سری نگر،20 اپریل:
وادی کشمیر میں مرد دستکاروں کی طرح خواتین دستکاروں نے بھی اپنی تمام ترصلاحیتوں کو بروئے کار لا کر مختلف دم توڑتی ہوئی دستکاریوں کو زندہ و جا وید رکھا ہے۔
تاہم ان خواتین دستکاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی عدم توجہی اور بیوپاریوں کی لوٹ کھسوٹ ان کی حوصلہ شکنی کا موجب بن رہی ہے اور وہ بھی اب کسب معاش کے لئے دوسرے وسائل کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
وسطی ضلع بڈگام کے ہاورہ کرمشور سے تعلق رکھنے والی محمودہ بانو گذشتہ بیس برسوں سے تلہ سوزی کا کام کرکے نہ صرف اپنی روزی روٹی کی سبیل کر رہی ہے بلکہ وادی کی اس منفرد دستکاری کو زندہ رکھے ہوئے بھی ہے۔ان کے ساتھ قریب تیس پڑھی لکھی لڑکیاں بھی یہ کام کرکے اپنے گھر کے اخراجات کی بھرپائی کے لئے اپنے والدین کا تھوڑا بہت ہاتھ بٹاتی ہیں۔لیکن ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی عدم دلچسپی اور بیوپاریوں کی طرف سے کم اجرت ملنے سے وہ دل شکستہ ہی ہیں۔
محمودہ نے یو این آئی کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہا کہ میرے ہاتھ کی تلہ سوزی کو بیوپاری بہت پسند کرتے ہیں اور خریدار بھی اس کے فریفتہ ہیں لیکن اجرت بہت کم ملتی ہے۔انہوں نے کہا: ’میں گذشتہ قریب بیس برسوں سے یہ کام کرتی ہوں اور میرے ساتھ قریب تیس لڑکیاں جڑی ہوئی ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن ہمیں بہت کم اجرت ملتی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا: ’بیوپاری بہت کم اجرت دیتے ہیں ان کو بھی کمانا ہے لیکن ہم بھی بھر پور اجرت کے حقدار ہیں جو ہمیں نہیں ملتی ہے‘۔موصوفہ نے کہا کہ وادی میں تلہ سوزی کی مانگ میں کوئی کمی نہیں ہے بلکہ اس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اب صرف دلہنوں کے کپڑوں پر ہی تلہ سوزی نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی مختلف ڈیزائن تیار کرتے ہیں جن کی کافی مانگ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک پھیرن (کشمیر کا روایتی لباس) پر پانچ تولہ تلہ سوزی کا کام کرنے کے لئے کم سے کم ایک ماہ لگ جاتا ہے اور پھر ہمیں زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار روپیے مزدوری ملتے ہیں جس میں سے تلہ وغیرہ کا خرچہ خود ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔محمودہ کا ماننا ہے کہ ہمارے کام سے بیوپاری اچھی کمائی کرتے ہیں جبکہ ہمارا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بھی ہماری کوئی خاص مدد نہیں کر رہی ہے۔ان کا کہنا تھا: ’کئی بار متعلقہ حکام ہمارے پاس آئے ہم سے کئی وعدے کئے لیکن پھر وہ پورے نہیں ہوئے‘۔انہوں نے کہا کہ کم اجرت ملنے کے باعث اب کئی خواتین دستکار اس کام سے کنارہ کشی اختیار کر رہی ہیں اور روز گار کے لئے دوسرے وسائل تلاش کر رہی ہیں۔
موصوف خاتون دستکار نے کہا کہ ہم وادی کی ایک خاص دستکاری کو زندہ رکھے ہوئے ہیں جس کے لئے یہاں کی حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ہماری مدد کرے۔انہوں نے کہا کہ تلہ سوزی سے بالخصوص خواتین کاریگر اچھا روزگار حاصل کر سکتی ہیں۔ ان کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ ان کی طرف توجہ دے کر ان کو در پیش مسائل کو حل کرے۔
ادھرماہرین کا ماننا ہے کہ دستکاروں کی حوصلہ شکنی سے کئی دستکاریوں کا وجود ختم ہونے کے خطرات لاحق ہیں۔ظہور حسین نامی ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ہمارے دستکار کشمیری ثقافت کے ایک اہم جز کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کی حوصلہ شکنی سے نہ صرف ایک فن دفن ہوجائے گا بلکہ ہماری شناخت کو بھی ٹھیس پہنچے گی۔ (یو این آئی)