اب باغ لگانے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ وادی کے مختلف اضلاع میں ہزاروں کنال اراضی پر ہائی ڈنسٹی میوہ باغ لگائے گئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ (یو این آئی)